ہوشاب کیچ کی طالبات سڑکوں پر کیوں نکل آئیں؟


ہوشاپ کیچ کا دل کہلاتا ہے۔ کیچ کو آواران، پنجگور، خاران، قلات تا کوئٹہ اور دیگر علاقوں سے لنک کرنے کا مرکز ہوشاپ ہے۔ سی پیک روٹ کا گزر یہیں سے ہوتا ہے۔ مگر گزشتہ روز یہ روٹ ڈیڑھ گھنٹے تک معطل رہا۔ سکول کی طالبات سراپا احتجاج تھیں۔ مطالبات جائز اور سادہ تھے : تعلیمی اداروں تک رسائی یقینی بنائی جائے، نامکمل بلڈنگ کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے۔ استانیوں کا کوٹہ پورا کیا جائے۔ مطالبات کو لے کر وہ صدا بلند کرتے نظر آئیں مگر آواز پر کان نہیں دھرے گئے۔ مجبوراً احتجاج کا راستہ اپنانا پڑا۔

آبادی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ آبادی کے ساتھ ساتھ ضروریات بھی بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔ تعلیم بنیادی اور اہم مسئلہ ہے جسے حل کرنے میں حکومت کی استعداد کاری کا پیمانہ بہت کمزور۔

ہوشاب میں اس وقت دو ہائی سکولز ہیں ایک لڑکیوں کے لیے اور دوسرا لڑکوں کے لیے۔ دونوں کا فاصلہ بہت قریب کا ہے۔ گرلز سکول کو ہائی کا درجہ سن 2020 میں ملا تھا۔ مگر درجہ فقط نوٹیفکیشن تک محدود رہا۔ نہ ہی کمروں میں اضافہ کیا گیا اور نہ ہی اضافی ٹیچرز فراہم کیے گئے۔

سکول جب پرائمری تھا تو پرائمری تعلیم پاس کرنے کے بعد لڑکیوں کو داخلہ گورنمنٹ بوائز ہائی سکول ہوشاب میں مل جاتی تھی۔ گرلز سکول کو جب مڈل کا درجہ ملا تو بھی سکول مڈل سیکشن کا تدریسی نظام چلانے سے قاصر ہی رہا وجہ اساتذہ کی کم تعداد اور کمرے قلیل۔ پڑھانے کا بندوبست بوائز ہائی سکول میں ہونے لگا۔ موجودہ سال جب سکول کو ہائی کا درجہ ملا تو بوائز ہائی سکول کی انتظامیہ نے یہ کہہ کر ساتویں جماعت کو داخلہ دینے سے انکار کیا کہ ایک تو گرلز سکول کو ہائی کا درجہ ملا ہے اور دوئم یہ کہ بوائز سکول کے اساتذہ سکول کی بڑھتی ہوئی تعداد کو کور نہیں کر پا رہی ہے۔

گورنمنٹ بوائز ہائی سکول ہوشاپ میں اس وقت اساتذہ کی تعداد اٹھارہ ہے۔ سکول ٹیچر آزاد بلوچ کے مطابق سکول میں لڑکیوں کی تعداد کو دیکھتے ہوئے سکول انتظامیہ نے مڈل اور ہائی سیکشن کو دو تین سیکشنز میں تقسیم کیا تھا۔ آٹھویں جماعت کے لیے تین سیکشنز، نویں جماعت کے لیے دو اور دسویں جماعت کے لیے دو سیکشن بنائے تھے۔ ٹیچرز کم طلبہ زیادہ یہ وہ بنیادی نکتہ تھا کہ سکول انتظامیہ نے ساتویں جماعت کی طالبات کو واپس گرلز سکول بھیج دیا۔

طوطی گل گزشتہ چھبیس سال سے گرلز سکول کا نظم و نسق چلا رہی ہیں ان کی تعیناتی بطور جے وی ٹیچر 1996 میں ہوئی تھی۔ مگر اس وقت سکول کا کوئی ڈھانچہ موجود نہیں تھا سکول کا نظام انہوں نے گھر کے اندر چلانا شروع کیا۔ تب جا کر 2003 میں چھ کمرے تعمیر کیے گئے اور مزید استانیوں کی تعیناتیاں کی گئیں۔ اس وقت ان کے علاوہ پانچ جے وی ٹیچرز ہیں۔ سکول میں نہ کوئی سائنس ٹیچر ہے نہ کوئی کلرک اور نہ ہی سائنسی سامان۔ طالبات کیوں سراپا احتجاج ہیں اس پر وہ کہتی ہے کہ طالبات کی تعداد کافی بڑھ گئی ہے اب حالت یہ ہے کہ ہم ایک کلاس کو دھوپ میں بٹھا کر پڑھانے پر مجبور ہیں۔ نئے کلاسز کو پڑھانے کے لیے نہ ہی ٹیچرز ہیں اور نہ ہی کلاس رومز۔

مقامی افراد کے مطابق چند سال قبل سکول کے لیے مزید چھ کمروں کی منظوری ہوئی تھی۔ کمروں کی تعمیرات کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ مگر ٹھیکیدار کام ادھورا چھوڑ گیا۔ این ٹی ایس اور سی ٹی ایس پی کے ذریعے بھرتیاں کی گئیں۔ جن میں چار کی تعیناتی گرلز سکول میں ہوئی مگر ان سے ڈیوٹی نہیں لیا جا رہا۔

سکول میں نہ صرف ہوشاپ کی مقامی لڑکیاں پڑھنے آتی ہیں بلکہ ملحقہ علاقے پرپوٹگ، گون سر، دمب اور گرونک سے کئی کلومیٹر دور پیدل فاصلہ طے کر کے لڑکیاں سکول کا رخ کرتی ہیں۔ انتظامیہ نے مظاہرین سے مذاکرات کیے اور مسائل کی یقین دہانی کے لیے سفارشات صوبائی حکومت کو بھیجی جا چکی ہیں۔

حلقہ میر ظہور بلیدی کا ہے جو اس وقت صوبائی حکومت میں ایک اہم پوزیشن پر براجمان ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ لڑکیوں کو اس اہم مسئلے کے لیے سڑکوں پر نکلنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ اب جبکہ مسئلہ عوام کے سامنے آ گیا ہے حل کے لیے حکومت پس و پیش سے کام نہ لے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments