قصہ فلم دیکھنے کا


بہت سارے دنوں کی بوریت سے اکتائی ہوئی تھی۔ ہفتہ کی شب سینما جا کر فلم دیکھنے کا سوچا۔ مال آف سیالکوٹ میں ابھی داخل ہوئی تھی کہ اپنے پیچھے آواز سنی ’اساں فلم دیکھنی اے‘ ۔ مجھے پیچھے مڑ کر دیکھنا پڑا۔ کیا ہے کہ کسی آواز کا تعاقب کرنے کے لیے ضروری نہیں کہ وہ خوبصورت ہو۔ بھدی آواز کا تعاقب بھی اتنا ہی کیا جاتا ہے جتنا کسی خوبصورت آواز کا۔ خیر مجھے تو اپنی عادت سے مجبور ہو کر پیچھے مڑ کر دیکھنا پڑا۔ ایک بھاری بھرکم خاتون ایک جلوس کی نمائندگی کر رہی تھی۔

عمر اور جنس کا لحاظ رکھے بنا، جلوس میں پندرہ سے بیس افراد موجود تھے۔ غالباً پورا جلوس سیر کو آیا تھا۔ میں نے ایک طرف کھڑے ہو کر پورے جلوس کو راستہ دینے کی کوشش کی، کہ اگر میں پیچھے نہ ہوتی تو یقیناً جلوس مجھے روند جاتا۔ ویسے میرے سائیڈ پہ ہونے کا مقصد انھیں راستہ دینے سے زیادہ یہ دیکھنا تھا کہ وہ کس کس چیز سے آراستہ ہیں۔ وہ جلوس اوپر والے فلور پہ جانا چاہ رہا تھا۔ جانے وہ لوگ مال میں شوقیہ گھس آئے تھے یا فلم دیکھنے ہی آئے تھے۔

لیکن لگتا تھا کہ وہ مال کیا شہر میں پہلی دفعہ آئے ہیں۔ کوئی بھی مال کی راہداریوں سے واقف نہیں تھا۔ ایک بھی فرد ادھر ادھر ہونے لگتا تو دوسرا آواز دے دیتا ”اودھر نہ جائیں گواچ جائیں گا ’مجھے فلم کا بھول گیا کہ اصلی فلم میرے سامنے چل رہی تھی۔ وہ سب ایکسی لیٹر کے پاس کھڑے اودھم مچارہے تھے۔ ایک دوسرے کو پہلے چڑھنے کو بول رہے تھے۔ ایک کہتا“ میں نئی جانا اتے ”تو دوسرا اس کو کھینچتا“ تینوں لے کے جانا ”۔

ایک آواز آئی یہ دیکھو بس اس پہ پیر رکھو اور پہنچ گئے اوپر، اس نے اپنے پیر تو رکھ دیے لیکن اپنے شاگرد کو وہیں چھوڑ گیا۔ اب وہ اوپر جا رہا تھا، اور آوازیں لگا رہا تھا“ کبرائیں نا میں بس ہونے واپس آیا ”۔ ایک اور مرد مجاہد نے ہمت دکھائی اور گہرے میک اپ اور بھاری کامدار جوڑے میں ملبوس لڑکی (جو ایک نئی نویلی دلہن لگ رہی تھی ) کا حنائی ہاتھ تھاما اور اس کو بولا“ چڑھ جا اتے ”۔ لیکن دلہن بھی اپنے نام کی ایک تھی۔

وہ ٹس سے مس نہ ہوئی۔ راہ چلتے کسی نے پوچھا ادھر کیا ہو رہا ہے۔ تو کسی منچلے نے آواز لگائی“ جاچ سکھائی جارئی اے ”۔ کسی نہ کسی طرح یہ جوڑا تو بذریعہ ایکسیلیٹر اوپر والے فلور پہ جانے میں کامیاب ہو گیا۔ اب وہ جوڑا خوشی و شادمانی سے ہاتھوں میں ہاتھ تھامے اوپر کھڑے ہو کر تفاخر سے نیچے والوں کو دیکھ کر منہ چڑانے لگا۔ اوپر چڑھنے کو بے تاب ایک خاتون نے ہمت دکھائی اور آگے والوں کو دھکیلتے ہوئے ایکسیلیٹر پر پیر رکھ دیا۔

بس پھر کچھ چیخیں سنائی دیں۔ ایکسیلیٹر بند ہو گیا اور لوگ ان کے گرد جمع ہو چکے تھے۔ پتہ چلا چیخیں ساتھی خواتین کی تھیں، گرنے والی تو بے ہوش ہو چکی تھی۔ لوگوں کو بھی ان کی صورت ایک تفریح مل گئی تھی۔ جب پیچھے کافی سارے لوگ اوپر جانے کے لیے جمع ہو گئے، تو کسی نے کہا تم لوگ دوسری سائیڈ پہ موجود کیپسول لفٹ سے اوپر چلے جاؤ۔ جلوس نے جھٹ سے کیپسول لفٹ کا رخ کیا اور آخر کار آٹھویں فلور پر پہنچنے میں کامیاب ہو گیا، جہاں سنی پیکس تھا۔

میں بھی آٹھویں فلور پر آئی تو دیکھا، پورا جلوس فلم کی ٹکٹیں خریدنے کاؤنٹر پر موجود تھا۔ فلم لگنے میں پندرہ منٹ رہ گئے تو میں بھی فلم کا ٹکٹ خریدنے کے لیے گئی تو ان میں سے ایک کاؤنٹر پہ موجود ٹکٹ سیلر کو ٹکٹس واپس کرنے آ گیا“ پاجی ٹکٹ رکھ لوو تے پیسے واپس کر دو، اساں فلم نہیں ویکھنی ”۔ کاؤنٹر پہ موجود صاحب نے کہا کہ جناب ٹکٹس واپس نہیں ہو سکتیں۔ جب اس نے واپسی کے لیے زیادہ اصرار کیا تو ٹکٹ سیلر نے کہا فلم شروع ہونے تک آپ کی جتنی ٹکٹیں سیل ہو گئیں تو اتنے پیسے لے لیجیے گا اور باقی ٹکٹیں۔

دس منٹ بعد جب ان کی آدھی ٹکٹیں بک گئیں، اور پوچھنے پہ پتہ چلا کہ مزید نہیں بک سکتیں تو ان سب نے شور مچانا شروع کر دیا کہ ہم سب فلم دیکھیں گے۔ غالباً مرد حضرات چاہ رہے تھے کہ وہ اکیلے فلم دیکھیں جبکہ خواتین کا اصرار تھا کہ وہ فلم دیکھے بنا نہیں جائیں گی۔ اور ایکسیلیٹر سر کرنے والے صاحب نے اپنی بیگم کا ہاتھ ایسے زور سے کس کے پکڑ رکھا تھا، جیسے اندیشہ تھا کہ شفقت چیمہ اسے اٹھا کر لے جائے گا۔ وہ اپنی بیگم کو اشارے کر رہا تھا کہ تم فلم ضرور دیکھو گی۔

خیر فلم شروع ہونے سے پہلے وہ اپنی تمام ٹکٹیں واپس لے آئے۔ فلم شروع ہونے میں ایک دو منٹ تھا کہ ان سب کی دوڑیں لگ گئیں،“ جلدی چل فلم شروع ہو جانی ”۔ وہ سب فلم ہال میں جا رہے تھے کہ کسی نے آواز لگائی اوئے صابر“ پھلے لے آئیں ”۔ اوپر چڑھنے والے مرد مجاہد نے اندر داخل ہوتی بیگم کے کان میں چیخ نما سرگوشی میں پوچھا“ پھلے آں نو اردو چ کی کینا ”تو پیچھے مڑ کر جواب دیتی بیگم کے منہ پر زور سے سینما کا دروازہ لگا لیکن شیر کی بچی نے منہ سے آواز نہ نکالی۔ میں سمجھ گئی بہادر ہے۔

اب سارا جلوس سینما کی سیٹوں پر قابض ہو چکا تھا۔ یہ لوگ درمیان والی دو قطاروں میں بیٹھے تھے اور میں ان سے پیچھے والی سیٹ پر۔ فلم شروع ہوئی تو خدا جانے ان کو کیا ہوا کہ سب ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔ فلم کے شروع کے سین میں ہیرو کو تھپڑ پڑا تو اسی شیر کی بچی نے زور دار چیخ ماری۔ کہ اگلی سیٹوں پہ بیٹھے لوگ بھی پیچھے مڑ کر دیکھنے پہ مجبور ہو گئے۔ سب لوگ فلم دیکھنے میں مصروف تھے اور یہ سب پیچھے مڑ مڑ کر لوگوں کو دیکھنے میں۔ لوگوں کو دیکھنے سے اکتاتے تو چھت کا معائنہ کرتے۔ ساری فلم میں ان کا یہی سین چلتا رہا۔

فلم ختم ہو گئی تھی۔ پورا جلوس اب نیچے جانے کی تگ و دو میں پھر سے مصروف تھا۔ اپنی نئی نویلی دلہن کا ہاتھ تھامے سب سے پہلے ایکسیلٹر فتح کرنے والا نوجوان اب خود ایکسیلیٹر پر پیر رکھنے سے ڈر رہا تھا اور دلہن اس کو مزید ڈرا رہی تھی۔ وہی فلم دوبارہ سے شروع ہو گئی تھی۔

فلم بننے میں بہت محنت اور پیسہ لگتا ہے جبکہ ایک اچھی کامیڈی فلم سستے بلکہ مفتے میں بن رہی تھی لیکن افسوس کوئی فلم میکر وہاں موجود نہیں تھا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments