افغانستان پر طالبان کا قبضہ: کابل سے دلی جانے والی ایئر انڈیا کی پرواز کو افغانستان میں کن چیلینجز کا سامنا کرنا پڑا؟

سوتک بسواس - بی بی سی


اتوار کی شام کابل سے دلی پہنچے مسافر
اتوار کی شام کابل سے دلی پہنچنے والے مسافر
ایئر انڈیا کی پرواز جب 40 افغان شہریوں کو لے کر اتوار کی دوپہر دلی سے کابل کے ہوائی اڈے پر پہنچی تو ایئر ٹریفک کنٹرول نے اسے لینڈنگ کی اجازت نہیں دی۔

ایئر انڈیا کی فلائٹ پر سوار چھ رکنی کیبن ٹیم کو اس بات کا زیادہ اندازہ نہیں تھا کہ کابل میں اس وقت حالات کتنی تیزی سے بدل رہے تھے۔ طالبان جنگجو افغان حکومت کے ہاتھوں سے اختیار چھین کر خود اقتدار اپنے ہاتھوں میں لے رہے تھے۔

ایئر انڈیا کے پائلٹ کابل میں لینڈنگ کے لیے تیار تھے لیکن تبھی ایئر ٹریفک کنٹرول نے بغیر وجہ بتائے ان سے فضا میں ہی رہنے کو کہا۔

ایئرلائن کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اگلے تقریباً 90 منٹ تک طیارہ دارالحکومت کے اوپر 16000 فٹ کی اونچائی پر چکر کاٹتا رہا۔

لینڈنگ میں ممکنہ تاخیر اور ایئر کمیونیکیشن میں ہونے والی ممکنہ دشواریوں کو دھیان میں رکھتے ہوئے طیارے کے پاس زیادہ ایندھن موجود تھا۔

اتوار کی صبح کابل ہوائی اڈے پر موجود طالبان شدت پسند

لینڈنگ میں مشکل

پائلٹس کے مطابق کابل ایئرپورٹ کی فضائی حدود ’مشکل اور مصروف‘ ہوتی ہے۔ سال کے ان دنوں میں کابل جانے والی پرواز مشکل ہو جاتی ہے کیوںکہ ان دنوں میں تیز ہوائیں چل رہی ہوتی ہیں۔

اس وقت دو دیگر غیر ملکی ایئر لائنز بھی کابل کی فضا میں چکر کاٹ رہی تھیں اور انھیں بھی لینڈنگ کے لیے اجازت کا انتظار تھا۔

160 سیٹوں والی ایئر انڈیا ایئر بس 320 جس کی کمان کیپٹن آدتیہ چوپڑا کے ہاتھ میں تھی، آخر کار کابل کے مقامی وقت کے مطابق سہ پہر ساڑھے تین بجے لینڈنگ کرنے میں کامیاب ہو سکی۔

دلی سے کابل تک کا فضائی سفر مکمل کرنے میں عام طور پر 105 سے 120 منٹ کے درمیان وقت لگتا ہے لیکن اتوار کی دوپہر ایئر انڈیا کو یہی پرواز مکمل کرنے میں ساڑھے تین گھنٹے لگے۔

طیارے پر سوار مسافر بتاتے ہیں کہ اس درمیان وہ زمین پر کشیدگی کا اندازہ لگا سکتے تھے لیکن واضح نہیں تھا کہ اصل میں ہو کیا رہا تھا۔

لینڈنگ کے لیے استعمال ہونے والی فضائی پٹی پر فوجی موجود تھے اور سی 17 گلوب ماسٹر فوجی طیارے کی آواز سے ایئر پورٹ گونج رہا تھا۔ چنوک ہیلی کاپٹرز بھی ایئرپورٹ پر آتے جاتے نظر آ رہے تھے۔

انھوں نے دیکھا کہ پاکستان اور قطر کے مسافر طیارے بھی ہوائی اڈے پر کھڑے تھے۔

ایئر انڈیا کے طیارے پر سوار ایک مسافر نے بتایا کہ انھیں ’معلوم ہوا کہ ہوائی اڈے کے ملازمین نے وہیں پناہ لی ہوئی تھی۔ لوگوں کا زبردست رش ہوائی اڈے کے اندر داخل ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔‘

طیارے کے زمین پر اترنے کے بعد کابل کے پروٹوکال پر عمل کرتے ہوئے پائلٹ ٹیم کاک پٹ میں ہی رہی اور باہر نہیں نکلی۔

یہ بھی پڑھیے

’کابل ایئرپورٹ پر سات ہزار افراد موجود ہیں جو ہر صورت افغانستان سے نکلنا چاہتے ہیں‘

افغانستان: ’ہم پہلی بار سوشل میڈیا پر کسی ملک کو گرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں‘

‘بیٹے کے بغیر مر جاؤں گی اسے کابل میں نہیں چھوڑ سکتی’

ڈیڑھ گھنٹے سے زیادہ دیر تک انتظار کرنے کے بعد ایئر انڈیا کے اس طیارے نے 129 مسافروں کے ساتھ واپس دلی کے لیے پرواز بھری۔

ان میں چند افغان اہلکار، کم از کم دو افغان رکن پارلیمان اور سابق صدر کے ایک سینیئر مشیر شامل تھے تاہم متعدد دیگر مسافر فلائٹ تک بروقت پہنچ نہیں سکے کیوںکہ وہ کابل میں ٹریفک میں پھنس گئے تھے۔

کابل میں ٹریفک میں پھنسے لوگ

کابل میں ٹریفک میں پھنسے لوگ

ملک چھوڑنے کو بیتاب

طیارے پر سوار ایک مسافر نے بتایا ’میں نے کبھی کسی ملک کے لوگوں کی ایسی حالت نہیں دیکھی کہ وہ ملک چھوڑ کر جانے کو اتنے بے تاب ہوں۔ جب وہ طیارے میں داخل ہوئے تو گھبراہٹ ان کی آنکھوں سے واضح تھی۔‘

طیارے پر سوار زیادہ تر مسافر افغان شہری تھے جو اپنے ملک سے جان بچا کر بھاگ رہے تھے۔ ان میں انڈین شہری بھی شامل تھے جو اپنے ملک واپس لوٹ رہے تھے۔

اتوار کی شام تک کابل کے ہوائی اڈے پر زبردست بھیڑ جمع ہو گئی تھی۔ ہر کوئی کسی نہ کسی طیارے پر سوار ہو کر کسی طرح ملک سے باہر نکلنے کو بیتاب نظر آ رہا تھا۔

کئی ایسی ویڈیوز سامنے آئی ہیں جن میں نظر آتا ہے کہ بے حد گھبرائے ہوئے مرد، خواتین اور بچے کسی بھی طرح طیارے پر چڑھ جانا چاہتے ہیں۔

زیادہ تر ایئرلائنز نے افغانستان کے اوپر فضا میں پرواز سے بچنے کے مقصد سے اپنا راستہ ہی بدل دیا تھا۔

پیر کی صبح ایسی ویڈیوز بھی سامنے آئیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ متعدد افراد کے کابل ہوائی اڈے پر انخلا کے مقصد سے جانے والی ایک فلائٹ پر چڑھنے کے لیے افراتفری کا عالم ہے۔

https://twitter.com/i/status/1427122975971561475

طیارے کے اغوا کا واقعہ

تقریباً 22 برس قبل سنہ 1999 میں نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو سے دلی جانے والے انڈین ایئرلائنز، جو بعد میں ایئر انڈیا میں ضم ہو گئی تھی، کے طیارے کو 180 مسافروں کے ہمراہ اغوا کر لیا گیا تھا۔

طیارے کو افغانستان کے شہر قندھار لے جایا گیا۔ طیارہ اغوا کرنے والوں نے مسافروں کے بدلے کشمیر میں لڑنے والے عسکریت پسندوں کی رہائی کی شرط رکھی تھی۔ انڈیا نے مسافروں کے بدلے ان میں سے تین کو رہا کر دیا تھا۔ اغوا کرنے والے پانچ مسلح افراد میں سے انڈیا کی گرفت میں ایک بھی نہیں آیا تھا۔

جنگ ختم ہونے کے بعد سے ہی ایئر انڈیا کی کابل کے لیے پروازیں چل رہی ہیں لیکن اب غیر یقینی کی صورتحال ہے۔

ایئر انڈیا کے ایک ترجمان نے بتایا کہ پیر کی دوپہر ایک کمرشل فلائٹ کابل جانی تھی ’لیکن اگر فضائی حدود کو ہی بند کر دیا گیا تو ہم کچھ نہیں کر سکیں گے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32289 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp