افغانستان میں جنگ اور پس منظر


چین دنیا میں تجارت کاری کا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے اور دوسرے نمبر پر امریکہ آتا ہے۔ امریکہ چین کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ کورونا وائرس کے ہوتے ہوئے صرف پچھلے سال امریکہ نے چین سے 558 بلین ڈالر کی درآمدات کیں اور چین کی امریکہ سے درآمدات محض 179 بلین ڈالرز رہی۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ موجودہ سپر پاور امریکہ چین پہ تجارتی لحاظ سے کتنا منحصر ہے۔ چین دنیا کے اکثریت ممالک کو اپنی ملکی پیداوار برآمدات کرتا ہے اور دنیا کے مختلف حصوں میں اپنا اثر و رسوخ پیدا کر رہا ہے۔ چین کے اس بڑھتے ہوئی تجارتی اثر و رسوخ سے امریکہ خائف ہے اور اسے اپنے شاہی تاج یعنی کہ سپر پاور چھن جانے کا خطرہ لاحق ہے۔

چونکہ تجارت جغرافیائی امن سے منسلک ہے اور چین دنیا میں تجارت مزید بڑھانا چاہتا ہے اس کے لئے چین امن کا حامی ہے۔ اب امریکہ کو اپنے شاہی تاج یعنی کہ سپر پاور کے دفاع کے لئے اپنا پتہ (کارڈ) پھینکنا ہوگا اور وہ پتہ بدامنی ہے، جنگ ہے۔ افغانستان امریکہ کے لئے بدامنی اور جنگ کے لئے جغرافیائی لحاظ سے ایک زبردست ملک ہے اور چونکہ امریکہ کے ہاتھ میں بھی تھا اس لیے امریکہ نے چین کو جواباً افغانستان میں جنگ کا میدان بنایا تاکہ علاقے میں بدامنی جاری رہے اور اس طرح چین تجارتی لحاظ سے کمزور ہوتا جائے۔

اسی لیے امریکہ نے بگرام بیس افغان حکومت کو بتائے بغیر رات کے اندھیرے میں اچانک خالی کر دیا۔ حالانکہ امریکہ کو چاہیے تھا کہ وہ بگرام بیس افغان حکومت کے حوالے کرتا۔ لیکن نہیں کیا۔ کیونکہ امریکہ اصل میں چاہتا تھا کہ بگرام بیس طالبان کے ہاتھوں آ جائے اور اس بیس میں امریکہ نے بہت سی گاڑیاں اور جنگی ساز و سامان چھوڑ دیا تھا تاکہ طالبان کے ہاتھ آ جائے اور طالبان انہیں افغان حکومت کے خلاف جنگ لڑنے کے لیے استعمال کرے۔

اصل جنگ امریکہ اور چین کے درمیان ہو رہی ہے۔

سی پیک چین کے لئے ایک بہت بڑا تجارتی معاہدہ ہے جس کی وجہ سے چین تجارتی و اقتصادی لحاظ سے بلندیوں پر پہنچ جائے گا۔ چونکہ یہ معاہدہ امریکہ کو پسند نہیں اس لیے کئی وقتوں سے بند ہے اور اس پہ کام رکا ہوا ہے۔ کیوں رکا ہوا ہے

یہ سب کو پتہ چل گیا ہے۔ ۔ ۔

اب موجودہ حالات کچھ یوں ہیں کہ مبینہ طور پر مختلف علاقوں کے مدرسوں اور مسجدوں میں نوجوان معصوم لڑکوں کے دماغوں کو جنت کی حوروں سے بھر کر افغان حکومت کو کافر بنا کر انہیں اسلامی فدائی بنا کر افغان حکومت کے خلاف نام نہاد جہاد پر بھیجنے کا سلسلہ زور و شور سے جاری ہے۔ پاک افغان بارڈر پر پاکستان کا کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے۔ نام نہاد مجاہدین جا رہے ہیں اور شہید کا لقب حاصل کر کے واپس اسی رفتار سے آ بھی رہے ہیں۔

کیوں جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان افغانستان میں امارات اسلامی کی بات کرتا ہے اور لیکن پاکستان میں نہیں؟
کیوں مولانا فضل الرحمان پاکستان میں جمہوریت کی بات کرتا ہے اور افغانستان میں نہیں؟
کیا اسلام کی ذمہ داری کا حق صرف افغانستان نے اٹھایا ہے؟
یہ دوغلا پن نہیں تو اور کیا ہے!

کیوں پاکستانی حکومت افغان طالبان پر ایک رائے قائم نہیں کرتی کہ آیا طالبان دہشت گرد ہیں یا نہیں؟
کیوں وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے پارلیمانی اجلاس میں علی الاعلان اسامہ بن لادن کو شہید ٹھہرا دیا جو کہ ایک عالمی دہشت گرد ہے؟

یہ چند اہم سوالات ہیں جن کہ جوابات پبلک جاننا چاہتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments