یہ مینار پاکستان نہیں، آپ کا قومی مقبرہ ہے


جب چند خواتین نے خواتین کے خلاف جرائم کے پر احتجاجاً یوم آزادی نہ منانے کی تجویز دی تو شور مچانے اور انگلی اٹھانے والوں کی قطار بندھ گئی، ان کے نزدیک ملکی وقار اور یوم آزادی کا جنسی و گھریلو تشدد سے تعلق نہیں تھا۔ یوم استقلال پر عین مینار قومی وحدت و عقیدت کے وسط می جو آفت ایک عورت پر ٹوٹی وہ ایسا زور دار طمانچہ تھا مگر گالیں لال نہیں نیلی پڑ گئیں ہیں اخلاق اور وقار نعش کی طرح گل سڑ گیا ہے، جس سے مسلسل باس اٹھ رہا ہے۔ نعش بے گور و کفن پڑی ہے اور نباتات اس کا گلا سڑا ماس نوچ رہے ہیں۔ یہ ماس اسی حمیعت، سلامتی، غیرت، یکجہتی، منزلت کا ہے جس کا دم بھرتے مجرم انسانیت انسانوں کو نوچتے تھکتے نہیں۔

مجھے یقین ہے جو ظلم کے حق میں توجیہات پیش کرتے ہیں وہ آج بھی مطمئن ہیں۔ ٹھٹھے بازی، طنز و مزاح، متاثرہ خاتون پر الزامات سب بڑے شرمناک مگر پروقار انداز میں لگانے والوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ سماجی روابط کے ذرائع پاکستانی قوم کی اصلیت کی قلعی کھول کر رکھ دیتے ہیں جو کہ کھلی نہیں تار تار ہو کر گری ہوئی ہے۔ لباس اس قوم میں پیدا ہونے والی بد بخت عورتوں کا تار تار نہیں ہوا، اس ملک و ملت کے خود ساختہ وقار اور تمکنت کا ہوا ہے۔ کہاں ہیں وہ امن و سلامتی، غیرت و حمیعت کے بے لحاظ وعظ دینے والے؟ کیا بے و قاری کی موت نے اچک لیا یا آگ ٹھنڈی ہونے کے منتظر ہیں؟

اس عہد وفا کو بیچ بازار پیٹا گیا ہے جو کبھی اسی آزادی کے منڈپ پر کیا گیا تھا۔ ہمیں نہ پہلے امید تھی نہ اب ہے کہ ہمارے اطراف گھومتے پھرتے یہ جاندار جن کو سماج اور تاریخ نے بیسیوں نام دے رکھے ہیں کہ کبھی ہمارے لئے امن و آزادی کا ذریعہ بن سکیں گے۔ ہم جو ہر لمحہ کہتی رہتی ہیں کہ یہ ہمیں نوچ کھا رہے ہیں، وہ کوئی الفاظ کا قرینہ یا زباں کا انداز بیاں نہیں، یہ حقیقت میں اپنے ہاتھوں اور دانتوں سے چیر پھاڑ کر رہے ہیں۔

ثبوت تو جا بجا بکھرے پڑے ہیں، جن کو دیکھ دیکھ کر کچھ زمین میں گڑ رہے ہیں اور باقی محظوظ ہو رہے ہیں، لطف اٹھا رہے ہیں، محو رقصاں ہیں، خوشی کا عالم ہے کہ ان کے خون آلود قہقہوں میں سنائی دے رہا ہے۔ جبر اور ظلم کے سارے ہیولے اتر چکے ہیں۔ کسی کو کہیں کوئی پناہ نہیں ہے۔ یہاں کسی عورت کو تحفظ نہیں میسر کہ آبرو ریزی کے یہ شیطان منڈلا رہے ہیں، جو ہمیشہ سے ہمارے وسط جھومتے رہے، مظلوموں کی چیخیں تلک دبا دی گئیں، کوئی گناہ کہلائی، کوئی نشان عبرت کی تعبیر ٹھہرائی۔ جو محفوظ ہے، وہ دروغ کی دلدل میں دھنسی ہے، بس اس کی باری نہیں آئی۔

آج تین دن گزر گئے، کوئی آسماں ابھی تلک پھٹا نہیں، نہ زمیں نے نگلنا شروع کیا ہے۔ بہتر گھنٹے بیت گئے اور کوئی مہلک وبا نہیں پھوٹی، کوئی سیلاب آیا نہ بجلیاں گری ہیں۔ گناہ گار مرد ہے؟ کسی کے لب کانپتے دعا کر رہے ہیں نہ کسی کے ہاتھ قہر سے لرز رہے ہیں۔ سب کچھ مناسب ہے۔ زندگی رواں دواں ہے۔ عذاب آ کر چلا گیا ہے۔ عذاب نے اپنا دل بدل لیا ہے۔ اس کو یہ قہر قہر نہیں لگا۔ یہ تو عام سی بات ہے۔ عورت کی اوقات ہی کیا ہے؟ مرد ہے وہ تو ناخدا ہے۔ وہ تو فاضل ہے۔ اس کے بس میں نہیں تھا۔ وہ بیٹی کو بھی تو ایسے تکتا ہوگا، بہن کی بیٹی کو بھی تو چھوتا ہے، بہن کے سینے کو تانک کر اس کو آنچل ڈالنے کو کہتا ہے۔ مرد ہے خدائی کی پرچھائی ہے۔

مظلوم تو عورت ہے، صدا کی محکوم رہے گی، بد بخت جو ہے، سب کی قسمت ایک سیاہی اور قلم سے لکھ جو دی گئی ہے۔ کیوں بولے گی؟ انتقام کیوں لے گی؟ صبر کرنا چاہیے، شکر کا زہر آلود مشروب پی لے۔ مگر طوفان نہیں آیا، کسی ظالم کو اس نے بہایا نہیں۔ راوی کنارے کفر ٹوٹا مگر اس کی موجوں میں بجلی پیدا نہیں ہوئی۔ عذاب بھی مرد کے بلانے پر آتا ہے اور مظلوم سر دھنتے ہیں کہ ہمارے اعمال سے قہر آ گیا ہے۔

وہ جو حاکم ہے، مذہب کی اپنی مرضی کی بساط بچھا کر وہ جو من مرضی کی شطرنج اڑاتا ہے۔ سنا ہے اس کو دجلہ کے کتے یاد آتے ہیں، راوی کنارے نڈھال برہنہ ہوتی عورت نہیں دکھتی۔ عورت جو ہوئی، کینہ بغض عتاب کی حق دار ہوئی، اس کو وہ کیوں یاد آئے گی؟

وہ جو آسماں کو چھوتا مینار ہے، جس کو دور سے دیکھ کر آنکھوں کو سکوں ملتا تھا، اس مینار کی حرمت اب مر چکی ہے، اس کو بٹھا دیں، گرا دیں۔ ہمارے کسی کام کا نہیں رہا۔ عورت کی آبرو کا مقبرہ ہے وہ۔ اس پر عورت کی ایک ایک چیخ، ہر التجا کو اکٹھا کر کے اس کا مینار بنا دیں، بہت بلند بنے گا تاکہ یاد رہے دنیا کو، ایک ملک کا قومی شیوا کیا ہے۔ یہاں پر اس ملک کے مردوں کی ہیجانیت کا مینار بلند کر دیں، عورت سے نفرت کیسے کی جاتی ہے اس کی تراکیب اس پر ثبت کر دیں، جنسی جبر، تشدد اور ظلم کے سارے مادے جمع کر کے اس کو مینار پر سجا دیں۔ اس کے آنسوؤں کے موتی سمو کر مینار پر روشنیاں جلا دیں۔

وہاں کی کوئی حرمت رہی ہے نہ تقدس، اس معاشرے سمیت اس جاہ کو بھی نذر آتش کر دیں، ہر قومی نعرہ چپ کرا دیں، یہاں کوئی عظمت بستی ہے نہ عظمت کی بستی ہے م حرمت، وقار، قاعدہ، نظم، یکجہتی بھی ویسے بے لباس ہوئی، زمین بوس ہوئی، تار تار ہوئی جیسے اس عورت سمیت ہر عورت کو زمین پر برہنہ پھینکا گیا۔ عورت نہیں عورت کا رہا سہا ایمان، یقین، لحاظ بھی درگور کر دیا ہے۔ آپ نے واضح کیا کہ یہ ملک اس کے مردوں کا ہے، وہ کتنی نفرت کرتے ہیں۔ ظلم، تشدد، جبر کی عبادت کرتے ہیں، ہیجانیت کے چڑھاوے اپنی ہی زندہ قبروں پر چڑھاتے ہیں اور بے آبرو تنوں پر طاقت کی دھمال ڈالتے ہیں۔ کہنے والے یہ کہتے نادم نہیں کہ ان کو اپنے مرد ہونے پر آج شرمندگی ہے۔ آپ کو آج شرمندگی محسوس ہو رہی ہے؟

پہلی بار؟ یہاں روز بازار گرم ہوتا ہے، عورت بکتی ہے، رسوا کی جاتی ہے اور آج شرمندگی کی موجوں میں روانی ہوئی ہے؟ صبح دوپہر شام طبیب کے نسخے کی طرح عورت کے خلاف چھوٹے پیمانوں پر جبر کا ارتکاب کرنے والوں کو لگتا ہے کہ وہ ان چار سو مردوں سے کہیں مختلف ہیں؟ عورت پر الزام تراشی کرنے والی پدر شاہی کی اترن پہننے والی عورتوں کو لگتا ہے کہ وہ اس عورت کے خلاف پرچار کریں گی تو محفوظ رہیں گی؟ کس قدر غلیظ ہوں گے وہ لوگ جو ان چار سو مردوں کی حمایت میں اترے ہیں۔ کس قدر کمتر ہیں، داغ دار ہیں، بے توقیر و بے عزت ہیں۔

آپ نے ثابت کیا کہ اصل نفرت اور سزا کا حق دار کون ہے، آج کا فرعون کون ہے، ابلیس کون ہے اور اصل حیوان کون ہے۔ آپ کو کسی جانور سے تشبیہ دینا نا انصافی ہے، آپ پاکستان کے پدرشاہی نظام کے باشندے کارندے ہیں اس سے بڑی ہزل کوئی نہیں ہو سکتی۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ آپ شرمندہ بھی نہیں ہوں گے کہ قفل بندھے ہیں آپ کے سینوں سوچوں فکروں پر۔ ہم آپ کو مزید پہچان چکی ہیں، آپ قابل رحم نہیں۔ آپ بس مر چکے اور یہ مینار آپ کی قوم کا مقبرہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments