کابل پر فتح کیسے ممکن ہوئی؟


بیسویں صدی کے اختتام سے افغانستان میں جاری کشیدگی کا براہ راست اثر جنوبی ایشیائی ممالک اور خاص طور پر پاکستان پر ہوا ہے۔ 9 / 11 سے لے کر افغانستان میں امریکہ اور ان کے اتحادیوں کے پڑاؤ سے خطے میں بد امنی میں اضافہ ہوا۔ 20 سال کی ناکام جنگ کے بعد رواں سال امریکی قیادت نے واپسی کا فیصلہ کیا تو افغانستان میں صورتحال مکمل طور پر بدل کر رہ گئی ہے۔ 2 دہائیوں کی منصوبہ بندی، ہزاروں ارب ڈالر اخراجات اور نیٹو اتحاد کی مدد سے بنایا گیا دفاعی نظام طالبان کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوا ہے۔ طالبان کی جانب سے تیزی سے کی گئی کارروائیوں کے نتیجے میں افغان فوج بوکھلاہٹ کا شکار نظر آئی اور اکثر صوبوں میں جھڑپوں کے دوران افغان فوجیوں نے ہتھیار ڈالتے ہوئے طالبان کے ساتھ شمولیت اختیار کر لی۔ ترجمان امریکی دفترخارجہ نے اپنی ناکامیوں کا سارا ملبہ افغان قیادت اور فوج پر ڈالا ہے۔

غیر ملکی افواج کے انخلا کے چند ہفتوں بعد ہی طالبان کا پورے افغانستان پر کنٹرول سپر پاورز کا منہ چڑانے کے لئے کافی ہے، صدر اشرف غنی بھی اپنے عہدے سے استعفیٰ دے کر بیرون ملک فرار ہو گئے ہیں۔ طالبان نے جنگ کا اختتام کرتے ہوئے تمام شہریوں کو عام معافی دینے کا اعلان کیا ہے۔ ترجمان نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ کسی اور ملک کے معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے اور چاہتے ہیں کوئی دوسرا ملک بھی ہمارے معاملات میں مداخلت نہ کرے۔ کابل میں داخل ہونے والے جنگجوؤں کو تشدد سے گریز کا حکم دیا گیا ہے جب کہ جو بھی مخالف لڑائی کے بجائے امن پر آمادہ ہو انھیں معافی دی جائے گی اور خواتین سے محفوظ علاقوں میں جانے کی درخواست کی ہے۔

طالبان کی اس قدر تیزی سے کامیابی اور اربوں ڈالر کے دفاعی اور حکومتی نظام کو زیر کرنے میں کئی عوامل شامل ہیں۔ افغانستان کے قبائلی نظام میں سب زیادہ اثر و رسوخ 2 قبیلے ہی رکھتے ہیں جن کا نام احمد زئی اور اتمان زئی ہے۔ افغانستان کے نظام کے حوالے سے دلچسپ بات یہ تھی کہ ان قبائل سے تعلق رکھنے والا کچھ طبقہ طالبان جبکہ کچھ طبقہ افغان فوج سمیت دیگر حکومتی مشینری کا حصہ تھا۔ یوں سمجھیے کہ یہ قبائل دونوں طرف سے کھیل رہے تھے۔

جب لڑائی کی باری آتی تو فوج میں شامل طبقہ اپنے قبائلی جنگجوؤں کے سامنے ہتھیار پھینک کر بھاگ جاتے۔ ان کے اس رویے سے ایک طرف طالبان تک اسلحے کی سپلائی پہنچتی رہی، دوسری طرف حکومت میں رہتے ہوئے مالی طور پر نیٹو سے براہ راست فائدہ اٹھا رہے تھے، جس کا اثر خانہ جنگی میں شامل ہونے والے ممالک کی معیشت پر پڑ رہا ہے۔ ان قبائل نے 20 سال امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک سے ناصرف مالی فوائد حاصل کیے ہیں بلکہ عالمی برادری میں ذلیل و خوار کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔

امریکہ اور اس کے اتحادی افغان قبائل کی جانب سے کھیلے جانے والی گیم کا علم ہوا تو انہوں نے انخلا میں ہی عافیت سمجھی۔ یہی وجہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے آخری ایام جبکہ جو بائیڈن نے اپنے اقتدار سنبھالتے ہی طالبان سے مذاکرات کی راہ اپنانی۔ اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کو بالائے طاق رکھتے ہوئے فوج کو واپس بلانے کا فیصلہ کیا۔

افغانستان میں طالبان کے کئی دھڑے ہیں لیکن تمام اختلافات کے باوجود ان گروہوں کی قیادت شریعت کے نفاذ اور اسلامی طرز حکومت پر متفق تھی۔ بیرونی طاقتوں سے جان چھڑانے کے بعد اس نظام میں سب سے بڑی رکاوٹ اشرف غنی اور اس کے اتحادی تھے۔ ان سے اختلافات کی بڑی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے بیرونی افواج کی اپنے ملک پر قبضہ کی حمایت کی۔ امریکی انخلا کے بعد طالبان کی مسلسل پیش قدمی کے باعث صدر اشرف غنی نے آرمی چیف عبدالولی احمد زئی کو فوری طور پر عہدے سے برطرف کیا جس کے بعد جنرل ہیبت اللہ علی زئی کو نیا آرمی چیف تعینات کیا گیا۔

احمد زئی قبیلے سے تعلق رکھنے والے عبدالولی خان کو عہدے سے ہٹانے کے بعد اس کے قبائل نے فوج اور دیگر اداروں سے بغاوت کی اور طالبان کے ساتھ شمولیت اختیار کی۔ اس بغاوت کے نتیجے میں عام شہریوں نے کئی شہروں پر قبضہ کرنے میں طالبان کی بھرپور مدد کی ہے یہی وجہ ہے کہ کابل میں بغیر کسی لڑائی کے مخالفین کو شکست دینے کے بعد اقتدار باآسانی حاصل کر لیا گیا ہے۔

احمد زئی قبیلے کی بڑی تعداد پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں آباد ہے اس لیے طالبان پاکستان کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ امریکہ کی جانب سے حامد کرزئی اور پھر اشرف غنی کے ذریعے افغانستان اپنے مفاد کے لئے استعمال کرنے کا بڑا کھیل شروع کیا گیا، جس کا ایک اہم نشانہ پاکستان بھی تھا لیکن طالبان نے سب کھیل تباہ کر دیا۔ بھارت نے اشرف غنی اور کرزئی حکومتوں کی مدد سے پاکستان میں دہشت گردی کروائی اور طالبان نے ہر موقع پر ان عناصر کو ختم کرنے کے لئے افواج پاکستان اور حکومت کو ہر ممکن مدد فراہم کی ہے۔ طالبان کے اس نرم مزاج کے باعث بین الاقوامی برادری پاکستان پر گاہے بگاہے الزامات عائد کرتی رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments