اشرف غنی کی رخصتی اور نیا بفر سٹیٹ


میں نے گزشتہ دو کالموں میں طالبان کی چابک دست سفارتکاری ان کی سیاسی بلوغت اور مذاکرات کاری کی نشاندہی کی تھی جس کے نتیجے ان کو مطلوبہ نتائج وقت سے پہلے ملنے شروع ہو گئے ہیں۔ ان دونوں کالموں پر چند قارئین نے مجھے پیڈ رائٹر اور طالبان کے خیرخواہ جیسے تمغے اور طعنے دیے۔ انسانی عادت ہے کہ وہ اپنی خواہش کو حقیقت سمجھنے لگتے ہیں۔ یہی تنقید کرنے والوں نے بھی کیا ورنہ معمولی سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والا انسان بھی افغانستان کے اندر تبدیل ہونے والی صورتحال پر چونک جاتا ہے۔ کیونکہ افغانستان کے پاس کاغذ پر لاکھوں فوج سینکڑوں ہوائی جہاز ہیلی کاپٹرز اور بھاری فائر پاور کے ہوتے ہوئے زمین پر ہلکے ہتھیاروں اور بغیر جوتوں کے بے نام لوگ کیسے مسلسل آگے بڑھ رہے ہیں۔ جب آپ دیکھیں کہ شہر کے بعد شہر گر رہے ہیں۔ مختلف ممالک میں موجود افغان سفراء کسی نہ کسی بہانے مغربی ممالک میں پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ افغانستان کا اشرافیہ اپنے خاندانوں کو محفوظ مقامات (مغربی ممالک) منتقل کر رہا ہے۔ دوران جنگ جرنیل تبدیل کیے جا رہے ہیں، اشرف غنی کے ساتھ بات چیت کرنے کی بجائے چین روس اور ایران طالبان سے اپنے مستقبل کے تعلقات پر مذاکرات کر رہے ہوں تو پھر حقیقت سے آنکھیں چرانا خود فریبی کے مترادف ہے۔

افغانستان میں نظام حکومت بظاہر جمہوری ہے لیکن وہاں کا معاشرہ اس کے بالکل الٹ یعنی مکمل قبائلی ہے۔ وہاں وفاداریاں نظام اور اداروں کی بجائے شخصیات اور قبائلی مفادات کے تابع ہوتی ہیں۔

امریکی ہوں اشرف غنی ہو یا کرزئی، کسی نے بھی حقیقی سیاسی پارٹی یا پارٹیاں بنانے کی کوشش نہیں کی، جو افغانستان میں سیاسی نظام کی مضبوطی اور اداروں کی بقا کے لئے ضروری ہوتیں۔ دوران جنگ آرمی چیف کو نکالنے کے جو بھی وجوہات تھیں، جن کو میں نے بھی ’جمہوری حکومت کی طاقت‘ کہا وہ واقعی صرف اس لئے ممکن ہوسکا کہ آرمی چیف تک بھی افغانستان میں محض صدر کی مرضی سے لگایا اور نکالا جاتا ہے۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ افغانستان میں ادارے کتنے کمزور اور سسٹم کے بغیر قائم ہیں؟

سیاسی پارٹیاں نہ ہونے کی وجہ سے افغانستان میں ذاتی اثر رسوخ اور شخصیات کی حکمرانی ہوتی ہے۔ جن کا پاور بیس ذاتی اور قبائلی احسانات اور سہولیات پر استوار ہے۔

جب تک کوئی شخص صدر، کمانڈر یا گورنر ہوتا ہے اس کا خاندان قبیلہ دوست اور خیر اندیش مزے میں ہوتے ہیں۔ اس لئے وہاں پر کوئی بیوروکریسی ہے نہ کوئی ریاستی نظام، جو سیاسی اور سرکاری عہدیداروں کی تبدیلی کا کام کرسکے یا ان کی تبدیلی کی صورت میں اپنا کام جاری رکھ سکے۔

طالبان جن جن علاقوں پر اپنا پریشر بڑھاتے ہیں وہاں کے گورنر کمانڈر یا منتظم کے رشتہ داروں اور قبیلہ سے رابطہ کرلیتے ہیں اور مطلوبہ ضمانتیں حاصل ہونے کے بعد محفوظ مستقبل کے بدلے میں کرسیاں بدل دی جاتی ہیں۔

سیاسی نظام اور پارٹیاں نہ ہونے کی وجہ سے پارٹی نظریہ ریاست اور نظام کے ساتھ تعلق اور اٹیچمنٹ ہونے کی بجائے وہاں قبیلہ، خاندان، دوست، ذاتی مفادات اور سہولیات کے ساتھ وفاداری کا رشتہ باندھا جاتا ہے۔

جس عمل کو ہم لوٹا کریسی کہتے ہیں اس کو وہاں بروقت فیصلہ کرنے کی صلاحیت، ہوشیاری اور قابلیت سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ شہری اور سیاسی وفاداریاں صرف ذاتی مفادات تک محدود ہوتی ہیں۔ ذاتی دشمنی نہ ہو تو کسی بھی شخصیت کے ساتھ اپنے مفادات اور سہولیات کی خاطر ہاتھ ملانا عار نہیں، موقع شناسی سمجھا جاتا ہے۔

تاریخی طور پر افغانستان میں ہمیشہ دو گروہ نظر آتے ہیں۔ پہلا گروہ وہ جو ہر حملہ آور کے ساتھ مل جاتا ہے۔ اس کی نوکری کرتا ہے اس کا فوجی بنتا ہے سپلائی اور رہنمائی کا کام کرتا ہے اور مراعات سہولیات اور مفادات حاصل کرتا ہے۔ دوسرا گروہ حملہ آور کی مخالفت کرتا ہے۔ اس پر حملے کر کے اسے قتل کرتا ہے لوٹتا ہے نقصانات پہنچاتا ہے۔ پہلے گروہ کے بندے اکثر کسی نہ کسی لیول پر دوسرے گروہ کے ساتھ رابطے میں ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے فوج اور سپلائی کی نقل و حرکت کی بروقت خبریں مخالف گروہ کو ملتی رہتی ہیں۔ جس کی وجہ سے حملہ آور کے خلاف کامیاب کارروائیاں کی جاتی ہیں جس سے حملہ آور کو مسلسل نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یوں دونوں گروہ مال غنیمت میں برابر کے حصہ دار ہوتے ہیں۔ یہ سلسلہ سالہا سال جاری رہتا ہے جس کی وجہ سے حملہ آور کا خزانہ خالی اور حوصلہ ٹوٹ جاتا ہے اور وہ یونان روس اور امریکہ واپس چلا جاتا ہے۔

جونہی حملہ آور کے ریسورسز خشک ہو جاتے ہیں، تو افغانستان میں حملہ آور کے آنے سے پہلے کا قبائلی نظام دوبارہ بحال ہوجاتا ہے۔ اب بھی یہی ہونے جا رہا ہے۔

امریکہ کا آدمی سمجھا جانے کے باوجود اشرف غنی امریکی کا پسندیدہ صدر نہیں یے، کیونکہ اس کے اندر افغانیت کے ایسے جراثیم ہیں جو مستقبل کے امریکی منصوبوں کے لئے نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں، اس لئے اسے کنٹرول کرنے کے لئے پہلے عبداللہ عبداللہ کو اس کا رقیب اور ساجھے دار بنا کر صدارتی اختیارات میں شریک بنایا گیا اور اوپر سے اس کے مسلح سیاسی مخالفین کے ساتھ مذاکرات شروع کر کے اشرف غنی کی اتھارٹی کو مزید زیر بار کر دیا گیا۔

اشرف غنی اور امریکیوں کے درمیان تعلقات کی نوعیت یہ ہے کہ جاتے جاتے امریکیوں نے اشرف غنی کو اطلاع دینے کی بجائے طالبان کو معلومات دے دیں جس کی وجہ سے قیمتی امریکی جنگی اثاثے ان کے ’ہاتھ لگے‘ ۔ قارئین کو یاد ہوگا یہی طریقہ عراق کے تیل سے مالامال علاقوں میں استعمال کیا گیا تھا جس سے داعش کو جنگی گاڑیاں بھاری اسلحہ اور ڈالروں سے بھرے بنک مل گئے تھے۔

عراق اور شام کے تجربات کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ طالبان کو معاہدے کی خلاف ورزی کرنے کی صورت میں سیدھا کرنے کے لیے، ضرورت پڑنے پر، داعش کے نام سے کچھ خفیہ اثاثے شاک ٹروپس کی حیثیت سے استعمال کے لئے کہیں چھپا کے رکھے گئے ہیں۔

ہے درپے شکستوں کی وجہ سے اشرف غنی حکومت مخالفین کو شریک اقتدار بنانے کے لئے آفرز کر رہی ہے، جن کو فوراً مسترد کر دیا جا رہا ہے، جس کی دھمکی بہت پہلے امر اللہ صالح کو دی جا چکی تھی، جب اس نے پاکستان کے بارے میں ہرزہ سرائی کی تھی۔

پچھلے کالموں کی طرح میں پھر کہتا ہوں کہ امریکہ کو شکست ہوئی ہے نہ کہیں گیا ہے۔ وہ یہی پر ہے۔ وہ اپنے منصوبے کے عین مطابق آگے بڑھ رہا ہے۔ ابھی بھی وہ پاکستان کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں، ابھی بھی اس کے مذاکرات طالبان کے ساتھ جاری ہیں۔ جب بھی اسے محسوس ہوتا ہے کہ طالبان اپنی بات سے پھر رہے ہیں یا حسب خواہش کام نہیں کرتے، اسی دن بی باون طیارے اور ڈرون ریپر سے ان کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔ جونہی طالبان حسب معاہدہ سیدھے راستے پر چلنا شروع کر دیتے ہیں امریکی عہدیدار سرکاری طور پر اعلان کر دیتے ہیں کہ افغانستان نے اپنی لڑائی خود لڑنی ہے۔ جب بھی طالبان روس یا چین کے ساتھ اپنے مسائل کے حل کے لئے مذاکرات کر لیتے ہیں امریکی حکومت افغانستان کو فوجی امداد اور ہوائی سپورٹ دینے لگتی ہے۔ ساتھ ساتھ پاکستان کو افغانستان سے مکمل سائڈ لائن کر کے امریکی احساس دلاتے ہیں کہ اس کھیل کے امپائرز اور سلیکٹرز کون ہیں۔ تبھی آرمی چیف کہتا ہے کہ اپنی ناکامی کے لئے کسی اور کو قربانی کا بکرا نہ بنائیں اور وزیر اعظم کہتا ہے کہ بھارت امریکہ کا نیا سٹریٹیجک پارٹنر ہے اس لئے پاکستان کی پرانی پوزیشن نہیں رہی۔

کہانی ختم نہیں ہوئی۔ جنگ ابھی جاری ہے جو مزید پھیل سکتی ہے۔ کولڈ وار سے پہلے افغانستان روس اور برطانیہ کے درمیان بفر سٹیٹ بنایا گیا تھا اب دوسرے کولڈ وار میں چین مخالف قوتیں پاکستان کو چین اور باقی دنیا کے درمیان بفر سٹیٹ بنانا چاہتی ہیں۔

جب امریکہ بھی مخالف ہو پاکستان بھی اور طالبان بھی پھر اشرف غنی کی حکومت کب تک ٹھہر سکتی ہے؟

شازار جیلانی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شازار جیلانی

مصنف کا تعارف وجاہت مسعود کچھ یوں کرواتے ہیں: "الحمدللہ، خاکسار کو شازار جیلانی نام کے شخص سے تعارف نہیں۔ یہ کوئی درجہ اول کا فتنہ پرور انسان ہے جو پاکستان کے بچوں کو علم، سیاسی شعور اور سماجی آگہی جیسی برائیوں میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔ یہ شخص چاہتا ہے کہ ہمارے ہونہار بچے عبدالغفار خان، حسین شہید سہروردی، غوث بخش بزنجو اور فیض احمد فیض جیسے افراد کو اچھا سمجھنے لگیں نیز ایوب خان، یحییٰ، ضیاالحق اور مشرف جیسے محسنین قوم کی عظمت سے انکار کریں۔ پڑھنے والے گواہ رہیں، میں نے سرعام شازار جیلانی نامی شخص کے گمراہ خیالات سے لاتعلقی کا اعلان کیا"۔

syed-shazar-jilani has 127 posts and counting.See all posts by syed-shazar-jilani

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments