خیرپور میرس کے محرم


سندھ دھرتی ہمیشہ سے باہمی یگانگت کا بے مثال نمونہ رہی ہے۔ یہاں غیر مسلم، سنی، شیعہ آپس میں مل جل کر پیار محبت سے رہتے ہیں۔ یہاں دیو بندی، اہل حدیث اور دیگر فرقوں کو پنپنے کا موقع اس لیے بھی نہیں مل سکا کہ ان کے پاس مذہبی بنیادوں پر نفرتیں پالنے، تفتیش، تحقیق، کھوج اور کافر قرار دینے کے لیے دماغ اور معلومات نہیں۔ یہ اپنے دماغ کو اس حد تک وسیع کرنے اور اس قسم کی معلومات کے اضافے میں دلچسپی بھی نہیں رکھتے۔

خیر پور ریاست کے حکمرانوں کا تعلق اہل تشیع فرقے سے ہونے کی وجہ سے کئی نامور علما، ذاکرین و عزادار پاکستان اور ہندوستان کے شہروں سے سندھ اور خاص طور خیرپور میرس آ کر آباد ہوتے رہے اور تالپوروں نے بڑے اعزازت اور دولت سے نوازا۔ قزلباش خیرپور ریاست کے وزیراعظم تھے۔ پروفیسر کرار حسین جیسے جید انسان و عالم بھی خیرپور میرس میں رہے۔

اب کچھ عرصے سے بیرونی عناصر یہاں کی اکائی کو سبوتاژ کرنے کے لیے چھو ٹی چھوٹی سرگرمیاں کرتے رہتے ہیں لیکن سندھ باسیوں کی آپس میں محبت اور تمام مذاہب اور فرقوں کے احترام کے نظریات کو گزند نہیں پہنچا سکے۔

سندھ میں سازش کے تحت دو مرتبہ لسانی فسادات ہوئے۔ کتنے ہی اردو بولنے والے دیگر شہروں میں آباد ہوئے لیکن خیرپور کے بسنے والوں کو کسی ہراسانی کا سامنا کرنا نہیں پڑا۔

سندھ کا یہ چھوٹا سا شہر ہمارے ملک کے بڑے شہروں کے لیے بین المذاہب ہم آہنگی میں ایک مثال ہے۔ خیر پور میں سب سے بڑی اور تاریخی امام بار گاہ بڑا علم کے نام سے مشہور ہے۔ جو ہو بہو کربلا کے نقشے کے مطابق تعمیر کی گئی ہے۔ یہاں سارا سال لوگ زیارت کے لیے آتے ہیں لیکن ایام عزا میں عزاداری عروج پر ہوتی ہے۔

خیر پور کے سنی بھی آدھے شیعہ ہی ہوتے ہیں۔ نذر نیاز، ماتمی جلوس اور مجالس میں شرکت، سبیلوں کا اہتمام بڑھ چڑھ کر کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کی سبیل اور نیاز ان کے ایمان کو ذرا متاثر نہیں کرتی

شیعہ سنی کے علاوہ ایک بات جو بڑی حیران کن ہے وہ ہندؤوں کی محرم سے خاص عقیدت ہے۔ سنیوں کی طرح وہ بھی آٹھ، نو دس محرم کو مولا کی نیاز بانٹتے ہیں۔ یہاں کے رہنے والے سنی، سندھیوں کی اکثریت خود کو مولائی کہتی ہے۔ اکثر سندھیوں کے گھر علم لگا ہوا ہے۔ یہاں محبت، دوستی اور باہمی خلوص کے لیے کسی بھی مذہب سے لگاؤ اور جذباتی وابستگی ضروری نہیں۔ کسی کا ایمان نہیں جانچا جاتا۔

آس مرتبہ آٹھ محرم سے ہی اسکول کی چھٹیوں کی سن گن ہوئی تو ہم نے بھی خیرپور کے لیے رخت سفر باندھا۔ تیس سال بعد خیر پور میں ایام عزا نے محرم کے حوالے سے بہت سی یادوں کو تازہ کر دیا۔ نقوی صاحب اور ان کی بیگم تو نہ رہے لیکن ان کے گھر بزرگوں کی روایت اسی طرح زندہ ہے۔
آج بھی ان کے ہاں عزا خانہ پہلی محرم سے سجا دیا جاتا ہے۔

عشرہ مجالس ہوں، یا عزادار صاحب کے ہاں سالانہ مجلس سنی، شیعہ، سندھی مہاجر، پنجابی پٹھان شریک ہوتے ہیں۔ آٹھ محرم کی عزاداری جناب عباس سے موسوم کی جاتی ہے۔ اس دن کا جلوس، تعزیے اور علم عاشور کا منظر پیش کرتے ہیں۔ اس مرتبہ کسی ممکنہ خطرے کے پیش نظر سورج نکلنے سے پہلے ہی موبائل سروس معطل کر کے رات گئے بحال کی گئی۔

تقی صاحب اور ان کی بیگم بھی کب کے سدھار چکے۔ اب ان کے بیٹے بہوئیں پہلی محرم سے ہی عزا خانہ سجا دیتے ہیں۔ عام طور پر ہمارے گھر والے ان کے گھر مجلس میں نہیں جا پاتے۔ عذر دیا جاتا ہے کہ آپ کے گھر سے صاف آواز آنے کی وجہ سے گھر بیٹھے مجلس ہو جاتی ہے۔ کوئی تعرض کیے بنا ان کے ہاں سے روزانہ تبرک کے ساتھ کھانا بھی آ جاتا ہے۔

دیوان صاحب کے بچے گھر گھر جا کر چھولے، شربت بانٹتے ہیں۔ بھاٹیا صاحب جو بقرعید کو اپنے بچوں کو لے کر جیکب آباد چلے جاتے ہیں۔ محرم کے دس دن ان کے بوڑھے ماں باپ بھی جناب قاسم کی مہندی میں منت مانگنے جیکب آباد سے آ جاتے ہیں۔ یوں باہمی میل جول، ایک دوسرے کی رسوم کے احترام نے خیر پور میں مولا کا کرم، انسان دوستی میں سمیٹ رکھا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments