شہر لاہور، تیری بیٹیوں کی خیر!


حجاب ہو یا بے حجاب، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہاں تو قبروں سے جنازوں کو نکال کر ان کو بھی نہیں بخشا گیا۔ یہ وہ لاہور تو نہیں جہاں ہم پلے بڑھے لاہور کی خوبصورتی اس کے کلچر اور تہذیب کے چرچے تو عام ہوا کرتے تھے۔ ہم تہذیب اور تربیت کے اس نچلے درجے پر جا پہنچے ہیں جہاں انسانیت حیوانیت میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ لوگ کہتے ہیں ساٹھ اور ستر کی دہائی بہت تہذیب یافتہ تھی کیونکہ اس نسل کو پروان چڑھانے تہذیب سے رہنا سکھانے والے انگریز تھے۔ آج کی نسلوں کو انہوں نے پروان چڑھایا ہے جن کو ضیا کے مارشل لائی دور نے پروان چڑھایا تھا۔ بس یہی فرق ہے۔

لیکن اطمینان رکھیے کہ وزیراعظم صاحب نے اس واقعے کا نوٹس لے لیا ہے۔ اب جلد ہی وہ چار سو لوگ تلاش کیے جائیں گے ان میں سے دس بارہ واقعی دستیاب ہو جائیں گے پھر مقدمہ چلے گا گھر والے سیاسی پارٹیاں اثر و رسوخ والے بچانے آئیں گے دس بارہ میں سے چار پانچ مزید بری الذمہ قرار پائیں گے۔ باقی کے چار پانچ کو جرمانہ یا چند دن جیل ہو جائے گی۔ اب آپ اس انصاف کا موازنہ لڑکی پر بیتنے والی اس کیفیت سے کر لیں جس کو جشن آزادی کے لیے مینار پاکستان پر ویڈیو بنانے کے جرم چار سو لوگ ڈھائی گھنٹے تک نوچتے رہے ہوں۔ یہ چار سو نہیں، چار ہزار نہیں، چار کروڑ ہیں جو یہ چاہتے ہیں کہ لڑکیاں ٹک ٹاک یو ٹیوب سوشل میڈیا استعمال کرنا چھوڑ دیں کیونکہ یہ شریعت کے عین مخالف ہے اور جب ان سے یہ کہا جائے کہ افغانستان میں شریعت رائج ہو رہی ہے آپ کو مبارک ہو آپ کے پاس یہ چوائس ہے کہ وہاں جا کر اپنے شرعی بھائی طالبانوں کے ساتھ عین شرعی طریقے سے زندگی گزار سکیں تو یہ بدک جاتے ہیں اور ان میں سے کوئی ایک بھی شریعت کے لیے افغانستان جانے کو تیار نہیں ہوتا۔

باچا خان نے کہا تھا

اگر آپ کو یہ جاننے کی خواہش ہو کہ کوئی کلچر کتنا تہذیب یافتہ ہے تو آپ دیکھئے کہ وہاں کے لوگ اپنی خواتین کے ساتھ کیسے پیش آتے ہیں۔

ہم رنجیت سنگھ کا مجسمہ توڑ دینے پر تحریک لبیک کے کارکنوں پر ناراض ہوتے ہیں آپ شکر کریں کہ انھوں نے عائشہ اکرم کے ہاتھ پاؤں نہیں توڑ ڈالے اور وہ عزت نہ سہی، جان بچا کر گھر لوٹ آئی۔ اب سوشل میڈیا پر شریعت اور اسلام کے ٹھیکیدار یہ کہتے پائے جا رہے ہیں کہ غلطی ٹک ٹاکر کی ہے کہ وہ ویڈیوز بناتی ہی کیوں ہے اس کو ایسا کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ یعنی اس کو یہ راستہ چھوڑ کر دینی راستے کا انتخاب کرنا چاہیے تو جان لیجیے کہ اگر آپ کی وجہ سے کسی کو راستہ بدلنا پڑ جائے تو آپ میں اور گلی کے آوارہ کتوں میں کیا فرق رہ جائے گا؟ یا پھر دوسرا طریقہ یہ ہے کہ خواتین ہاتھوں میں پتھر لے کر گھر سے باہر نکلیں۔

کیا اس واقعے کے بعد بھی وزیراعظم صاحب کا یہی ماننا ہے کہ وہ پوری دنیا گھومے ہیں لیکن جتنی عزت عورت کو پاکستان میں دی جاتی ہے کہیں نہیں دی جاتی؟

جبکہ اب تو لوگ کہتے ہوئے نظر آرہے ہیں کہ اگر آپ پاکستانی ہیں اور آپ کی بیٹی نہیں ہے تو آپ بہت لکی ہیں۔

تو یہ ہے نیا پاکستان تبدیل شدہ پاکستان

میڈیا اور سوشل میڈیا اس دور اور آنے والے دور کے روزگار ہیں ان سے لوگ کماتے ہیں اور اپنے گھر کا خرچہ چلاتے ہیں۔ یہ پیشے ملک کی اکانومی کو مضبوط کرتے ہیں ان کی سمجھ بوجھ اور معاشرے میں قبولیت پیدا کرنا حکومت ریاست اور ،عاشرے کا کام ہے۔ لیکن موجودہ ریاستی اور حکومتی بیانیہ اس مملکت کو پتھر کے زمانے میں لے جانے پر تلا ہوا ہے۔ دیکھیے انجام کیا ہوتا ہے؟ منٹو نے کہا تھا

ہم عورت اسی کو سمجھتے ہیں جو ہمارے گھر کی ہو۔ باقی ہمارے لیے کوئی عورت نہیں ہوتی، گوشت کی دکان ہوتی ہے۔

عالیہ شاہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عالیہ شاہ

On Twitter Aliya Shah Can be Contacted at @AaliyaShah1

alia-shah has 45 posts and counting.See all posts by alia-shah

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments