منٹو کا فحش افسانہ؟ کالی شلوار – مکمل متن


شنکر چلا گیا اور سلطانہ کالے لباس کو بھول کر دیر تک اس کے متعلق سوچتی رہی۔ اس آدمی کی باتوں نے اس کے دکھ کو بہت ہلکا کردیا تھا۔ اگر وہ انبالے میں آیا ہوتا جہاں کہ وہ خوشحال تھی تو اُس نے کسی اور ہی رنگ میں اس آدمی کو دیکھا ہوتا اور بہت ممکن ہے کہ اسے دھکے دے کر باہر نکال دیا ہوتا مگر یہاں چونکہ وہ بہت اداس رہتی تھی، اس لیے شنکر کی باتیں اسے پسند آئیں۔ شام کو جب خدا بخش آیا تو سلطانہ نے اُس سے پوچھا۔

”تم آج سارا دن کدھر غائب رہے ہو؟ “
خدا بخش تھک کر چُور چُور ہورہا تھا، کہنے لگا۔
”پرانے قلعہ کے پاس سے آرہا ہوں۔ وہاں ایک بزرگ کچھ دنوں سے ٹھہرے ہُوئے ہیں، انہی کے پاس ہر روز جاتا ہُوں کہ ہمارے دن پھر جائیں۔ “

”کچھ انھوں نے تم سے کہا؟ “
”نہیں، ابھی وہ مہربان نہیں ہُوئے۔ پر سلطانہ، میں جو ان کی خدمت کررہا ہوں وہ اکارت کبھی نہیں جائے گی۔ اللہ کا فضل شامل حال رہا تو ضرور وارے نیارے ہو جائیں گے۔ “

سلطانہ کے دماغ میں محرم منانے کا خیال سمایا ہوا تھا، خدا بخش سے رونی آواز میں کہنے لگی۔
”سارا سارا دن باہر غائب رہتے ہو۔ میں یہاں پنجرے میں قید رہتی ہوں، نہ کہیں جاسکتی ہوں نہ آسکتی ہوں۔ محرم سر پر آگیا ہے، کچھ تم نے اس کی بھی فکر کی کہ مجھے کالے کپڑے چاہئیں، گھر میں پھوٹی کوڑی تک نہیں۔ کنگنیاں تھیں سو وہ ایک ایک کرکے بِک گئیں، اب تم ہی بتاؤ کیا ہو گا؟ یوں فقیروں کے پیچھے کب تک مارے مارے پھرا کرو گے۔ مجھے تو ایسا دکھائی دیتا ہے کہ یہاں دہلی میں خدا نے بھی ہم سے منہ موڑ لیا ہے۔ میری سنو تو اپنا کام شروع کردو۔ کچھ تو سہارا ہو ہی جائے گا۔ “

خدا بخش دری پر لیٹ گیا اور کہنے لگا۔
”پر یہ کام شروع کرنے کے لیے بھی تو تھوڑا بہت سرمایہ چاہیے۔ خدا کے لیے اب ایسی دُکھ بھری باتیں نہ کرو۔ مجھ سے اب برداشت نہیں ہوسکتیں۔ میں نے سچ مچ انبالہ چھوڑنے میں سخت غلطی کی، پر جو کرتا ہے اللہ ہی کرتا ہے اور ہماری بہتری ہی کے لیے کرتا ہے، کیا پتا ہے کہ کچھ دیر اور تکلیفیں برداشت کرنے کے بعد ہم۔ “

سلطانہ نے بات کاٹ کر کہا۔
”تم خدا کے لیے کچھ کرو۔ چوری کرو یا ڈاکہ مارو پر مجھے ایک شلوار کا کپڑا ضرور لادو۔ میرے پاس سفید بوسکی کی قمیض پڑی ہے، اس کو میں کالا رنگوالوں گی۔ سفید نینوں کا ایک نیا دوپٹہ بھی میرے پاس موجود ہے، وہی جو تم نے مجھے دیوالی پر لا کر دیا تھا، یہ بھی قیض کے ساتھ ہی کالا رنگوا لیا جائے گا۔ ایک صرف شلوار کی کسر ہے، سووہ تم کسی نہ کسی طرح پیدا کردو۔ دیکھو تمہیں میری جان کی قسم کسی نہ کسی طرح ضرور لادو۔ میری بھتی کھاؤ اگر نہ لاؤ۔ “

خدا بخش اُٹھ بیٹھا۔
”اب تم خواہ مخواہ زور دیے چلی جارہی ہو۔ میں کہاں سے لاؤں گا۔ افیم کھانے کے لیے تو میرے پاس پیسہ نہیں۔ “

”کچھ بھی کرو مگر مجھے ساڑھے چار گز کالی ساٹن لادو۔ “
”دعا کرو کہ آج رات ہی اللہ دو تین آدمی بھیج دے۔ “

”لیکن تم کچھ نہیں کرو گے۔ تم اگر چاہو تو ضرور اتنے پیسے پیدا کرسکتے ہو۔ جنگ سے پہلے یہ ساٹن بارہ چودہ آنہ گز مل جاتی تھی، اب سوا روپے گز کے حساب سے ملتی ہے۔ ساڑھے چار گزوں پرکتنے روپے خرچ ہو جائیں گے؟ “

”اب تم کہتی ہو تو میں کوئی حیلہ کروں گا۔ “
یہ کہہ کر خدا بخش اُٹھا۔
”لو اب ان باتوں کو بھول جاؤ، میں ہوٹل سے کھانا لے آؤں۔ “

ہوٹل سے کھانا آیا دونوں نے مل کر زہر مار کیا اور سو گئے۔ صبح ہوئی۔ خدا بخش پرانے قلعے والے فقیر کے پاس چلا گیا اور سلطانہ اکیلی رہ گئی۔ کچھ دیر لیٹی رہی، کچھ دیر سوئی رہی۔ اِدھر اُدھر کمروں میں ٹہلتی رہی، دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد اس نے اپنا سفید نینوں کا دوپٹہ اور سفید بوسکی کی قمیض نکالی اور نیچے لانڈری والے کو رنگنے کے لیے دے آئی۔ کپڑے دھونے کے علاوہ وہاں رنگنے کا کام بھی ہوتا تھا۔ یہ کام کرنے کے بعد اس نے واپس آکر فلموں کی کتابیں پڑھیں جن میں اس کی دیکھی ہوئی فلموں کی کہانی اور گیت چھپے ہُوئے تھے۔

یہ کتابیں پڑھتے پڑھتے وہ سو گئی، جب اٹھی تو چار بج چکے تھے کیونکہ دھوپ آنگن میں سے موری کے پاس پہنچ چکی تھی۔ نہا دھو کر فارغ ہُوئی تو گرم چادر اوڑھ کر بالکونی میں آکھڑی ہُوئی۔ قریباً ایک گھنٹہ سلطانہ بالکونی میں کھڑی رہی۔ اب شام ہو گئی تھی۔ بتیاں روشن ہورہی تھیں۔ نیچے سڑک میں رونق کے آثار نظر آنے لگے۔ سردی میں تھوڑی سی شدت ہو گئی تھی مگر سلطانہ کو یہ ناگوار معلوم نہ ہُوئی۔ وہ سڑک پر آتے جاتے ٹانگوں اور موٹروں کی طرف ایک عرصہ سے دیکھ رہی تھی۔

دفعتہ اسے شنکر نظر آیا۔ مکان کے نیچے پہنچ کر اس نے گردن اونچی کی اور سلطانہ کی طرف دیکھ کر مسکرا دیا۔ سلطانہ نے غیر ارادی طور پر ہاتھ کا اشارہ کیا اور اسے اوپر بلا لیا۔ جب شنکر اوپر آگیا تو سلطانہ بہت پریشان ہُوئی کہ اس سے کیا کہے۔ دراصل اس نے ایسے ہی بلا سوچے سمجھے اسے اشارہ کردیا تھا۔ شنکر بے حد مطمئن تھا جیسے اس کا اپنا گھر ہے، چنانچہ بڑی بے تکلفی سے پہلے روز کی طرح وہ گاؤ تکیہ سر کے نیچے رکھ کر لیٹ گیا۔ جب سلطانہ نے دیر تک اس سے کوئی بات نہ کی تو اس سے کہا۔

”تم مجھے سو دفعہ بُلا سکتی ہو اور سو دفعہ ہی کہہ سکتی ہو کہ چلے جاؤ۔ میں ایسی باتوں پر کبھی ناراض نہیں ہُوا کرتا۔ “

سلطانہ شش و پنج میں گرفتار ہو گئی، کہنے لگی۔
”نہیں بیٹھو، تمہیں جانے کو کون کہتا ہے۔ “

شنکر اس پر مسکرا دیا۔
”تو میری شرطیں تمہیں منظور ہیں۔ “

” کیسی شرطیں؟ “ سلطانہ نے ہنس کر کہا۔ ”کیا نکاح کر رہے ہو مجھ سے؟ “
” نکاح اور شادی کیسی؟ —— نہ تم عمر بھر کسی سے نکاح کرو گی نہ میں۔ یہ رسمیں ہم لوگوں کے لیے نہیں —— چھوڑو ان فضولیات کو۔ کوئی کام کی بات کرو۔ “

” بولو کیا بات کروں؟ “
” تم عورت ہو —— کوئی ایسی بات شروع کرو جس سے دو گھڑی دل بہل جائے۔ اس دنیا میں صرف دکانداری ہی دکانداری نہیں، کچھ اور بھی ہے۔ “

سلطانہ ذہنی طور پر اب شنکر کو قبول کر چکی تھی۔ کہنے لگی، ”صاف صاف کہو تم مجھ سے کیا چاہتے ہو؟ “
” جو دوسرے چاہتے ہیں۔ “ شنکر اٹھ کر بیٹھ گیا۔

” تم میں اور دوسروں میں پھر فرق ہی کیا رہا؟ “
” تم میں اور مجھ میں ‌ کوئی فرق نہیں۔ ان میں اور مجھ میں زمیں و آسمان کا فرق ہے۔ ایسی بہت سی باتیں ہوتی ہیں جو پوچھنا نہیں چاہیں، خود سمجھنا چاہیں۔ “

سلطانہ نے تھوڑی دیر تک شنکر کی اس بات کو سمجھنے کی کوشش کی۔ پھر کہا، ”میں سمجھ گئی۔ “
” تو کہو کیا ارادہ ہے؟ “

” تم جیتے میں ہاری، پر میں کہتی ہوں آج تک کسی نے ایسی بات قبول نہ کی ہو گی۔ “
” تم غلط کہتی ہو —— اسی محلے میں تمہیں ایسی سادہ لوح عورتیں بھی مل جائیں گی جو کبھی یقین نہیں کریں گی کہ عورت ایسی ذلت قبول کر سکتی ہے، جو تم بغیر کسی احساس کے قبول کرتی رہی ہو۔ لیکن ان کے نہ یقین کرنے کے باوجود تم ہزاروں کی تعداد میں موجود ہو —— تمہارا نام سلطانہ ہے نا؟ “

” سلطانہ ہی ہے۔ “
شنکر اٹھ کھڑا ہوا اور ہنسنے لگا۔ ”میرا نام شنکر ہے —— یہ نام بھی عجیب اوٹ پٹانگ ہوتے ہیں۔ چلو آؤ اندر چلیں۔ “

شنکر اور سلطانہ دری والے کمرے میں واپس آئے تو دونوں ہنس رہے تھے۔ نہ جانے کس بات پر۔ جب شنکر جانے لگا تو سلطانہ نے کہا، ”شنکر میری بات مانو گے؟ “
شنکر نے جواباّ کہا، ”پہلے بات بتاؤ۔ “

سلطانہ کچھ جھینپ سی گئی، ”تم کہو گے کہ میں دام وصول کرنا چاہتی ہوں۔ مگر۔ “
” کہو کہو —— رک کیوں گئی ہو۔ “

سلطانہ نے جرات سے کام لے کر کہا، ”بات یہ ہے کہ محرم آ رہا ہے اور میرے پاس اتنے پیسے نہیں کہ میں کالی شلوار بنوا سکوں —— یہاں کے سارے دکھڑے تو تم مجھ سے سن ہی چکے ہو۔ قمیص اور دوپٹہ میرے پاس موجود تھا جو میں نے آج رنگوانے کے لیے دے دیا ہے۔ “

شنکر نے یہ سن کر کہا، ”تم چاہتی ہو کہ میں تمہیں کچھ روپے دے دوں جو تم یہ کالی شلوار بنوا سکو۔ “
سلطانہ جے فوراّ ہی کیا، ”نہیں، میرا مطلب یہ ہے کہ اگر ہو سکے تو تم مجھے ایک کالی شلوار لا دو۔ “

شنکر مسکرایا، ”میری جیب میں تو اتفاق ہی سے کبھی کچھ ہوتا ہے۔ بہرحال میں کوشش کروں گا۔ محرم کی پہلی تاریخ کو تمہیں یہ شلوار مل جائے گی۔ لے بس، اب خوش ہو گئیں۔ “

سلطانہ کے بندوں کی طرف دیکھ کر پھر اس نے پوچھا، ”کیا یہ بندے تم مجھے دے سکتی ہو؟ “
سلطانہ نے ہنس کر کہا، ”تم انہیں کیا کرو گے؟ “ چاندی کے معمولی سے بندے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ پانچ روپے کے ہوں گے۔ ”

اس پر شنکر نے کہا، ”میں نے تم سے بندے مانگے ہیں۔ ان کی قیمت نہیں پوچھی۔ ، بولو دیتی ہو؟ “
” لے لو۔ “ یہ کہہ کر سلطانہ نے بُندے اتار کر شنکر کو دے دیے۔ اس کے بعد اسے افسوس ہوا مگر شنکر جا چکا تھا۔

سلطانہ کو قطعاّ یقین نہیں تھا کہ شنکر اپنا وعدہ پورا کرئے گا۔ مگر آٹھ روز کے بعد محرم کی پہلی تاریخ کو صبح نو بجے دروازے پر دستک ہوئی۔ سلطانہ نے دروازہ کھولا تو شنکر کھڑا تھا۔ اخبار میں لپٹی ہوئی چیز اس نے سلطانہ کو دی اور کہا، ”ساٹن کی کالی شلوار ہے۔ دیکھ لینا، شاید لمبی ہو —— اب میں چلتا ہوں۔ “

شنکر شلوار دے کر چلا گیا اور کوئی بات اس نے سلطانہ سے نہ کی۔ اس کی پتلون میں شکنیں پڑی ہوئی تھیں۔ بال بکھرے ہوئے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ابھی ابھی سو کر اٹھا ہے اور سیدھا ادھر ہی چلا آیا ہے۔

سلطانہ نے کاغذ کھولا۔ ساٹن کی کالی شلوار تھی۔ ایسی ہی جیسی کہ وہ مختار کے پاس دیکھ کر آئی تھی۔ سلطانہ بہت خوش ہوئی۔ بُندوں اور اس سودے کا جو افسوس اسے ہوا تھا، اس شلوار نے اور شنکر کی وعدہ ایفائی نے دور کر دیا۔

دوپہر کو وہ نیچے لانڈری سے اپنی رنگی ہوئی قمیص اور دوپٹہ لے آئی۔ تینوں کالے کپڑے جب اس نے پہن لیے تو دروازے پر دستک ہوئی۔ سلطانہ نے دروازہ کھولا تو مختار اندر داخل ہوئی۔
اس نے سلطانہ کے تینوں کپڑوں کی طرف دیکھا اور کہا، ”قمیص اور دوپٹہ تو رنگا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ پر یہ شلوار نئی ہے —— کب بنوائی؟ “

سلطانہ نے جواب دیا، ”آج ہی درزی لایا ہے۔ “ یہ کہتے ہوئے اس کی نظریں مختار کے کانوں پر پڑیں، ”یہ بُندے تم نے کہاں سے منگوائے ہیں؟ “
مختار نے جواب دیا، ”آج ہی منگوائے ہیں۔ “
اس کے بعد دونوں کو تھوڑی دیر خاموش رہنا پڑا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments