گلیاں ہو جان سنجیاں، وچ (فیاض الحسن) چوہان پھرے


پنجاب کے صاحب بہادر نے اپنی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان کو عہدے سے ہٹا دیا ہے یا یوں کہہ لیں کہ ان سے استعفی لے لیا گیا ہے، فردوس عاشق اعوان کا ریکارڈ ہے کہ انہیں ہمیشہ ان کی اپنی ہی حکومتیں ”باعزت“ رخصت کر دیتی ہیں، پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں بھی ”باعزت“ رخصت کی گئیں، عمران حکومت میں معاون خصوصی اطلاعات و نشریات تھیں، وہاں سے بھی ”باعزت“ رخصت ہوئیں اور ”کارناموں“ کی طویل فہرست لے کر دربدر صفائیاں پیش کرتی رہیں

وفاق سے ان کی رخصتی کا معاملہ ٹھنڈا ہوا تو وزیراعظم عمران خان نے ان کو پنجاب میں بھیج دیا، جہاں وہ اپنا چورن بیچنے لگیں، راج کماری اور ان کی دو ”کنیزوں“ کو نشانے پر رکھا، مسلم لیگ نون کو ٹف ٹائم دیا، پھر اچانک انہوں نے استعفے کی پیشکش کردی جسے مسترد کر دیا گیا، پھر چند روز بعد ہی ان سے استعفی لے ہی لیا گیا

استعفی لینے کے معاملے پر میڈیا پر مختلف خبریں چل رہی ہیں، ایک بڑے ٹی وی چینل نے فخریہ انداز میں اندورنی کہانی عوام کو سنا دی، کہانی میں بتایا گیا ہے کہ وزیراعلی عثمان بزدار اور فردوس عاشق اعوان نے ایک دوسرے کے الٹے سیدھے نام رکھے ہوئے تھے اور نجی محفلوں میں اسی نام سے ذکر کیا جاتا، ان ناموں کو یہاں لکھنے کی جسارت نہیں کر سکتا، یہ تو ایک ٹی وی چینل نے کہانی سنائی ہے، اندرون خانہ کہانیاں اور بھی چل رہی ہیں

کسی کو لگانا یا ہٹانا، کپتان یعنی وزیراعظم یا وزیراعلی کا حق ہوتا ہے، کپتان جس کھلاڑی کو جہاں مناسب سمجھے لگا دیتا ہے، اب یہ کپتان کی خوش قسمتی ہوتی ہے کہ اگر کھلاڑی جا کر کھیل ہی پلٹ دے اور میچ جتا دے یا بدقسمتی بھی ہو سکتی ہے کہ کھلاڑی ٹھس ہو جائے اور جیتا ہوا میچ بھی ہار جائے، جیت گیا تو کپتان کی بلے بلے اور اگر ہار گیا تو کپتان کی وہ ہوتی ہے کہ پوچھیں ہی نا۔

اہم بات یہ ہے کہ فردوس عاشق اعوان کو جس طرح نکالا وہ نئی بات نہیں، اس سے قبل ترجمان پنجاب حکومت ڈاکٹر شہباز گل کو بھی اسی انداز میں نکالا گیا تھا، شہباز گل کا استعفی بھی اچانک لیا گیا، اتنا اچانک لیا گیا کہ خود شہباز گل کو بھی نہ سمجھ آئی کہ ان کے ساتھ ہوا کیا ہے، شہباز گل پر بزدار حکومت کے خلاف شکایات اور جھوٹی رپورٹس وزیراعظم عمران خان کو بجھوانے، بیوروکریسی پر کنٹرول اور دیگر الزامات لگائے گئے، فردوس عاشق اعوان کے معاملے میں بھی اسی سے ملتا جلتا ہوا۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا شہباز گل یا فردوس عاشق اعوان کی اتنی اوقات تھی کہ وہ وزیراعلی ہاؤس یا بیوروکریسی پر کنٹرول حاصل کر سکتے، دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ دونوں غیر منتخب شخصیات ہیں، اب اگر عثمان بزدار ان سے ڈر گئے اور ان کو فارغ کرا دیا تو پھر اس منظر کو ذہن میں لائیں کہ جب مسلم لیگ نون نے پیپلز پارٹی کی پنجاب میں تحریک عدم اعتماد لانے کی تجویز مان لی اور اس پر عملدرآمد شروع ہو گیا تب عثمان بزدار کی کیا کیفیت ہوگی؟

بہرحال میں ان کہانیوں سے متفق نہیں، یہ ہمارے آج کل کے پھنے خان صحافیوں کے معجزات ہیں کہ وہ ون آن ون ملاقات کی بھی اندرونی کہانی نکال لاتے ہیں اور پھر ٹی وی سکرین پر پھٹے بجتے ہیں، نجانے ان پھنے خان صحافیوں کے پاس کیا طاقت ہے کہ وہ دلوں کے بھید بھی جان لیتے ہیں، اس حد تک ضرور اتفاق کرتا ہوں کہ دونوں شخصیات کسی حد تک تجاوز کر گئی تھیں، خدا جب حسن دیتا ہے تو نزاکت آ ہی جاتی ہے مگر یہ کوئی ایسی خاص وجوہات نہیں کہ عثمان بزدار ان کو عمران خان سے کہہ کر فارغ کرا دیں۔

فارغ ہونے والی دونوں شخصیات کیونکہ عمران خان سے براہ راست رابطے میں رہنے والی تھیں اس لئے شاید وہ کسی مقام پر حد سے تجاوز کر گئے ہوں، اصل معاملات کچھ اور ہیں، فردوس عاشق اعوان کی فراغت میں پنجاب کے چودھری پرویز الہی کا بھی کچھ نہ کچھ حصہ ہے کیونکہ چودھری برادران نے اگلے الیکشن کی تیاری شروع کردی ہے اور اپنی کچھار میں کسی کو گھسنے کی اجازت نہیں دے سکتے ورنہ خود بھوکے مر جائیں گے۔

عثمان بزدار نے تین سالہ دور میں اطلاعات کے وزیر، معاون خصوصی اطلاعات کئی بار بدلیں، سب سے پہلے فیاض الحسن چوہان کو پنجاب کا وزیر اطلاعات بنایا گیا مگر اپنی حرکتوں اور لمبی لتری کی وجہ سے ہٹا دیے گئے، موصوف اداکارہ و رقاصہ نرگس کو حاجن بنانے چلے تھے اور اپنی وزارت سے ہی ہاتھ گنوا بیٹھے، پھر صمصام بخاری کو یہ ذمہ داری سونپی گئی مگر وہ دھیمے اور سلجھے مزاج کے انسان تھے، شاید پی ٹی آئی کو اوئے، اوئے کرنے والے وزیر کی ضرورت تھی، پھر اسلم اقبال کو لایا گیا مگر وہ بھی شاید اوئے توئے نہ کرسکے، مجبوراً فیاض الحسن چوہان کو دوبارہ پنجاب کا وزیر اطلاعات بنا دیا گیا، پھر اوپر سے باجی فردوس نازل ہو گئیں

اب فردوس عاشق اعوان کو فارغ کرنے کے بعد ایک بار پھر فیاض الحسن چوہان کو آگے لایا گیا ہے، اس بار ان کو وزارت اطلاعات تو نہیں دی گئی، ان کو ترجمان پنجاب حکومت کی اضافی ذمہ داری سونپ دی گئی، بار بار کوئی چیز لے کر واپس لے لی جائے تو چھوٹا سا بچہ بھی وہ چیز اٹھا کر مارے گا کہ کیا مذاق بنا رکھا ہے مگر فیاض الحسن چوہان کے حوصلے کو داد دینی چاہیے کہ وہ بار بار مذاق کو مذاق ہی لیتے ہیں۔

اس بار فیاض الحسن چوہان ایک بات میں کامیاب ہو گئے ہیں کہ جب ان کی تقرری کا نوٹیفکیشن جاری ہوا تو اس میں یہ بھی حکمنامہ ہے کہ پنجاب حکومت کے ماضی میں بنائے گئے 30 ترجمان پنجاب حکومت سب فارغ ہیں اب صرف فیاض الحسن چوہان ہی ترجمان پنجاب حکومت ہوں گے، جیو فیاض الحسن چوہان۔ گلیاں ہو گئی آں سنجیاں وچ چوہان یار پھرے۔ مگر یاد رکھنا یہاں فارغ ہونے میں دیر نہیں لگتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments