انگازے پروڈکشن کا اجرا، باچا خان ٹرسٹ اور ایمل ولی خان


حال ہی میں باچا خان ٹرسٹ پشاور میں ایک پروقار اور پر رونق پروگرام میں پشتو کے کلاسک، نیم کلاسک اور جدید گلوکاروں، فنکاروں شاعروں اور دانشوروں کی موجودگی میں انگازے پروڈکشن کا افتتاح کیا گیا۔ اس پروگرام کے تحت اب اگر نوجوان فنون لطیفہ یعنی موسیقی کا فن سیکھنا چاہتے ہیں تو باچا خان ٹرسٹ کے اس پروگرام انگازے پروڈکشن سے استفادہ حاصل کر سکتے ہیں۔ پشتو کے مایہ ناز شاعر ادیب، فلسفی، سیاست داں، مصور، مجسمہ ساز، تاریخ داں، کالم نگار اور انجنئیر خان عبدالغنی خان کے بقول پشتون موسیقی کو تو پسند کرتے ہیں پر موسیقار یا گلوکار کو پسند نہیں کرتے۔

اسی پروگرام کے بعد میڈیا پرسنز کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں کہ آیا آپ لوگ ”ڈم“ یعنی میراثیوں کو پشتون مانتے ہیں؟ ایمل ولی خان نے جواب دیا کہ میرے پردادا نے ان کو پشتون مانا ہے تو میں کون ہوتا ہوں کہ میں ان کو پشتون نہ مانوں۔ اصل مسئلہ کیا ہے۔ اس سوال کے پیچھے طبقاتی سوچ پنہاں ہے۔ اور اس کا تعلق صرف پشتونوں سے نہیں یہ طبقاتی اونچ نیچ ہر جگہ اور ہر قوم میں موجود ہے۔ کسب سے متعلقہ لوگوں کو اس نظر سے نہیں دیکھا جاتا جس کا وہ مستحق ہے۔

ایک تو بندے میں سماجی، اقتصادی اور اخلاقی لحاظ سے فنکارانہ اور تخلیقی صلاحیت ہو اور اس کو بجائے بلند نظری کے پست بصری کی بھینٹ چڑھایا جائے یہ کہاں کی تمیز اور انصاف ہے۔ تو میں بات ایمل ولی خان کی کر رہا تھا۔ تو اس نے درست جواب دیا تھا کیونکہ باچا خان نے خدائی خدمت گار تحریک میں ان لوگوں کو بڑے بڑے عہدوں پر فائز کیا تھا جو اس وقت مختلف کسب و روزگار سے وابستہ تھے اور یہ اس وقت ایک بہت بڑا انقلاب تھا جو لوگوں میں منوایا گیا تھا۔

باچا خان ٹرسٹ فاؤنڈیشن کے زیر سایہ اس وقت درج زیل شعبے کام کر رہے ہیں۔
باچا خان ٹرسٹ ایجوکیشن فاؤنڈیشن ( ایجوکیشن)
باچاخان ہیلتھ فاؤنڈیشن (ہیلتھ)
خدائی خدمت گار آرگنائزیشن ( سوشل ویلفئیر)
انگازے پروڈکشن ( میوزک)
باچا خان ریسرچ سینٹر ( ریسرچ )
باچا خان ایگریکلچر فاؤنڈیشن ( ایگریکلچر )
امن ٹی وی ( ویب ٹی وی )
ڈیلی شہباز اردو، پشتو ( نیوز پیپر )
پشتون ( میگزین ) پشتو

جب ہم پورے ملک کی سطح پر نظر دوڑائیں تو ہمیں پی این سی اے۔ الحمرا، آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی، ناپا اور دیگر ادارے دکھائی دیں گے جو فنون لطیفہ کے فروغ میں دن رات نبرد آزما ہے۔ ان کو باقاعدہ فنڈ ملتے ہیں اور بچے بچیاں اس میں فنون لطیفہ سے وابستہ تعلیم اور فن حاصل کرتے ہیں۔ لیکن ہماری بد قسمتی ہے کہ ان دنوں، میں دیکھ رہا ہوں کہ ایمل ولی خان ایک مخصوص سوچ کی تنقید کے زد میں ہے اور اس انگازہ پروڈکشن کے اجرا سے ان پر طرح طرح کے جملے اور طنز نما بیانات اور پوسٹس دکھنے کو ملتے ہیں۔

لیکن ایمل ولی خان نے اجرا کے وقت میڈیا کانفرنس میں ببانگ دہل کہا تھا کہ کوئی میرے اس فنون لطیفہ سے متعلق سرگرمیوں سے ہزار بار نا خوش ہو تب بھی میں اس سرگرمی کو جاری رکھوں گا اور بنیاد یہ فراہم کی کہ کیا ہمارے بچے فقط جنگ و جدل، دھماکوں اور خودکش بمبار بننے کے لئے بنے ہیں یا ریتی بجری اور کوڑا کرکٹ اٹھانے اور کاٹ کباڑ جمع کرنے کے لئے جنے جاتے ہیں۔ انھیں بھی زندگی جینے کا حق ہے جس طرح اوروں کے بچے جیتے اور پلتے ہیں۔

پشاور میں نشتر ہال ثقافتی پروگراموں کے لئے موجود تو ہے لیکن وہاں کے فنون لطیفہ سے وابستہ افراد اس سے خوش نہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ فعال نہیں۔ ایم۔ ایم۔ اے کی جب صوبے میں حکومت تھی تو تمام ثقافتی سرگرمیوں پر پابندی تھی اور نشتر ہال کو ثقافتی سرگرمیوں کے لئے بند کر دیا تھا۔ لیکن کراچی میں ایم۔ ایم۔ اے میں شامل جماعت کے ناظم اعلی ’جناب نعمت اللہ ایڈوکیٹ کی جس طرح اور کاموں کی تعریفیں ہوتی ہیں تو یہ تعریف بھی کرنی پڑے گی کہ کراچی آرٹس کونسل کو بند نہیں کیا، دیگر سرگرمیوں پر پابندی نہیں لگائی بلکہ کراچی آرٹس کونسل کو باقاعدہ فنڈ جاری کرتے رہے۔

بہرحال فنون لطیفہ سے وابستہ لوگ باچا خان ٹرسٹ فاؤنڈیشن کے انگازہ پروڈکشن کے اجرا کے عمل کا خیر مقدم کرتے ہیں اور ایمل ولی خان کا اس عمل کو جاری و ساری رکھنے کے اعلان کو تہہ دل سے سراہتے ہیں۔ اور یہ بھی امید رکھتے ہیں کہ باچا خان ٹرسٹ فاؤنڈیشن کے دیگر شعبوں کے پروگراموں کی طرح اس پروگرام کو بھی اتنی ہی اہمیت ملے گی جتنی اوروں کو ملتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments