شیخ رشید صاحب کیا نئے طالبان واقعی مہذب ہو گئے ہیں؟


جولائی کے وسط میں پاکستان کے وزیر داخلہ شیخ رشید صاحب نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ”نئے مہذب طالبان بندوق کی بجائے مذاکرات کو زیادہ پسند کر سکتے ہیں۔“ [ڈان 12 جولائی 2021 ]اس بیان سے یہی مطلب اخذ کیا جا سکتا ہے کہ شیخ رشید صاحب کے نزدیک پہلے تو طالبان مہذب نہیں تھے مگر اب انہوں نے تہذیب سیکھ لی ہے۔ اور تازہ تازہ مہذب ہونے کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ اب طالبان گولی چلانے کی بجائے مذاکرات کا راستہ اختیار کریں گے۔

میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ پاکستان کے وزیر داخلہ کو یہ بیان جاری کرنے اور طالبان کو تہذیب کا سرٹیفیکیٹ جاری کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ طالبان کا اپنا ترجمان موجود ہے۔ انہوں نے اپنے دفاع میں جو کچھ کہنا ہے خود کہہ سکتے ہیں۔ یہ بیان اسی فلسفہ کا تسلسل معلوم ہوتا ہے، جس کے تحت امریکہ کی ایجنسیوں نے ”گڈ طالبان“ دریافت کیے تھے۔ اور جس فلسفے کے تحت امریکہ نے افغانستان سے اپنی افواج کو نکالنا شروع کیا تا کہ گڈ طالبان اپنے پاؤں پھیلا سکیں۔ خواہ اس کے نتیجے میں امریکہ کی اتحادی افغان حکومت تباہی تک پہنچ جائے۔

اس پر کم از کم پاکستانیوں کو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ کیونکہ ہم کئی مرتبہ امریکہ کے اتحادی بننے کا اعزاز بھگت چکے ہیں۔ بہر حال اب جبکہ وزیر داخلہ صاحب کے اس انکشاف کو ایک ماہ گزر چکا ہے، ہم اس تجزیہ کے صحیح یا غلط ہونے کے بارے میں کوئی رائے قائم کر سکتے ہیں۔

سب سے پہلے تو یہ بات قابل ذکر ہے کہ گزشتہ ایک ماہ میں یہ نظریہ بالکل غلط ثابت ہو چکا ہے اب طالبان گولی اور تشدد کی بجائے مذاکرات کا راستہ اختیار کریں گے۔ اس ایک مہینے کے دوران طالبان حملے کر کے ایک کے بعد دوسرے صوبائی دارالحکومت پر قبضہ کرتے رہے ہیں۔ جمعہ کے روز طالبان نے افغانستان کے دوسرے اور تیسرے بڑے شہر ہرات اور قندھار پر قبضہ کیا ہے۔

ویسے تو افغان حکومت کے وزرا اپنے آبا و اجداد کی بہادری کے کافی قصے سناتے رہے ہیں لیکن جب طالبان نے حملہ کیا تو افغان افواج کسی قابل ذکر کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر سکیں۔ سمجھ نہیں آتی کہ افغان افواج کو مسلح کرنے اور ان کی عسکری تربیت پر کئی ممالک نے بیس سال میں اربوں ڈالر خرچ کیے ہیں لیکن اس کے باوجود افغان فوج ایک گروہ کے دستوں کے آگے تحلیل ہوتے ہوئے نظر آ رہی ہے۔ یہاں تک افغان شہریوں نے یہ شکوہ کیا کہ ہمیں بیچ دیا گیا ہے کیونکہ ہماری حکومت کوئی مزاحمت نہیں کر رہی۔ قندھار کی ایک لڑکی نے اپنے آنسوؤں کو روکتے ہوئے کہا کہ ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ حکومت اس طرح بغیر مزاحمت کے شہر کو طالبان کے حوالے کر دے گی۔

کیا افغان افواج کی تعداد طالبان سے کم ہے؟ نہیں ان کی تعداد طالبان کے فوجیوں سے زیادہ ہے۔ کیا افغان افواج کے پاس اسلحہ نہیں ہے؟ نہیں ان کے پاس طالبان سے بہت بہتر اسلحہ موجود ہے۔ افغان حکومت کے پاس فعال ائر فورس موجود ہے۔ پینٹاگون کے نمائندہ جان کربی نے بیان دیا ہے کہ کاغذوں پر تو افغان فوج کو برتری حاصل ہے اور انہیں چاہیے کہ وہ اس برتری کا فائدہ اٹھائیں۔ اور ان کی حکومت عزم، سیاسی اور عسکری قیادت کا مظاہرہ کرے۔ اور مزاحمت کرنا شروع کرے۔

جیسا کہ افغان حکومت کے سرپرستوں نے اعتراف کیا ہے کہ افغان حکومت کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ مزاحمت کے لئے پر عزم نہیں ہیں۔ یعنی وہ حکومتی عمائدین جو پاکستان کے خلاف شیروں طرح گرج رہے تھے، اب مشکل کے وقت میدان عمل میں اس سے بدتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں جس کا مظاہرہ جنرل نیازی صاحب نے مشرقی پاکستان میں کیا تھا۔

عمران خان صاحب بار بار بیان دے رہے ہیں کہ میں نے تو پہلے ہی کہا تھا کہ افغان مسئلہ کا کوئی جنگی حل موجود نہیں ہے اور امریکہ کو اس کا سیاسی حل تلاش کرنا چاہیے تھا۔ وہ یہ بھول رہے ہیں کہ اس وقت طالبان افغانستان پر جنگی حل ہی مسلط کر ر ہے ہیں۔ وہ بھی سیاسی حل کی طرف کا رخ تک نہیں کر رہے۔ اس سے یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ یہ حل بھی افغانستان کے لئے اتنا ہی تباہ کن ثابت ہو گا جتنا تباہ کن امریکہ کا مسلط کردہ حل ہوا تھا۔

ابھی طالبان کے بڑھتے ہوئے تسلط کو صرف چند ہفتے ہوئے ہیں۔ اس وقت کیا زمینی حقائق دکھائی دے رہے ہیں؟ کیا طالبان افغانستان میں تہذیب اور شائستگی کی نہریں جاری کر ہے ہیں؟ افغانستان میں جریدے فارن پالیسی کے نمائندے او ڈونل کا کہنا ہے کہ اس وقت کابل ایک محصور ملک کا محصور شہر لگ رہا ہے۔ کابل کے پارک مختلف شہروں سے بھاگے ہوئے لوگوں کے کیمپوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ طالبان راستوں کو بند کر رہے ہیں۔ اس لئے اشیا ضرورت کی قیمتیں تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ طالبان ان لوگوں کو گرفتار کر رہے ہیں جو افغان حکومت کے لئے کام کرتے تھے۔ میدان جنگ میں بربریت کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ لاشوں کو بھی مسخ کیا جا رہا ہے۔ عورتوں کو کہا جا رہا ہے سوائے اس کے کہ گھر سے نکلتے ہوئے کوئی گھر کا مرد ان کے ساتھ ہو وہ گھروں سے باہر نہ نکلیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ عورتوں کو اٹھا کر ان کی شادیاں طالبان جنگجوؤں سے کر دی جائیں گی۔ لڑکیوں کے سکول بند کیے جا رہے ہیں۔

مجھے علم ہے کہ بہت سے پڑھنے والے ان باتوں کو مغربی پروپیگنڈا قرار دیں گے۔ لیکن صبر کریں۔ حقائق زیادہ دیر تک پوشیدہ نہیں رہیں گے۔ جس طرح پہلے بھی پوشیدہ نہیں رہے تھے۔ اگر طالبان بدل چکے ہیں تو دنیا کو علم ہو جائے گا اور اگر وہ اپنی سابق روش پر قائم ہیں تو بھی دنیا کو خبر ہو جائے گی۔ لیکن اس متنازع معاملہ میں پاکستان کے وزیر داخلہ کو اس قسم کا بیان جاری کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی جبکہ ماضی کے تجربات ان کی امیدوں کی تائید نہیں کر رہے۔ اور اس بیان کے بعد بھی جو حالات رونما ہو رہے ہیں وہ شیخ رشید صاحب کے نظریات کو جھٹلا رہے ہیں۔ آج ہی اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے بیان جاری کیا ہے کہ افغانستان میں حالات قابو سے با ہر ہو رہے ہیں۔ اور افغانستان کے لئے خانہ جنگی سے کے کر بین الاقوامی تنہائی تک کے خطرات موجود ہیں۔ اور طالبان کے قبضہ میں آنے والے علاقوں میں انسانی حقوق پامال کیے جا رہے ہیں اور خاص طور پر عورتوں اور صحافیوں کے لئے خطرات بڑھ رہے ہیں۔

میرے خیال میں ان حالات میں مناسب ہو گا اگر پاکستان کی طرف سے افغانستان کے بارے میں غیر ضروری بیانات جاری نہ کیے جائیں اور نہ ہی اس بارے میں افغان حکومت یا امریکہ یا باقی دنیا کو مفت کے مشوروں سے نوازا جائے۔ ہمیں بہر حال پاکستان کے مفادات کی حفاظت کرنی ہے۔ اور موجودہ حالات میں کوئلوں کی دلالی میں محض اپنا منہ ہی کالا کیا جا سکتا ہے۔

جہاں تک شیخ رشید صاحب کی روز افزوں پریس کانفرنسوں کا تعلق ہے تو اب تک یہ واضح ہو چکا ہے کہ ان کی سیاسی بصیرت کی صحت ایسی نہیں ہے کہ وہ اتنے اعتماد سے مستقبل کے بارے میں اپنے پیشگوئیوں کا اعلان کریں۔ اگر وہ اس مسئلہ پر خاموشی اختیار کریں تو اس سے پاکستان کو کافی فائدہ ہو سکتا ہے

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments