کشمیر میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما کے گھر پر دستی بم سے حملہ


فائل فوٹو
سرینگر — بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے مقامی رہنما کے گھر پر دستی بم حملے میں اُن کا چار سالہ بھتیجا ہلاک اور چھ افراد زخمی ہوئے جن میں بی جے پی رہنما جسبیر سنگھ، اُن کے والدین، بڑا بھائی اور دو بچے شامل ہیں۔

راجوری میں جمعرات کی شب کو بی جے پی کے علاقائی یونٹ (منڈل) کے صدر جسبیر سنگھ کے گھر پر دستی بم حملے کیا گیا۔ اس سے ایک دن قبل مضافاتی گاؤں چھکلی میں ایک 28 سالہ شخص انکُش کمار شرما کو نامعلوم افراد نے خنجر کے وار کرکے قتل کر دیا تھا۔

جمعے کو سناتن دھرم سبھا اور بعض دوسری مقامی ہندو تنظیموں کی طرف سے کی گئی اپیل پر احتجاجی ہڑتال بھی کی گئی۔

گزشتہ پیر کو اننت ناگ میں مشتبہ عسکریت پسندوں نے بی جے پی کے ایک مقامی رہنما اور سرپنچ غلام رسول ڈار اور اُن کی اہلیہ جواہرہ بانو کو فائرنگ کر کے قتل کیا تھا۔

کشمیر میں اس سے پہلے بھی بی جے پی اور دوسری بھارت نواز سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں، کارکنوں اور بعض اوقات اُن کے اہلِ خانہ پر حملے ہوئے ہیں۔ البتہ بی جے پی کے ترجمان بریگیڈئر (ر) انیل گپتا کا کہنا ہے کہ راجوری میں، جہاں سیکیورٹی کی صورتِ حال نسبتاََ بہتر ہے، پارٹی کے مقامی رہنما پر کیا گیا حملہ غیر متوقع تھا۔

بی جے پی کے ترجمان نے وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں اس واقعے کے لیے پاکستان کی مبینہ پشت پناہی میں سرگرم دہشت گردوں کو موردِ الزام ٹھیراتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد راجوری جیسے حسَاس علاقے میں، جہاں ہندو اور مسلمان آبادی تقریباََ برابر ہے، فرقہ وارانہ فسادات کرانا ہے۔

ان کے بقول پاکستان نہیں چاہتا کہ جموں و کشمیر میں امن قائم ہو۔ جمہوریت کا بول بالا ہو اور سب سے بڑھ کر وہ یہاں فرقہ وارانہ فسادات کرانا چاہتا ہے۔

پاکستان بھارت کی حکومت یا سیاسی رہنماؤں کے اس طرح کے الزامات کی سختی سے تردید کرتا رہا ہے کہ وہ نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں سرگرم عسکریت پسندوں کی کسی بھی طرح کی مدد کر رہا ہے۔

تاہم اسلام آباد کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت کی توثیق کرتے ہوئے ان کی سیاسی، اخلاقی اور سفارتی مدد کرتا ہے اور کشمیر کا مسئلہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے تحت کشمیری عوام کی خواہشات اور امنگوں کے مطابق جلد از جلد حل کرنا چاہتا ہے۔

بھارت کے وزیرِ مملکت ڈاکٹر جتندر سنگھ نے راجوری کے واقعے پر کہا کہ مخصوص مفاد رکھنے والے سیاسی عناصر اور ایسے گروہوں کے درمیان گٹھ جوڑ ہے جن کی پشت پناہی بیرون ملک سے ہو رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس گٹھ جوڑ میں چند ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو راتوں رات امیر بن گئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دہشت گردی جاری رہے کیوں کہ انہوں نے گزشتہ تین دہائیوں کے دوران مالی اور دوسرے فوائد حاصل کیے ہیں۔

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک بُزدلانہ حملہ تھا۔ اس میں ملوث افراد کو بہت جلد انصاف کے کٹھرے میں لایا جائے گا۔

ادھر جنوبی ضلعے کلگام میں سیکیورٹی فورسز سے جھڑپ میں ایک مشتبہ عسکریت پسند ہلاک ہوا۔ جس کے بارے میں پولیس حکام کا کہنا ہے کہ وہ پاکستانی شہری عثمان تھا۔ جھڑپ میں دو سیکیورٹی اہلکار اور دو شہری زخمی ہوئے۔

اس دوران سرینگر کی جامع مسجد درگاہ حضرت بل اور چند دوسری عبادت گاہوں میں جمعے کی نماز پڑھنے نہیں دی گئی۔ حکام نے بتایا کی ایسا کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کی غرض سے کیا گیا۔

سرکردہ مذہبی اور سیاسی رہنما میر واعظ عمر فاروق نے، جو سرینگر میں اپنے گھر میں گزشتہ دو سال سے نظر بند ہیں، کہا کہ مسلمانوں کو وبا کا بہانہ بنا کر مذہبی فرائض کی انجام دہی اور اجتماعی عبادت سے روکا جا رہا ہے۔

حکام نے اس تنقید کا تاحال کوئی جواب نہیں دیا ہے۔ البتہ لیفٹننٹ گورنر سنہا نے گزشتہ دنوں لوگوں پر زور دیا تھا کہ کرونا وائرس کی تیسری لہر کا خطرہ منڈ لا رہا ہے اس لیے احتیاط کی جائے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments