پاکستان کا چین کے لئے گلگت بلتستان کے رقبے کا تحفہ


پولیٹیکل جغرافیہ بھی بڑا دلچسپ موضوع ہے۔ دنیا ملکوں میں تقسیم ہے، ملکوں کے درمیان سرحدیں ہیں، مگر کہیں یہ سرحدیں تسلیم شدہ بین الاقوامی سرحدیں کہلاتی ہیں، مگر جن ملکوں کے درمیان جنگ یا آپسی تنازع ہو تو دو یا دو سے زیادہ ممالک کے درمیان حد بندی کہیں لائن آف کنٹرول کہلاتی ہے، کہیں لائن آف سیز فائر، اسی طرح متنازع علاقے بھی کبھی اٹوٹ انگ کہلاتے ہیں، کہیں شہ رگ، کہیں فلاں ملک کا زیر انتظام علاقہ، اور کہیں آزاد قبائل یا آٹونامس خود مختار علاقے۔ چین، بھارت اور پاکستان بھی متنازع علاقوں کی تاریخ رکھتے ہیں، عوام کو کشمیر کے تنازع کا بخوبی علم ہے مگر اس میں چین کا کیا حصہ ہے وہ جانیے ؛

1947 کی پاک بھارت تقسیم کے بعد کشمیر کے علاقے کا تنازع چل ہی رہا تھا جس پر پاکستان اور بھارت ایک دوسرے سے سینگیں پھنسائے ہوئے تھے، پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے تنازع کا ایک اور پہلو ہے۔ جموں و کشمیر کے اس قدیم تنازع میں، بھارت، پاکستان، کشمیری عوام ہی نہیں بلکہ چین بھی ایک اہم اسٹیک ہولڈر ہے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ پاکستان نے 1963 کے پاک چین سرحدی معاہدے کے تحت ہنزہ گلگت کی وادی شاکسگام کا 5,180 مربع کلومیٹر کا علاقہ (جس پر جموں اور کشمیر کے ساتھ بھارت کا دعوی ہے ) چین کو تحفے میں دے دیا تھا۔

اس اثنا 1962 میں چین اور بھارت کے درمیان سرحدی تنازع پر ایک بڑی جنگ ہوئی، جس کے نتیجے میں چین نے اکسائی چین، جس کا رقبہ 36,813 مربع کلومیٹر ہے، اور لداخ کے علاقے پر قبضہ کر لیا۔ دریں اثنا موقع دیکھ کر پاکستانی سفارت کاروں نے چینی حکام سے ملاقاتیں کیں اور انہیں چین اور گلگت بلتستان کے درمیان سرحدی تنازعات کے خاتمے اور حد بندی کے لیے رضامند کیا، 1963 میں ایک معاہدے کے تحت پاکستان ان علاقوں سے دستبردار ہو گیا اور چین نے ان علاقوں کا کنٹرول سنبھال لیا، اور اس معاہدے میں یہ شق شامل تھی کہ اگر کبھی بھارت اور پاکستان کے درمیان کشمیر اور گلگت بلتستان کے متنازع علاقے کا تصفیہ ہوا تو چین اس معاہدے پر دوبارہ غور کرے گا اور گلگت بلتستان جس بھی حکومت کے کنٹرول میں آیا اس حکومت سے دوبارہ معاہدہ کرے گا۔

چین اور ہنزہ کی اپنی ایک تاریخ ہے، جس کے تحت والی ہنزہ کے چین سے قریبی تعلقات تھے۔ شاکسگام وادی، جو ریاست ہنزہ کا حصہ تھی پر چین کا کنٹرول تھا مگر اس وادی کا عملی قبضہ والی ہنزہ کا تھا، جہاں ہنزہ کے لوگ اپنے جانور چرایا کرتے تھے، ہم جانتے ہیں کہ عالمی سطح پر قانونی طور پر گلگت بلتستان کا مسئلہ کشمیر کے ساتھ جڑا ہوا ہے، جو بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک متنازع علاقہ ہے، پھر پاکستان ایک متنازع علاقے کو کسی دوسرے ملک کو کس طرح تحفے میں دے سکتا تھا؟

پاکستان کی چین کے ساتھ 523 کلومیٹر لمبی سرحد ہے، پاکستان اور بھارت کے آزاد ہونے سے پہلے برٹش انڈیا اور چین کے درمیان ایک سرحدی لکیر تھی جسے ”جانسن اینڈ مکڈونلڈ لائن“ کہا جاتا ہے، مگر چین کے نزدیک یہ لائن واضح نہیں تھی اور چین اسے تسلیم بھی نہیں کرتا تھا۔ یہ 1959 کی بات ہے جب پاکستانی حکام نے نوٹس لیا کہ چین ایسے نقشے جاری کر رہا ہے جن میں وہ علاقے جو پاکستانی کنٹرول والے گلگت بلتستان کی سرحدی حدود میں سمجھے جاتے تھے، چین نے اپنے نقشوں میں دکھایا تھا۔

اس وقت کے صدر جنرل ایوب خان نے چینی حکومت کو ایک یاد داشت کے ذریعے اس بارے میں آگاہ کیا، مگر چین نے اس کا کوئی جواب دینا ضروری نہیں سمجھا، مگر جب 1962 میں پاکستان نے چین کو سلامتی کونسل مستقل رکن کے الیکشن میں ووٹ دیا تو چین اور پاکستان کے درمیان لازوال دوستی کا آغاز ہوا اور پاکستان کے ووٹ کا شکریہ ادا کرنے کے طور پر چین نے یہ نقشے واپس لے لیے، اور دو مارچ 1963 میں چینی وزیر خارجہ اور ان کے ہم منصب ذوالفقار علی بھٹو نے معاہدے پر دستخط کیے، اس معاہدے کے تحت پاکستان اور چین نے ایک دوسرے کے قابض علاقوں سے دستبردار ہوجانا تھا اور 1899 کے برٹش انڈیا اور چین کے درمیان طے کیے گئے سرحدی لائن کو تسلیم کرنا تھا، جسے 1905 میں لارڈ کرزن نے دوبارہ تبدیل کیا تھا۔

اس معاہدے کے بعد چین نے پاکستان کا 750 مربع کلومیٹر رقبہ پر اپنا کنٹرول چھوڑ دیا اور اسی طرح پاکستان نے چین کے علاقے کا 800 مربع کلومیٹر علاقہ چھوڑ دیا، اور پاکستان نے ٹرانس قراقرم ٹریکٹ کا سارا علاقہ چین کو دے دیا جسے کارگلک کاؤنٹی بھی کہا جاتا ہے، مشہور زمانہ سیاچن گلیشئر بھی اسے علاقے کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ ماہرین کی رائے میں پاکستان نے درحقیقت کشمیر کا 5,300 مربع کلومیٹر کا رقبہ چین کے حوالے کیا، جس کو چین کو دینے کا پاکستان قانونی طور پر سرے سے روادار ہی نہ تھا، کیونکہ یہ عالمی قانون کے مطابق متنازع علاقہ ہے۔

اس معاہدے کے تحت، قراقرم ٹریکٹ کے بدلے چین نے کے ٹو کی اور ایک بڑے پہاڑی علاقے پر پاکستان کے کنٹرول کا حق تسلیم کر لیا۔ اس معاہدے کے نتیجے میں کئی ممالک کو تشویش بھی ہوئی، خاص طور پر امریکہ نے پاکستان کی امداد کے منصوبہ پر نظر ثانی کی اور بھارت کے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے اس معاہدے پر ناگوار رد عمل پیش کیا اور اسے پاکستان کی بدنیتی قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان چین کے تعاون سے ہماری مشکلات سے فائدہ اٹھانے کا تہیہ کر رہا ہے۔

پاکستان کی جانب سے ان علاقوں کو چین کے حوالے کرنا ایک سیاسی ماسٹر اسٹروک تھا جس کے پیچھے یہ خیال کار فرما تھا کہ پاکستان چین کو کشمیر کے تنازعے میں شامل رکھے تاکہ بھارت پر دباؤ بنا رہے، جیسا کہ ظاہر ہے بھارت نے اس معاہدے پر سخت اعتراض کیا کیونکہ بھارت گلگت بلتستان کو جموں و کشمیر کے تنازعے کے ساتھ نتھی سمجھتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments