عمان کی رونق اور ارددن کے آثار قدیمہ


بعض اوقات ان دیکھی چیزوں یا انجانی جگہوں کے بارے میں دل گواہی دیتا ہے۔ استنبول سے اڑان بھرے گھنٹہ بھر ہو چکا تھا اور ہمارے دل و دماغ میں اس وقت یہی مشاورت ہو رہی تھی۔ بالآخر یہی طے پایا کہ عمان بلکہ اردن ایک اچھا سیاحتی مقام ہو گا۔ تقریباً ڈھائی گھنٹے میں ہمارا جہاز عمان ائرپورٹ پر لینڈ کر چکا تھا۔ کچھ دیر بعد ہم خصوصی لاونج میں پہنچے۔ لاونج میں بچھے دبیز قالین اور در و دیوار کی آرائش عرب ثقافت کی نمائندگی کر رہی تھی۔

عرب ممالک کے رواج کے مطابق ہمیں چھوٹی چھوٹی پیالیوں میں قہوہ پیش کیا گیا۔ یہ خصوصی قہوہ مہمانوں کی آمد پر پیش کیا جاتا ہے جو مقدار میں کھانے کے دو چمچ کے برابر اور ذائقہ میں کڑوا ہوتا ہے۔ قہوہ پینے کے دوران میزبان آفیسرز سے تعارف ہوا۔ کچھ دیر بعد ایک کوسٹر میں سوار ہو کر ہم ہوٹل پہنچے۔ عمان میں ہمارا قیام الحیات ریجنسی ہوٹل میں تھا جو ایک بڑی شاہراہ پر مربع شکل کی بلند عمارت میں تھا۔ ہوٹل انتظامیہ کی طرف سے ہمیں تنبیہ کی گئی تھی کہ ہوٹل ایک مصروف شاہراہ پر واقع ہے جہاں گاڑیاں بہت تیز رفتاری سے گزرتی ہیں اس لئے ہم احتیاط برتیں۔

عمان اردن کا دارالحکومت ہونے کے علاوہ ایک خوبصورت شہر ہے جو سیاحوں کے لئے بے پناہ کشش رکھتا ہے۔ شہر کے مشرقی حصے میں آثار قدیمہ کی شکل میں ایک بڑا اثاثہ ہے جبکہ مغربی حصہ میں ایک جدید شہر اپنی تمام تر رنگینیوں کے ساتھ آباد ہے۔ آثار قدیمہ یونانی، رومن، بازنطینی اور عثمانیہ ادوار سے تعلق رکھتے ہیں اور نہ صرف عمان بلکہ اردن کے دوسرے شہروں میں بھی ملتے ہیں۔ عمان میں رومن ایمفی تھیٹر، ہرکولیس کے ستون اور سکندر اعظم کا قلعہ مشہور مقامات ہیں۔

ہماری پیشہ ورانہ وزٹ کا پروگرام اگلے روز سے شروع ہونا تھا۔ ہماری میزبانی پر تعینات آفیسرز نے ایک پروگرام بنا رکھا تھا جس میں تاریخی مقامات کی وزٹ بھی شامل تھی۔ یہاں میں صرف تاریخی مقامات تک محدود رہوں گا۔

مغرب ہونے میں ابھی دو گھنٹے سے زائد وقت باقی تھا۔ کچھ دیر سستانے کے بعد میں اور کرنل لیاقت باہر نکلے۔ شہر کا با رونق ایریا زیادہ دور نہیں تھا۔ ہم پیدل چلتے چند منٹ میں ایک خوبصورت شاپنگ ایریا تک پہنچ گئے۔ کشادہ اور صاف ستھرا بازار جہاں پر فروخت کی جانے والی اشیاء کی نمائش شو کیسز میں قرینے کے ساتھ کی گئی تھی۔ بازار کی رونق بڑھانے میں خواتین و حضرات جن میں زیادہ تعداد نوجوانوں کی تھی، پیش پیش تھے۔ لوگوں کے چہروں پر خوبصورتی کے علاوہ خوشحالی بھی ٹپکتی تھی۔

سب خوش گپیوں میں مشغول ٹہلتے جا رہے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ خریدار کم ہیں اور زیادہ تر تفریحا گھوم رہے تھے مگر کوئی شور و غوغا نہ تھا۔ موسم اچھا تھا ہلکی ٹھنڈی ہوا بھلی لگ رہی تھی۔ ایک جگہ شوارما بن رہا تھا۔ ان دنوں پاکستان میں شوارما نہیں ملتا تھا۔ کرنل لیاقت سعودی عرب میں رہ چکے تھے لہذا وہ جانتے تھے۔ ہم نے وہاں پر شوارما کھایا جو انتہائی لذیذ تھا۔ اتنا اچھا لگا کہ واپسی پر دوبارہ کھانے کا فیصلہ کیا۔ کچھ دیر بازار میں گھومنے کے بعد ہم واپس ہوٹل پہنچے۔

اگلی صبح سے ہم پیشہ ورانہ وزٹ میں مصروف ہو گئے۔ دوپہر کو انتہائی پر تکلف ضیافت کی شکل میں ظہرانے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ انواع و اقسام کے پکوان اور پیشکش و سجاوٹ کا انداز اپنی مثال آپ تھا۔ سلاد کی مختلف اقسام کو بھی شامل کریں تو ورائٹی کی تعداد یک صد سے متجاوز تھی۔ مہان نوازی کے انداز سے محسوس ہوتا تھا کہ ہم بادشاہ کے ذاتی مہمان ہیں۔ ہمارا دورہ اور یہ سب ساتھ ساتھ چلتا رہا۔ اب میں ان مقامات کا ذکر کروں گا جو اس کے سوا تھے اور جہاں ان دنوں میں ہمارا جانا ہوا۔

غار اصحاب کہف کی زیارت کا موقعہ ملا۔ ہمیں اس کا پہلے سے علم نہیں تھا اس لئے ہمارے لئے وہاں جانا ایک خوشگوار سرپرائز تھا۔ اصحاب کہف کا واقع ایک دلچسپ واقع ہے جس کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے۔ اسی مناسبت سے اس غار کو دیکھنے کے لئے میں ذاتی طور پر بہت پر جوش تھا۔ یہ غار عمان شہر سے بیس پچیس منٹ کی مسافت پر ہے۔ سڑک کے کنارے کچھ اوپر جا کر غار واقع ہے جس کا منہ سڑک کی طرف کھلتا ہے۔ کسی زمانے میں اونچی پہاڑی چڑھنے کے بعد غار تک پہنچنا ممکن ہوتا ہو گا لیکن اب تو سڑک بہت قریب سے گزرتی ہے۔

غار کے منہ سے جھک کر دو تین سٹیپ نیچے اتر کر غار میں پہنچتے ہیں جہاں سیدھا کھڑے ہونے کی گنجائش ہے۔ دائیں طرف سامنے کے رخ ایک اونچی جگہ ہے جس کے آخری کنارے پر سوراخ ہے جو روشن دان کا نعم البدل ہے۔ غار کے اندر اصحاب کہف کا معجزاتی واقعہ آنکھوں کے سامنے آ گیا اور دل پر ایک عجیب کیفیت طاری ہوئی جو بیان نہیں کی جا سکتی۔

جریش عمان سے تقریباً پچاس کلو میٹر شمال میں ایک شہر ہے۔ ہم سوا گھنٹے میں وہاں پہنچ گئے تھے۔ جریش کا پرانا شہر کھنڈرات کی شکل میں آثار قدیمہ کا ایک بہت بڑا خزانہ ہے جسے ستونوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ یوں تو اس شہر کی تاریخ قبل مسیح زمانے سے ہے مگر موجود کھنڈرات دو ہزار سال پرانے ہیں جو انیسویں صدی کے اوائل میں دریافت ہونا شروع ہو گئے تھے اور ابھی تک یہ کام جاری ہے۔

اوول فورم بیضوی شکل کی اونچے ستونوں سے گھری ہوئی ایک کھلی جگہ ہے۔ یہاں سے ایک راستہ شمالی تھیٹر کی طرف جاتا ہے جو پتھروں سے بنا ہوا ہے اور اس کے دونوں اطراف عالیشان ستون ایستادہ ہیں۔ اس راستے کو ہم سڑک کہہ لیتے ہیں بلکہ آج کے دور میں اسے مین بلیوارڈ کہا جاتا۔ سڑک سے تقریباً چار فٹ کی بلندی تک عمارت میں داخل ہونے کے لئے چبوترے بنے تھے اور یہیں سے خوبصورت اور مضبوط ستونوں کو اوپر اٹھایا گیا تھا۔ موجودہ طرز تعمیر کے لحاظ سے آپ اسے اپر گراؤنڈ فلور کہہ سکتے ہیں۔

دو ہزار سال گزرنے کے بعد آج بھی ان ستونوں کی عظمت قائم ہے۔ مجھے ذاتی طور پر آثار قدیمہ سے دلچسپی ہے بالخصوص ستون والی عمارتوں سے اس لئے میری کیفیت ایسے تھی جیسے میں اس دور میں اس با رونق شاہراہ پر چل رہا ہوں اور ان عمارتوں اور دکانوں کو دیکھ رہا ہوں جو بیس صدیاں قبل ستونوں کے پیچھے آباد تھیں جن میں سے چند ایک کے کھنڈرات دریافت ہو چکے ہیں اور دیگر کے لئے مٹی کی دبیز تہیں ہٹا کر کریدا جا رہا ہے۔ میں نے چشم تصور میں یہ بھی دیکھا کہ ہٹو بچو کی صدائیں بلند ہوئیں اور بازار کی رونق نے خود کو سمیٹا کوئی کنارے پر ہوا تو کوئی چند سیڑھیاں چڑھ کر ستون کے ساتھ کھڑا ہو گیا اور شاہی سواری کے گزرتے ہی سڑک کی رونق پھر سے بحال ہوئی۔

کچھ ہی دیر میں عقب میں گھوڑوں کے ٹاپوں کی آواز سنائی دی جو بتدریج مدھم ہوتی گئی اور قریب ہی ایک رتھ آ کر رکی جس میں سے ایک رئیس زادہ اترا اور دکان میں داخل ہو گیا۔ اسی رو میں چلتے چلتے میرے ساتھی کی آواز آئی کہ یہاں تصویر بنواتے ہیں۔ رونق بازار کا تسلسل ٹوٹتے ہی میں نے کیمرا سنبھالا اور ستونوں کی اٹھان سے نیچے والی دیوار کے ساتھ کھڑے ہو کر چند تصاویر بنوائیں۔

اس پتھریلی سڑک کے آخر میں راستہ رومن سٹائل میں گولائی میں بنے ہوئے ایک تھیٹر کی طرف جاتا ہے جو آج بھی نہایت متاثر کن ہے۔ تھیٹر کے سب سے اونچائی والے حصے میں کھڑے ہو کر نیچے دیکھنے سے اس کی شان و شوکت کا اندازہ ہوتا ہے۔ وہاں ہم نے چند تصاویر بھی اتاریں۔ اس کے علاوہ جریش میں قابل دید مقامات میں آرٹیمس دیوی کا مندر اور گھوڑ دوڑ کا میدان ہیں جہاں گھوڑوں اور رتھوں کی دوڑوں کے مقابلے ہوا کرتے تھے۔

ام قیس نام کا شہر عمان سے 110 کلو میٹر شمال کی جانب واقع ہے جس کے قریب ہی اردن کی سرحدیں شام اور اسرائیل سے ملتی ہیں۔ اس کی وجہ شہرت بھی آثار قدیمہ ہیں۔ تمام علاقہ گڈارا کہلاتا ہے جس کے قرب میں موجودہ ام قیس شہر آباد ہے۔ یہ سفر بہت دلچسپ رہا۔ یہاں سے دریائے یرموک اور گولان کی پہاڑیوں کا نظارہ بہت اچھا لگا اور دریائے یرموک نے جنگ یرموک یاد دلا دی۔

عجلون کا قلعہ شمال مغرب میں سرحدی شہر عجلون میں ہے۔ اردن میں موجود قلعوں میں یہ واحد قلعہ بارھویں صدی میں مسلمانوں نے تعمیر کرایا تھا۔ قلعہ پہاڑی کی چوٹی پر واقع ہے جہاں سے ارد گرد کے تمام علاقوں پر نظر رکھی جا سکتی ہے۔ پتھر کا بنا ہوا یہ قلعہ کافی پرانا ہو چکا ہے مگر بہت اچھے سے نگہداشت کی گئی ہے۔ قلعے کے مختلف حصے، سیڑھیاں، کمرے، گزر گاہیں وغیرہ سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں اور دلچسپی کا باعث ہیں۔ قلعہ سے ارد گرد دکھائی دینے والی سرسبز وادیاں خوشگوار احساس دلاتی ہیں اور قلعے کی ویرانی محسوس نہیں ہونے دیتیں۔

عمان کے جنوب مغرب میں بحر مردار واقع ہے۔ ہمارے پروگرام میں اس سے متعلق کوئی ذکر نہیں تھا۔ لیفٹیننٹ کرنل عبدالمالک ( بعد میں میجر جنرل ریٹائر ہوئے ) وہاں ضرور جانا چاہتے تھے۔ مجھ سے مشورہ کیا اور ساتھ چلنے کی دعوت بھی دی۔ میں نے حامی بھر لی اس شرط پر کہ کوئی موقعہ بن پڑے۔ ہفتہ وار چھٹی کے روز صبح گیارہ بجے تک ہم فری تھے اس لئے یہ مناسب وقت تھا کہ ہم ناشتے کے بعد بحر مردار کی طرف نکل جائیں۔ ہم نے ٹیکسی پکڑی اور چل دیے۔

تقریباً سوا گھنٹے کی مسافت تھی۔ ٹیکسی ڈرائیور نے ہمیں سمندر کے قریب تر پہنچا دیا۔ بحر مردار کے ساحل عمومی ساحلوں جیسے خوبصورت اور با رونق نہیں ہیں۔ یہاں کے ساحل نمکیات سے آلودہ ہیں یا سیاہ کیچڑ سے۔ البتہ یہاں پر جلد کی بیماریوں کے علاج کے لئے علاج گاہیں بنی ہوئی ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہاں کے سیاہ کیچڑ کے لیپ سے جلدی بیماریوں سے شفا ہو جاتی ہے۔ ہمارے قریب ہی ایسی ایک علاج گاہ کے بیڈ لگے ہوئے تھے۔

کچھ دور جا کر ہم پانی کے قریب پہنچ گئے۔ پانی کو چھونے سے ہلکا گرم محسوس ہوا یعنی درجہ حرارت معتدل سے قدرے زیادہ تھا۔ یہ ایسا سمندر ہے جس میں جاندار اور بے جان کوئی بھی نہیں تیر سکتا یعنی نہ اس میں آبی حیات ہے اور نہ ہی جہاز اور کشتیاں جس کی وجہ سے ساحل کی طرح سمندر بھی رونق و کشش سے محروم اپنے نام کی عکاسی کرتا ہے۔ ٹیکسی ڈرائیور سے ہم نے انتظار کرنے کا کہا تھا اس لئے جلد ہی واپسی کی راہ لی۔

پیٹرا عمان سے جنوب کی سمت میں دو سو تیس کلو میٹر کے فاصلے پر ہے اور ہمیں کوسٹر کے ذریعے وہاں پہنچنے میں ساڑھے تین گھنٹے سے کچھ زیادہ وقت لگا۔ ایک ویران سی جگہ پر ہم گاڑی سے اترے۔ ہمارے میزبان نے بتایا کہ گاڑی اس سے آگے نہیں جا سکتی اس لئے یہیں پارک رہے گی۔ آگے پیدل جا سکتے ہیں یا اگر آپ چاہیں تو اونٹ کی سواری کا انتظام کیا جا سکتا ہے۔ ہم نے پیدل چلنے کو ترجیح دی۔ جیسے ہی سڑک سے کچھ دور ہوئے تو خود کو ایک صحرائی راستے پر پایا۔ جلد ہی منظر میں پہاڑوں کی شکل میں ایک اضافی خوبصورتی پیدا ہو گئی اور راستے میں ریت بھی کم ہوتی گئی۔

اب ہمارے دونوں اطراف میں پہاڑ تھے۔ ہم پہاڑوں کے درمیان ایک وادی میں داخل ہوئے یعنی ہم پیٹرا کی حدود میں پہنچ چکے تھے۔ پہاڑوں کے اندر سوراخ نظر آ رہے تھے جو در اصل پہاڑ کھود کر رہائش گاہیں بنائی گئی تھیں۔ ہزاروں سال پہلے یہ آباد گھر تھے جو اب کھنڈرات کی شکل میں نظر آ رہے تھے۔ وادی شروع میں بہت کھلی تھی مگر جیسے ہم چلتے گئے یہ ایک پر پیچ راستہ اختیار کرتے ہوئے کہیں کھلی اور کہیں تنگ ہوتی گئی۔ بعض مقامات پر تو چھوٹی سی گلی جیسی شکل اختیار کر جاتی۔

اور اطراف میں اونچے پہاڑ چھت کی طرح محسوس ہونے لگتے۔ پوری وادی میں پہاڑوں کے اندر بنے ہوئے گھر ہزاروں کی تعداد میں تھے۔ وہ لوگ اس ہنر میں ایسے ماہر تھے کہ نہ صرف پہاڑ کے اندر گھر کھدے ہوئے تھے بلکہ گھر کے باہر آرائش کے لئے خوبصورت نقش و نگار بھی کرید کر بنائے گئے تھے۔ یہاں ایک شہر آباد تھا اور یہاں کی سب سے مشہور جگہ الخزانہ کہلاتی ہے جس کے باہر اونچے ستون اور زینت و آرائش کے لئے نقش و نگار کنندہ ہیں۔

اس کے اندر جا کر دیکھا تو ایک کمرے کے علاوہ کچھ اور نہیں تھا۔ اس عجیب و غریب شہر کے کھنڈرات دیکھ کر عقل دھنگ رہ جاتی ہے کہ کس طرح ان لوگوں نے پہاڑ تراش کر ایک شہر بسا لیا جیسے کہ موم کا پہاڑ ہو۔ یہاں آب رسانی کا بھی ایک نظام بنایا گیا تھا جس میں پانی کا ذخیرہ کرنے اور شہر میں پہنچانے کے لئے چینل بنائے گئے تھے۔ اس کے علاوہ اجتماعات کے لئے ایک بہت بڑا تھیٹر بھی بنایا گیا تھا۔ اس شہر کا رقبہ دو سو ساٹھ مربع کلومیٹر پر محیط ہے۔

کہا جاتا ہے کہ پیٹرا چار صدی قبل مسیح میں آباد ہوا تھا۔ زمانہ بعد از مسیح کی ابتدائی صدیوں میں زلزلوں سے تباہ ہوا۔ اس کے بعد یہ مختلف سلطنتوں کے زیر تسلط رہا اور پھر بے آباد ہوا اور نظروں سے اوجھل رہا۔

قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ قوم ثمود نے پہاڑ کاٹ کر گھر بنائے تھے اور پھر ان کی نا فرمانی کے سبب ان پر عذاب نازل ہوا تھا۔ پیٹرا ہی قوم ثمود کی بستی ہے۔ انیسویں صدی کے اوائل میں پیٹرا کے آثار دریافت ہونا شروع ہوئے تھے اور تا حال صرف پندرہ فیصد کام مکمل ہو سکا ہے اور زیادہ تر کام آئندہ نسلیں کر پائیں گی۔ پیٹرا سے واپسی پر راستے میں رک کر ایک ہوٹل میں دوپہر کا کھانا کھایا اور مغرب کے قریب عمان پہنچ گئے۔

عمان کے قیام کی آخری شب ہمارے لئے الوداعی عشائیے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ کھانے کا انتظام ایک پہاڑی کی ڈھلوان پر واقع ایک ریستوران میں کیا گیا تھا۔ کھانے کی میزیں ڈھلوان پر چھوٹی چھوٹی ہموار جگہیں بنا کر رکھی گئی تھیں جہاں صرف دو یا چار لوگ بیٹھ سکتے تھے۔ اس طرح میزیں اونچی نیچی جگہوں پر پھیلی ہوئی تھیں جن کے درمیان پر پیچ راستوں کے ساتھ بنی ہوئی نالیوں میں بہتے پانی کی آواز بھلی لگتی تھی۔ جا بجا لگی مدھم روشنیوں نے رات کے اندھیرے کو پہاڑی کے اس حصے سے کچھ دور تک روک رکھا تھا۔ ہلکی موسیقی کی دھنیں اگر چہ سمجھ سے بالا تر تھیں مگر ماحول کو خوشگوار بنا رکھا تھا۔ یادگار عشائیہ عمان میں ہماری آخری مصروفیت تھی اگلی صبح ہماری واپسی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments