عزاء عاشور و اربعین تہوار نہیں، تحریک ہیں


ہمارے بچپن میں محلے کہ دو بڑے امام باڑوں، کہ جن کو سندھی میں ”پڑ“ کہا جاتا ہے، میں 27 ذوالحج کو نقارے بجا کے استقبال محرم کیا جاتا تھا۔ یہ نقارے ان نقاروں کی شبیہ تصور کیے جاتے ہیں جو امام حسین علیہ السلام کے مدینہ چھوڑتے وقت اعلان کوچ کے طور پہ بجائے گئے۔

یہ اعلان محض امام ؑکے مدینہ چھوڑنے کا نہیں تھا بلکہ یہ اعلان تھا اس انکار کا جو ایک فاسق و فاجر حاکم کے سوال بیعت کے جواب میں دیا گیا تھا۔ وہ انکار جس نے عالم انسانیت کونہ صرف رمز حریت سے روشناس کروایا بلکہ ظلم و جبر کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کا ہنر بخشا۔

امام ؑکا گھر سے نکلنا اور پھر احرام حج توڑ کے رخت سفر باندھنا اس بات کی دلیل ہے کہ جب بات حق کی سربلندی کے لئے باطل سے ٹکرانے کی آئے تو پھر روضۂ رسول ﷺ ہو یا خانۂ خدا، ان کی مجاوری سے زیادہ اہم حق پذیری کے لئے قیام کرنا ہوتا ہے۔

یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ لفظ قیام کے جو معنی و مفہوم و مطالب عربی میں عموماً لئے جاتے ہیں اس کو ہمیشہ سے جنگ و جدال اور بغاوت کے طور پہ ہی مانا جاتا رہا ہے۔ مگر قیام امام حسین علیہ السلام نے اس لفظ کو نئی جہتیں بخشیں۔ اب یہاں لفظ ”قیام“ جدال و قتال کہ بجائے اپنے سے بظاہر طاقتور اور ظالم کے سامنے جرت انکار کے ساتھ ڈٹ جانے کا استعارہ بن گیا۔

اور بجائے بے دریغ گلے کاٹنے کے اپنی موت کو مات دیتے ہوئے جذبۂ قربانی کے ساتھ حیات جاودانی سے متمسک ہونے کی سبیل فراہم کرتا رہا اور کرتا رہے گا۔ تاکہ انسان اپنی ظاہری کمزوری کو پس پشت رکھتے ہوئے اور دائرۂ انسانیت سے مسلسل ہوکے بلا خوف و خطر ظالم کی حس حیوانیت سے بہم نبرد آزما ہو سکے۔

قیام امام حسین ؑ اپنی ذات میں خود ایک تحریک رہی جبکہ عزاء عاشور و اربعین اس کے طول و تسلسل میں ایک تحریک ہے جس کی بنا خواہر امام حسین مخدومہ ء کونین بی بی زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا نے کچھ اس انداز سے رکھی کہ جس نے قصر ملوکیت کو لرزہ بر اندام کر کے رکھ دیا۔

اور بعد از قتل امام حسین ؑ گیارہ محرم سے لے کر داخلہ دربار ابن زیاد و یزید لعین تک اور اس کے بعد بوقت اربعین کہ جب خواہر امام حسین ؑ بھائی کا چہلم کرنے گلزار کربلا میں وارد ہوئیں، اس سارے عرصے میں اہل البیت رسول نے بنا کسی ظاہری طاقت، تیر و تبر، نیزہ و بھالے کے محض اپنی کیفیت حزن کے ساتھ ملوکیت کے چہرے سے نقاب ہٹا کے اس کا مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب کر کے رکھ دیا۔

اس عزادار قافلے نے قریہ قریہ بستی بستی اپنی حالت حزن کے اعجاز سے لوگوں کو حاکم کے ظلم و جبر سے نہ صرف آگاہ کیا بلکہ ان میں حق شناسی، حق پرستی اور حق پذیری کی ایک نئی روح پھونکی جس نے بالآخر ملوکیت کی بساط پلٹ کر رکھ دی۔

یہ عزاء عاشور و اربعین ہی ہے جس نے بی بی زینب کی طرف سے یزید لعین کو دیے ہوئے چیلنج کو حقیقت کا روپ دیا کہ ”تو ہمارے ذکر کو کسی صورت ختم نہیں کر سکتا“ ۔ یہ اعجاز بھی عزاء عاشور و اربعین ہے کہ جو سلسلہ بی بی زینب نے ”وا حسیناؑ“ سے شروع کیا تھا وہ آج ”یا حسینؑ“ سے ہوتا ہوا ”واہ حسین ؑ“ کی شاہراہ پہ گامزن ہے اور ”واہ حسین واہ ؑ سے مسلسل ہوکے صدائے حسین ؑ حسین ؑ سے عالم انسانیت کو عقل و شعور، حق و انصاف اور عشق و محبت سے متصل و مسلسل کرتا جا رہا ہے۔

اس لحاظ سے اگر غور کیا جائے تو عزاء عاشور و اربعین اپنی حیت، حیثیت، مقصد و ہدف الغرض ہر صورت ایک مکمل تحریک ہے۔ جس نے اپنے اثرات و ثمرات کے ساتھ انسانیت کی انگلی پکڑ کے اسے شعب حریت پر لا کے کھڑا کر دیا ہے۔

یہاں پر شاید اس امر کی تکرار کی جائے کہ اگر یہ تحریک ہے تو عاشقان عزا اس کو عبادت کیوں کہتے ہیں؟ اور شاید ناصبیت کے پروردہ ذہن اپنی جیب سے عصبیت کا فیتہ نکال کے ناپنا شروع کردیں کہ اگر عبادت ہے تو واجب ہے یا مستحب، فرض ہے یا سنت؟ الغرض ایک بے سروپا فقہی بحث چھیڑ دی جائے گی تاکہ اس تحریک سے لوگوں پر ہونے والے اثرات کو زائل کیا جاسکے۔

اس امر میں اتنا کہنا کافی ہوکا کہ کسی بحث میں جائے بغیر بس اتنا جاننے اور جانچنے کی ضرورت ہے کہ دین میں مظلوم کی حمایت اور ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا کیا حیثیت رکھتا ہے۔ اور اس کے ذریعے تمام ماندہ فقہی سوالوں کا جواب اپنے اپنے مسلک کہ مطابق ڈھونڈ لیا جائے کہ ایک عام مظلوم کی بلا امتیاز مسلک و ملت داد رسی کرنے اس کے لئے آواز اٹھانے اس کے لئے ڈٹ جانے کہ لئے دین کیا حکم دیتا ہے، چہ جائے کے وہ مظلوم کوئی اور نہیں بلکہ بذات خود ذوات مقدسہ آل رسول ﷺ ہوں۔

اب اس کے طول میں دنیا بھر میں مظلوموں کی حمایت میں اٹھنے والی آوازوں کو دیکھ لیں اور خود کو تاریخ کے اس آئینے سے متصل اور مسلسل کر کے دیکھیں کہ آپ کس طرف کھڑے ہیں۔ اگر آپ مظلوم کے ساتھ کھڑے ہیں تو آپ عزاء عاشور و اربعین کی تحریک کا حصہ ہیں اور اگر آپ ظالم کی طرف کھڑے ہیں تو بقول ڈاکٹر علی شریعتی تاریخ کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ پھر آپ مسجد کے محراب میں تھے یا طوائف کے کوٹھے پر۔

امام حسین ؑ کے مدینہ سے نکلتے وقت بجائے گئے نقا رائے کوچ ہوں یا مکہ سے نکلتے وقت کا خطبہ ہو یا پھر میدان کربلا میں دی گئی استغاثۂ ”ھل من ناصرٍ ینصرنی“ یعنی (کیا کوئی مدد کرنے والا ہے جو میری مدد کرے ) آج بھی عالم انسانیت کو بلا امتیاز رنگ و نسل، قوم و قبیلہ، مسلک و مذہب ان کو حق و انصاف، عقل و شعور اور عشق و محبت کے جذبہ سے سرشار ہوکے ظلم و جبر و استبداد کے سامنے جرت انکار کے ساتھ اٹھ کھڑے ہونے کی دعوت دیتے ہوئے مسلسل غیرت انسان کو جگانے کا کام کر رہی ہے۔

عزاء عاشور و اربعین امام ؑ حسین کے مدینہ منورہ سے نکلتے وقت کے نقارہ کوچ، خطبہ مکہ مکرمہ اور استغاثہ ء کربلا کا تسلسل ہے۔ جس کی کرنیں اب دشت کربلا سے اٹھ کر پورے یورپ، امریکہ، مشرق بعید الغرض پورے عالم کو منور کر رہی ہیں۔ اور جن کو نہیں پتا تھا وہ بھی آج کربلا جان کر اس تحریک سے اس طرح جڑ رہے ہیں کی حضرت جوش ملیح آباد کی یہ بات سچ ثابت ہو رہی ہے کہ

کیا صرف مسلمان کے پیارے ہیں حسین
چرخ نوع بشر کے تارے ہیں حسین
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی، ہمارے ہیں حسین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments