کچھ قصے اپنی بے راہ روی کے


اس بات کو 20 یا 25 سال تو بیت گئے ہوں گے۔ ہم کراچی کے ایک معروف سندھی اخبار کے ادارتی صفحے کے انچارج تھے۔ رفقائے کار کے ساتھ اپنے کام میں مصروف تھے۔ ساتھ رکھے ٹیلیفون کی گھنٹی بجی اور ہم نے ریسیور اٹھا کر فون کرنے والے سے، جو کہ کوئی لڑکی معلوم ہوتی تھی، یہاں شک صنفی حوالے سے نہیں، عمر کے حوالے سے ہے، ان سے ہم نے گفتگو شروع کی۔ پوری بات یاد نہیں۔ لیکن ان کو کسی سلسلے میں کوئی معلومات درکار تھی جو ہم فراہم نہ کرسکے۔ اب ہم اخلاقا ان کے سلسلہ منقطع کرنے کے منتظر تھے کہ وہ گویا ہوئیں، ”کیا میں کبھی کبھی آپ سے بات کر لیا کروں؟“

”کیوں؟“ ہم کچھ حیران اور کچھ مشتعل سے ہو گئے۔ ”کیوں کریں گی آپ ہم سے بات؟“ ہم نے دھیمی آواز لیکن انتہائی سخت لہجے میں ان سے پوچھا، حالانکہ عمر کے جس دور میں ہم تھے کسی لڑکی کی طرف سے اس قسم کی درخواست پر پگھل جانا یا پاگل ہوجانا چاہیے تھا۔ لیکن نہ جانے کیوں ہمیں ان کی بات سن کر کسی رومانی خیال آنے کے بجائے کم مائگی کا سا احساس ہوا، گویا وہ ہمیں بہلاوے کی چیز سمجھ بیٹھی ہوں۔

انہوں نے گھبرا کر سلسلہ منقطع کر دیا۔ ساتھی کارکن اپنے اپنے حصے کی خبریں بنانے سنوارنے میں اس قدر مستغرق تھے کہ، ان کو اپنی ہی خبر نہ رہی تھی سو ہماری بھی نہ ہوئی۔ ان کو پتہ بھی نہ چلا کہ ہم نے کس سے کیا بات کی، ورنہ ان کے لیے تو یہ کال بھی کالم سوا سے کم کی خبر تھی، ہم نے ریسیور رکھ دیا اور اپنے کام میں مصروف ہو گئے۔

اس وقت ہماری شادی کو تین چار برس کا عرصہ بیت چکا تھا۔ شادی کے صرف چند ماہ بعد ہماری بہتر نصف ایک سرطانی جراحی کے بعد ماں بننے کی صلاحیت سے محروم ہو چکی تھیں۔ جس کے بعد ہماری ہر طرح کی یقین دہانیوں کے باوجود ان کا ہمارے پیار پر ایقان متزلزل رہتا تھا۔ جب کہ ہم نے یا ہمارے اہل خانہ اور خاندان بھر میں سے کسی نے بھی کبھی ان کی (اور ہماری بھی) اس محرومی کو ان کا نقص نہیں گردانا تھا۔ البتہ جن کو ان کی سرطانی جراحی کے بارے میں علم نہ ہوتا تھا ان کی طرف سے بے اولادی کے بارے استفسار پر وہ افسردہ ہو جاتی تھیں۔

شادی کے پانچویں سال جب ہم نے خدا کو خوش کرنے کے خیال سے داڑھی رکھ لی تو ہمیں یقین ہے کہ خدا ضرور خوش ہوا ہوگا، کیوں کہ ہماری نصف بہتر بھی مطمئن ہو گئیں تھیں کہ ہمارے سر کے بال تو سفید تھے ہی اور اتفاق دیکھیے کہ داڑھی بھی سفید نکل آئی۔

اور اب ”رہا کھٹکا نہ“ چھوری ”کا، دعا دیتی ہوں“ راہ۔ زن کو! ”
وہ کبھی کبھی ہم سے یہ اصرار بھی کرتیں کہ، ”آپ ڈاکٹر اسرار احمد کی سی داڑھی کیوں نہیں رکھ لیتے۔“

ان کے شناختی کارڈ کے مطابق وہ ہم نو دس سال چھوٹی تھیں، لیکن ہمارے خیال میں حقیقتاً ہمارے درمیان میں کم ازکم پندرہ برس کا فاصلہ تھا۔ داڑھی رکھنے سے پہلے ہم کہیں پیدل آتے جاتے تھے تو میاں بیوی ہوتے ہوئے بھی کبھی کبھار سڑک عبور کرتے یا اسی قسم کے کسی موقعے پر ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑتے تھے لیکن داڑھی رکھنے کے بعد وہ خود ہی اکثر بے تکلف ہمارا ہاتھ تھام لیا کرتی تھیں۔

پہلے تو ہم نے ان کے اس عمل کو ان کا لاشعوری عدم اعتماد سمجھا لیکن جلد ہی سمجھ گئے کہ یہ ان کا شعور محبت ہے۔

ہم نے شادی کہ پہلے یا دوسرے دن ہی ان کو بتا دیا تھا کہ ہم آپ سے شادی سے پہلے کسی کو ”پروپوز“ کرنے کا جرم کر چکے ہیں، اور اس ناکامی کے بعد آپ کے پلے باندھے گئے ہیں۔ انہوں نے یہ بات مسکرا کر سنی اور بھلا دی۔ ہمیں یاد نہیں رفاقت کے سولہ برسوں میں انہوں مذاقاً بھی کبھی ہمیں اس اعتراف کی یاد دلائی یا اس حوالے سے کبھی کوئی طعنہ دیا یا طنز کیا۔

منگنی کے بعد کا، فون سے ہی متعلق ایک دلچسپ واقعہ یاد آ رہا ہے، ایک بار وہ فون پر ہماری بہنوں سے بات کر رہی تھیں، کہ ہم بھی آن پہنچے۔ ہم سے کہا گیا، ”آپ کی منگیتر کی سہیلی آپ سے بات کرنا چاہ رہی ہیں۔“

اگرچہ اس وقت بھی یہ خیال دامن گیر ہوا تھا کہ منگیتر کے بجائے ان کی سہیلی سے بات کی کیا تک؟ شاید ابھی تک ”انکوائریاں“ چل رہی ہیں! لیکن انکار کی مجال کہاں؟ سو ان کی سہیلی سے ”ادی ادی!“ (بہن/باجی) کر کے موصوفہ ہی کے بارے میں ہی بات کرتے رہے اور جب بات ختم کر کے ریسیور بہنوں کے حوالے کیا تو، انہوں نے ہنس کر انکشاف کیا، ”آپ جنہیں، منگیتر کی سہیلی سمجھ کر“ ادی، ادی ”کہہ کر مخاطب تھے، وہ آپ کی منگیتر ہی تو تھیں!“

اس ستم ظریفی پر کیا کہتے؟ کبھی کبھی بیوقوف بننے میں بھی مزہ ہے۔

دفتر اور دکان سے رات کو واپسی پر وہ ہم سے اپنی دن بھر کی مصروفیات کا بیان کرتی اور ہم سے ہماری کارکردگی کا پوچھتی۔ اور یہ بات کہ سالن کیسا تھا؟ کھانا پسند آیا وغیرہ۔ اس قسم کی معلومات کا تبادلہ تقریباً روزانہ ہی ہوتا تھا لیکن اس دن ہم نے ان کو اس لڑکی کی فون والی بات نہیں بتائی۔ کبھی نہیں۔ شاید اس خوف سے کہ ان کا عدم اطمینان پھر نہ عود کر آئے۔

اس سلسلے میں اہم بات یہ بھی ہے کہ بعد میں ہمیں اس بات پر کچھ افسوس بھی ہوا کہ ہم نے اس لڑکی کو اس قدر درشت انداز میں کیوں ڈانٹ دیا۔ ہمیں چاہیے تھا کہ ہم اسے درست انداز میں سمجھاتے کہ بی بی اس قسم کے ٹیلیفونک رابطے کسی کے لیے مناسب نہیں ہوتے۔ وبال جان تک بن جاتے ہیں۔ لیکن پھر خود کی ہی ڈانٹ دیا کہ اب ہم بہک رہے ہیں اور ایک انجانی لڑکی سے ربط قائم نہ کرنے پر پچھتا رہے ہیں؟

اور آج ہم سوچتے ہیں کہ ہم اس دن جس قسم کے احساس سے دو چار ہوئے اور بہت سے لوگ اس قسم کے حالات کے شکار ہوتے ہوں گے اور خاص طور پر وہ لڑکیاں جن کو جانے انجانے نمبروں سے خاص طور پریشان کیا جاتا ہے، ان کا حال کیا ہوتا ہوگا۔ ہم ایک مرد ہو کر بہلاوے کی چیز سمجھے جانے پر مشتعل ہو گئے تو لڑکیوں پر کیا گزرتی ہوگی؟

اور اب تو حد ہو گئی ہے، کہ فون کال یا زبانی چھیڑ خانی سے بات اس قدر آگے بڑھ گئی ہے کہ کوئی چھیڑ خان ایک لڑکی کی گردن ریت دیتا ہے تو کہیں سینکڑوں چھیڑ خان مینار پاکستان پر ایک لڑکی پر کتوں کی طرح پل پڑتے ہیں۔

حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ کسی غیرمعروف علاقے کی ایک چھوٹی سی گلی میں نالی کھودنے پر تو قانون فوراً حرکت میں آ جاتا ہے اور موبائلیں فوراً موقع واردات پر پہنچ جاتی ہیں اور قانونی کارروائی شروع ہوجاتی ہے لیکن ایک اہم تفریح گاہ پر اتنا کچھ ہو جاتا ہے لیکن قانون بے خبر اور بے حس و حرکت رہتا ہے؟

اس صورتحال پر مغربی تہذیب کو تو شاید بغلیں بجانی چاہئیں، اور مشرقی تہذیب اور اخلاق کو مینار پاکستان ہی سے چھلانگ لگا کر خودکشی کر لینی چاہیے یا ایک لاچار لڑکی کو پانی پلانے کی کوشش کرتے ایک بچے کو دیکھ کر وہ امید رکھنی چاہیے جو کہ ٹیگور نے کہا ہے کہ:

”ڈوبتے ہوئے سورج نے پوچھا،
کوئی ہے جو میری جگہ لے۔
ٹمٹماتے ہوئے دیے نے کہا:
ہاں میں کوشش کروں گا۔ ”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments