محرم الحرام


نیا اسلامی سال اپنے احترام اور تقدس کے ساتھ ہم پر سایہ فگن ہو چکا ہے،
پہلا اسلامی مہینہ ”محرم الحرام“ ہے۔
اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں :

”تحقیق اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مہینوں کی گنتی بارہ ہے، اور ان میں سے چار مہینے حرمت والے قرار دیے گئے ہیں، ان میں تم اپنے نفسوں پر کسی قسم کا کوئی ظلم نہیں کرنا“ ۔ (سورۂ توبہ : 36 )

خطبہ حجتہ الوداع کے موقع پر رسول ﷺ اللہ نے صحابہ کرامؓ کو مخاطب کیا اور فرمایا کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ چار حرمت والے مہینے کون سے ہیں؟

صحابہ کرامؓ نے جواب دیا کہ اللہ اور اس کا رسول ہی ہم سے زیادہ جانتے ہیں، کہ وہ چار حرمت والے مہینے کون سے ہیں؟

ایک دوسری روایت کے مطابق خود صحابہ کرامؓ نے پوچھا کہ اللہ کے رسول ﷺ ! وہ چار حرمت والے مہینے کون سے ہیں، تو رسول ﷺ اللہ نے ارشاد فرمایا: ”تین مہینے پے در پے، یکے بعد دیگرے آنے والے اور ایک ان سے الگ، ایک ذیقعدہ کا مہینہ، ایک ذوالحجہ کا مہینہ اور تیسرا محرم الحرام کا اور چوتھا جو ان سے الگ ہے، وہ ہے رجب کا مہینہ۔ یہ چار مہینے ایسے ہیں کہ جن کو اللہ رب العزت نے حرمت والے قرار دیا ہے۔ ان کے بارے میں خصوصی طور پر احکامات ہیں، اور جیسا کہ آیت مبارکہ میں بھی ہے کہ :“ خبردار! ان چار حرمت والے مہینوں میں اپنے نفسوں پر کسی قسم کا کوئی ظلم نہیں کرنا ”

مطلب یہ ہے کہ اپنے لوگوں پر، اپنے معاشرے کے افراد پر تم سے کسی قسم کی کوئی زیادتی سرزد نہ ہو جائے۔
عاشورہ محرم ہمیں واقعہ کربلا کی یاد دلاتا ہے۔

کربلا میں حق و صداقت کا علم بلند رکھنے کے لئے امام عالی مقام حضرت امام حسینؓ نے ظلم و جبر کی اطاعت کرنے کے بجائے شہادت کا راستہ اختیار کیا اور دنیا کو یہ سبق دیا کہ حریت ایک بنیادی حق ہے جو دین اسلام کی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔

حق کی حفاظت کرنا اپنی جان کی حفاظت کرنے سے زیادہ ضروری ہے
یہی وہ پیغام ہے جو نواسہ رسول ﷺ کی شہادت سے ہمیں ملتا ہے۔

تاریخ عالم میں ایسی قربانی اور استقامت کی کوئی مثال موجود نہیں۔ امام عالی مقام کا یہ پیغام پوری انسانیت کے لئے مشعل راہ ہے۔

اسلام ویسے تو سارا دین ہی عزت و احترام عطا کرنے والا اور اپنے ماننے والوں کو باہمی احترام کا حکم دینے والا ہے مگر محرم الحرام کے تو نام ہی میں ”حرمت و احترام“ کے معانی اور تقاضے رکھ دیے گئے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں ہوتا کیا ہے

وطن عزیز پاکستان ایسے ہی اعلیٰ مقاصد کی تکمیل کے لئے حاصل کیا گیا تھا جن کی خاطر خاندان رسالت نے بارگاہ حق میں اپنی جانوں کی قربانی پیش کی تھی

آج کے دن ہمیں فروعی، مسلکی، لسانی اور صوبائی اختلافات کو بھلانا ہوگا اور اپنے اندر مساوات، رواداری، نظم و ضبط اور قربانی دینے والے اوصاف کو فروغ دینا ہوگا۔

واقعہ کربلا سے ہمیں یہی سبق ملتا ہے اور اس پر عمل کرنے سے ہم اپنے مسائل حل کر سکتے ہیں۔

آج پاکستان کے حالات کو دیکھتے ہوئے ہمیں اپنی صفوں میں اتحاد اور یگانگت کی زیادہ ضرورت ہے تاکہ کوئی دشمن ہماری طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھ سکے۔

نواسہ رسولﷺ حضرت امام حسینؑ کی عظیم قربانی اور کربلا حق اور باطل کا معرکہ تاریخ انسانی کا وہ ناقابل فراموش حقیقت ہے جسے کوئی بھی صاحب شعور انسان نظرانداز نہیں کر سکتا۔

اسلامی سال کا آغاز محرم الحرام سے ہونا اور اختتام ذوالحجہ میں ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ اسلامی نظام کی ابتداء اور انتہا ایثار فداکاری اور عشق الہی سے شروع اور ختم ہوتی ہے۔

جس طرح جناب ابراہیم ؑ نے عشق الہی کے جذبے میں اپنے بیٹے اسماعیلؑ کی قربانی کا عمل پیش کیا بالکل اسی طرح وراث ابراہیم ؑ نے کربلا میں امت کی ڈوبتی کشتی کو قربانی کے ذریعے کنارے تک پہنچا کر اسلام کو ایک نئی زندگی بخشی۔

اسی لئے شاعر مشرق حکیم الامت حضرت اقبالؒ نے کیا خوب کہا کہ
غریب و سادہ رنگین ہے داستان حرم۔ نہایت اس کی حسینؑ ابتداء ہے اسماعیل ؑ

آج جب دنیا میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر نظر دوڑائیں تو کربلا یاد آتا ہے آج بھی حسین ابن علی ؑ کی صدا بلند نظر آتا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments