سانحہ مینار پاکستان اور ہمارا ہیومن ریسورس


وطن عزیز کے یوم آزادی پر مینار پاکستان کے سائے تلے جو سلوک اک ہجوم نے ایک نہتی لڑکی کے ساتھ کیا اس پر انسانیت تو کیا حیوانیت کا سر بھی شرم سے جھک گیا ہو گا۔ اس سے ہمارے عوام خصوصاً نوجوان طبقہ کی اجتماعی ذہنی سوچ ہی عیاں نہیں ہوئی بلکہ دراصل ثابت یہ ہوا ہے کہ ملکی تعلیمی ڈھانچہ ہی زمین بوس ہو چکا ہے۔ اس واقعہ اور خواتین پر ظلم و ستم کے گزشتہ دنوں کے چند واقعات کا احوال جاننے کے بعد ہجرت کے وقت خواتین کی عصمت دری کے واقعات تو اب صرف ایک کہانی ہی معلوم ہوتے ہیں۔

مینار پاکستان کے اس واقعہ کو ”سانحہ“ بھی صرف اس لیے لکھا کہ یہ اشارہ کر رہا ہے کے ہم نے گزشتہ کئی عشرے لگا کر جو نسل تیار کی ہے وہ ناصرف کسی خاص معیار پر پوری نہیں اترتی بلکہ افسوس کے ساتھ اسے قوم کی بجائے صرف ایک ہجوم ہی کہا جا سکتا ہے۔ ٹک ٹاکر لڑکی سمیت ہمارے بیشتر ہیومن ریسورس یعنی انسانی وسائل کا معیار اتنا بودا اور گھٹیا ہے کہ ان سے یہ امید کرنا کہ یہ ملکی معاشی ترقی میں کوئی کردار ادا کریں گے تو یہ محض خام خیالی ہی ہوگی۔

اس بات سے قطع نظر کہ ہمارا مرد طبقہ خواتین کو کس نظر سے دیکھتا ہے یا سوسائٹی میں ان کے احترام کا لیول کیا ہے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ کیا اس مائنڈ سیٹ کے ساتھ ہم ترقی کر سکیں گے یا ہمارا ملک آگے بڑھ سکے گا تو اس کا ڈائریکٹ جواب ”نہیں“ میں ہے۔ بظاہر یہ اک واقعہ ہے مگر یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہم من حیث القوم پستی کی شاید آخری سطح پر ہیں۔

میری ذاتی نظر میں یہ کوئی مذہبی یا کلاسز کی لڑائی کا معاملہ بالکل نہیں ہے بلکہ خالصتاً انسانی وسائل کے معیار کے پست ہونے کی طرف واضح اشارہ ہے۔ باقی اس واقعہ کو جیسے سوشل میڈیا پر پیش کر کے، مذہب یا موم بتی مافیا وغیرہ پکار کر مخالف پارٹی پر تنقید کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے وہ بھی ہمارے انسانی وسائل کے پست ہونے کا ہی ایک انڈیکیٹر ہے۔

ہیومن ریسورس کی پستی کا یہ مظہر صرف مینار پاکستان کے سائے میں خاتون کے ساتھ بدتمیزی کرنے والے ہجوم میں واضح نہیں ہوا بلکہ یہ جھلک سوسائٹی کے اکثر طبقات میں باآسانی دیکھی جا سکتی ہے۔ اس لیے اس مائنڈ سیٹ کے خاتمہ اور خواتین کی بے حرمتی کے مسئلہ کے مستقل اور پائیدار حل کے لئے ضروری ہے کہ ملک کے تعلیمی نظام کا ازسرنو جائزہ لیا جائے اور ترجیحات کا تعین کر کے ضروری قانون سازی بھی کی جائے۔ اس ضمن میں تعلیمی نظام کی فقط ٹیوننگ سے کام نہیں چلے گا بلکہ ہنگامی طور پر مکمل اوور ہالنگ کی ضرورت ہے۔ پرل کانٹی نینٹل ٹائپ کانفرنسز کی بجائے فیلڈ ورک اور کلاس روم میں محنت کرنے کی ضرورت کے ساتھ اچھے اور خوشحال والدین پیدا کرنے کی سخت ضرورت ہے، اور ایسا تبھی ممکن ہے جب ٹیچرز اپنا حقیقی کردار پہچانیں اور ادا کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments