خدا اس ”اسلامی“ جمہوریہ پاکستان میں کسی کو بیٹی نہ دے


انہوں نے میرے کپڑے پھاڑ دیے۔ مجھے بالکل ننگا کر دیا۔ مجھے ڈھائی گھنٹے تک فٹ بال سمجھ کر اچھالتے رہے، میرے جسم کا کوئی حصہ ایسا نہیں جس پر نشانات نہ ہوں۔ مجھ کو جو لوگ چھڑوا رہے تھے وہ بھی مجھے نوچ کھسوٹ رہے تھے۔ ڈھائی گھنٹے بعد جب میں بالکل مرنے والی ہو گئی اور گر گئی تو پھر بھی لوگ کھینچا تانی میں مشغول تھے۔ ایک بچے نے دیوار سے میری حالت دیکھی تو اس نے دور سے پانی میرے حلق میں ڈالنے کی کوشش کی اور چلایا چھوڑ دو لڑکی مرنے والی ہے۔ مجھے سانس نہیں آ رہی تھی میری سانس بند ہو رہی تھی۔

بچے تو بچے ہوتے ہیں ان کو تو یہ ہی پتہ ہوتا ہے کہ سب انسان ہوتے ہیں، وہ مرد عورت میں تخصیص نہیں کرتے، ان کو یہ بھی ادراک نہیں ہوتا کہ یہ مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے جہاں پر اکیلی عورت دن کی روشنی میں بھی اگر باہر نکلے تو مذہبی تعبیر کے مطابق ایک درجہ بلند اور اعلٰی عقل والے ”انسانوں“ کو لائسنس مل جاتا ہے کہ اس کے ساتھ جو مرضی سلوک کریں اس کو نوچیں کھسوٹیں اور دل چاہے تو لذت کشید کرنے کے بعد مار بھی دیں۔ بعد میں لوگ عورت پر ہی الزام دھرتے ہوئے لعنت ملامت کریں گے کہ اس ”اسلامی“ معاشرے میں وہ اکیلی باہر گئی ہی کیوں۔

کیا پستی ہے کوئی معاشرہ اتنا بھی پست ہو سکتا ہے کہ جس میں ایک بھی ایسا بندہ نہیں تھا جو کہتا بدبختو! چھوڑ دو یہ کیا کر رہے ہو! صرف ایک انسان تھا اور وہ بھی بچہ جو دور سے منہ میں پانی ڈالنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا اور بھیڑیوں کو اپنی ناتواں اور کمزور آواز کے ذریعے روکنے کی لاحاصل سعی کر رہا تھا۔

وہ روتی جاتی ہے اور آنسو اس کے رخساروں پر بہتے جاتے ہیں، درد و غم سے بھری آواز اور شکستہ لہجے میں کہتی ہے میں نے تو پورے کپڑے پہنے ہوئے تھے چودہ اگست کی مناسبت سے میں نے سبز لباس زیب تن کیا ہوا تھا۔ میں تو فحش ویڈیو نہیں بناتی۔ کیا مینار پاکستان پر کسی عورت کا آنا منع ہے؟ کیا پاکستان میں کسی اکیلی عورت کے تفریح منانے پر قدغن ہے؟

جو لوگ اس سارے واقعے میں اسی عورت کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں وہ بھی اسی ہجوم جیسے ہیں بس ان کو موقع نہیں ملا، یا پھر وہ بزدل ہیں لیکن ہیں اندر سے پوٹینشل ریپسٹ۔ حیرت تو ان عورتوں پر ہے جو اپنی ہی صنف پر الزام تراشی کرتے ہوئے اسی کو مجرم ٹھہرا رہی ہیں شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کو اپنے مردوں سے قبولیت چاہیے جو ان کو نہیں ملتی۔ یا شاید لا شعوری طور پر انہیں پتہ ہے کہ انہیں اپنے گھر کے مردوں کو اپنی پارسائی کا ثبوت دیتے رہنے کی ضرورت ہے یا ان کی ذہن سازی اس حد تک کر دی گئی ہے کہ اپنے تشریح کردہ مذہب کے انجکشن اس حد تک لگائے گئے ہیں کہ ان کے خیال میں جو عورت چار دیواری سے باہر نکلتی ہے وہ ہی قصور وار ہوتی ہے۔ دراصل ان کو کسی دلیل کی ضرورت ہی نہیں عورت ہونا اور خود پر ہونے والے ظلم کا قصوروار ہونا طے شدہ ہے۔

اگر آپ ویڈیو کو بغور دیکھیں تو سارے تیس سال سے کم عمر نوجوان نظر آئیں گے یہ وہ جدید نوجوان ہیں جو سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں۔ اور سوشل میڈیائی نوجوانوں کی اکثریت عمران خان کے چاہنے والی ہے۔ جب ان کا ہیرو ملک کا حکمران ان کو یہ بتائے گا کہ مرد کوئی روبوٹ نہیں ہوتا، عورت اگر اکیلی ہو اس نے آپ کے طے کردہ معیار کے مطابق لباس نہ پہنا ہو تو آپ کے جذبات برانگیختہ ہونا فطری ہے اس لئے اگر جذبات کے ہاتھوں مجبور ہو کر آپ ”مرد“ بن جائیں تو یہ آپ کا قصور نہیں۔ بلکہ اس عورت کا ہی قصور ہے۔

حکمران کی کہی گئی بات اور اس کے ہر عمل کا معاشرے پر گہرا اثر ہوتا ہے۔ اسی لئے ہم ضیاء کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں کہ اس نے معاشرے کو انتہاپسند بنا دیا۔ خان اور اس جیسے دوسرے بااثر لوگوں کی ایسی باتوں کا ہی یہ اثر ہے کہ ہجوم ایک نہتی عورت پر پل پڑا۔ انہیں شاید ایک لمحے کے لیے بھی کوئی تردد نہیں ہوا۔ یہی تو ہونا چاہیے تھا اس بے حیا عورت کے ساتھ۔ اسی بات کی ہلا شیری تو ان کے محبوب نے ان کو دی ہے۔

یہ اپنی نوعیت کا واحد واقعہ ہے، دنیا میں انفرادی واقعات ہوتے ہیں لیکن اس طرح کا واقعہ شاید ہی کہیں اور کسی ملک میں ہوا ہو۔ انتہائی شرمناک۔ اس واقعے نے سر شرم سے جھکا دیا ہے۔ لیکن سب کا نہیں اکثریت تو وہی پڑھایا گیا سبق دہرا رہی ہے، وہ وہاں کیوں گئی۔ وہ ٹک ٹاک ویڈیوز کیوں بناتی ہے۔ اس کا لباس ٹھیک نہیں تھا۔ اور کیوں نہ دہرائے جب ان کا آکسفورڈ کا پڑھا مبینہ ایماندار لیڈر یہی کہہ رہا ہے تو وہ کیوں نہ کہیں۔

جن کے ہاتھوں میں معاشرے کی تربیت کی باگ ڈور ہے وہ منبر پر بیٹھ کر مافوق الفطرت کہانیاں سناتے ہیں۔ حور و غلمان کے قصے چسکے لے کر سناتے ہیں۔ لذت و شہوت سے بھرے واقعات سنا کر حظ اٹھاتے ہیں اور لذت سے بھری واہ واہ سمیٹتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ دنیا کی گندی مندی عورت چار دیواری میں بند کرنے کی چیز ہے اگر وہ باہر نکلتی ہے تو پھر اگر کوئی شکاری اس کا شکار کر لیتا ہے یا بہت سے بھیڑیے مل کر اس کو بھنبھوڑتے ہیں، راہ چلتے ہوئے، بازار میں سڑک پر، اس پر آوازے کستے ہیں اس کو چھیڑتے ہیں تو ایسا کرنے میں وہ حق بجانب ہیں۔

پہلے ہی اچھے سچے پکے مسلمانوں کے چہرے بیٹی پیدا ہونے کی خبر سن کر سیاہ ہو جاتے ہیں۔ اب پتہ چلا کہ کیوں زیادہ تر نام نہاد نیک لوگ بیٹی کی پیدائش پر غمزدہ ہو جاتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک عورت کھلونا ہے دل بہلانے کی چیز ہے لذت حاصل کرنے کا آلہ ہے۔ انسان نہیں ہے۔ بقول ایک مولوی اگر استطاعت ہو تو آٹھ آٹھ سال کی دو اور چار چار سال کی چار لے آئیے بلکہ میں خود ڈھونڈ کر دوں گا۔ اور سامنے بیٹھے زومبیز قہقہے لگاتے ہیں۔

جو لوگ تاویلیں کر رہے ہیں ان کو خبر ہو کہ ابھی یہ آگ کسی اور کی بیٹی تک پہنچی ہے کچھ خدا کا خوف کریں اگر یہ ہی حالات رہے تو یہ آگ گھر گھر پہنچے گی، خدا نخواستہ کوئی اس سے محفوظ نہیں رہے گا۔ اور آپ کی تو ساری عزت ویسے بھی عورت کے جسم سے جڑی ہے۔ اس لیے دست بستہ گزارش ہے کہ وکٹم بلیمنگ بند کیجئیے اور چونکہ چنانچہ کے بغیر اس عمل کی مذمت کیجئیے اور معاشرے کو درست کرنے اور اس کو ضیائی و عمرانی ذہنیت سے باہر نکالنے کی سعی کیجئیے، نظام تعلیم بدلیے۔ بتائیے ان کو، پڑھائیے کہ عورت بھی انسان ہے اور برابر کی انسان ہے۔ کوئی معاشرہ عورت کی شمولیت کے بغیر نہ تو ترقی کر سکتا ہے نہ ہی صحت مند رہ سکتا ہے۔

عورتوں کو منظر سے ہٹانا یا گھروں میں محصور کرنا کسی مسئلے کا حل نہیں بلکہ مسئلہ کی جڑ ہے۔ مردوں کو سیکھنے دیجئے کہ عورتیں بھی انہی کی طرح کی انسان ہیں۔ انہیں عورتوں کے ساتھ کام کرنے، کاروبار کرنے، تعلیم حاصل کرنے کے آداب سیکھنے دیجئیے۔ زیادہ سے زیادہ جگہوں پر عورتوں کی نمائندگی کو یقینی بنائیے۔ پاکستانی مردوں کو عورتوں کو لذت کشید کرنے کا آلہ سمجھنے کی بجائے انسان سمجھنے کی طرف لائیے۔ اس بیمار ذہنیت کے ساتھ تو وہ اپنے گھر کی عورتوں کے ساتھ بھی کوئی صحتمند رشتہ قائم نہیں کر سکتے۔ آدھی آبادی کو ذہنی، جسمانی طور پر عضو معطل بنا کر آپ کبھی بھی دنیا میں آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ڈری سہمی، گھروں میں بند، جدید دنیا سے نا بلد، تذلیل اور تحقیر کا شکار عورتیں کیسی نسل پروان چڑھا سکتی ہیں آپ دیکھ ہی رہے ہیں۔

ویڈیو دیکھ کر یہ ہی دل چاہتا ہے کہ اگر پاکستان میں رہنا ہے تو خدا بیٹی نہ دے۔ کیوں کہ یہاں بیٹیاں کہیں بھی محفوظ نہیں۔ وہ ہر وقت انسان نما درندوں کے رحم و کرم پر ہیں، کوئی بعید نہیں کہ کب کوئی بھوکا بھیڑیا یا بھیڑیے غول بنا کر ٹوٹ پڑیں۔ اگر وکٹم بلیمنگ بند نہ ہوئی، معاشرے کی تربیت کرنے کی کوشش نہ کی گئی، ظاہر پرستی پر مبنی مذہبی ڈوز کم نہ کی گئی، ہمارے علماء کا اسلام عورت سے آگے نہ بڑھا تو یاد رکھیے کوئی بھی نہیں بچے گا۔ ہوش کے ناخن لیجئیے۔

آپ بیٹیوں والے ہیں تو مشورہ ہے کہ اگر پاکستان سے بھاگ سکتے ہیں تو بھاگ جائیے۔ نہیں بھاگ سکتے تو نفسیاتی مریض بن کر رہیے اور سارے کام دھندے چھوڑ کر اپنی عورتوں کی حفاظت پر معمور ہو جائیے۔ اللہ آپ کی بیٹیوں کا حامی و ناصر ہو۔

بقول فراز
میں آج زد پہ اگر ہوں تو خوش گمان نہ ہو
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments