آزادی کا دن ہے۔۔۔۔ ماں چھپا دو مجھے۔۔۔۔۔
آزادی کا دن ہے۔
ماں چھپا دو مجھے!
بہت عرصہ پہلے کہیں پڑھا تھا جو آج دیکھ بھی لیا (انسان جنون میں سب سے پہلے انسانیت کھوتا ہے، یہ بھول جاتا ہے میں انسان ہوں اور میرے سامنے موجود لوگ بھی انسان ہیں ) ۔
شیر کو شیر نہیں کھاتا، کتے پر کتے کا گوشت حرام ہوتا ہے۔ چیلیں چیلوں پر حملہ نہیں کرتیں اور حتی کہ سور بھی سور کو نقصان نہیں پہنچاتا۔ مگر انسان دوسرے انسان کو کھا جاتا ہے یہ دوسرے انسان کو چیر پھاڑ دیتا ہے۔ اور عورت کو تو قبر میں بھی نہیں چھوڑتا۔
آزادی کے تہتر برس بعد وہ اقبال پارک جہاں آزادی کی قرار داد پیش ہوئی تھی، وہاں ہمارے ملک کے نوجوانوں نے قائد کے فرمان کی نفی کرتے ہوئے ایسی مثال پیش کی جس کی اعلیٰ مثال رہتی دنیا تک قائم رہے گی اور ہر ماں بہن بیٹی کی روح کانپتی رہے گی۔ جب بھی کوئی بیٹی بہن ماں مینار پاکستان دیکھنے کی خواہش ظاہر کرے گی تو لے جانے کا سوچتے ہی ہر باپ بھائی بیٹے کی بھی روح کانپ اٹھے گی۔
جس نظریے کی یاد میں مینار پاکستان بنایا گیا تھا، وہ نظریہ شاید آج کے دور میں اہمیت نہیں رکھتا اور ہمیں اس کی پرواہ بھی نہیں، تبھی تو اتنی بے دردی، درندگی اور بر بریت سے اسے دفنایا گیا اور اس جگہ کو ایک نئی الگ پہچان دی گئی اور اس نئی پہچان کا سہرا اس نسل کو جاتا ہے جسے ہم اپنے ملک کا نیا چہرہ اور فیوچر کہتے نہیں تھکتے۔ وہ نئی نسل تو بھوکے بھیڑیے ثابت ہوئی۔ یہ ہمارے معاشرے کی تربیت پہ طمانچہ ہے اور اس کا احتساب 22 کروڑ عوام کو کرنا چاہیے کہ آیا ہم انسان بھی ہیں، مسلمان تو دور کی بات۔
کیا منہ دکھائیں گے دنیا کو؟
کیا بتائیں گے اپنے بارے میں؟
یہ ہمارا تعارف ہے؟
یہ ہماری آنے والی نسل ہے؟
جو ایک لڑکی کو دیکھ کر حیوان بن جاتی ہے۔
ہم کبھی مزار قائد کو اپنی ہوس نکالنے کے لئے استعمال کرتے ہیں تو کبھی مینار پاکستان کو۔
کتابوں میں شاید قرارداد پاکستان کے وہی مقاصد رہیں لیکن ذہنوں میں وہ مناظر دیکھ کر جو اس کا سکیچ بنا ہے، قرار داد پاکستان کے مقاصد یاد بھی نہ رہیں گے۔ کیونکہ آزادی کے روز محرم کے حرمت والے اور غم سوز مہینے میں جہاں ان پاک عورتوں کے لئے آنسو بہانے تھے، ماتم کرنے تھے۔ وہاں اس ماہ محرم میں ہماری نوجوان نسل کا اتنا غلیظ چہرہ سامنے آیا کہ جنسی آزاد قومیں بھی خون کے آنسو رو دیں۔
وہ لوگ جو صرف لڑکی کو قصور وار قرار دے رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ مرد کے نفس پہ عورت کے کپڑوں سے فرق پڑتا ہے وہ معصوم بچیوں کی عصمت دری پہ کیا کہیں گے کہ وہ بھی مرد کو ورغلاتی ہیں؟
ان کی ایسی گھٹیا سوچ کے کیا کہنے کیا کہ ایک طرف تو ہم ٹورزم کو فروغ دینا چاہتے ہیں اور دوسری طرف پوری دنیا کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ یہاں تو آنا بھی مت ہم نوچ ڈالیں گے، ہم نے یہاں انسان نہیں حیوان پیدا کیے ہیں جو ذرا سے چست کپڑوں میں لڑکی کو دیکھ کر ابل پڑتے ہیں، ساری دنیا کی عورتیں وہ لباس تو نہیں پہنتی جس کو ہم نے شرافت کا ٹیگ دیا ہے تو کیا ساری دنیا کی عورتوں بری ہیں یا مرد بے حس ہیں جن کو عورت کے کپڑوں سے فرق ہی نہیں پڑتا تو اس معاشرے کی مردانگی پہ لعنت ہی دی جا سکتی ہے۔ یہ کوئی دیہات تو تھا نہیں ہمارے ملک کا ایک اہم شہر تھا ایک اہم مقام تھا، جس کی ایک پہچان تھی، نام تھا، ایک عقیدت تھی، حب الوطنی تھی اس جگہ سے لوگوں کو جو اس واقعہ کو روکا ہی نہیں جا سکا؟
کیا امیج گیا دنیا میں ہمارا؟
بلکہ کیا امیج بچا ہمارا کہ ہمارے ادارے اتنے اہم مقام پہ تحفظ نہیں فراہم کر سکتے۔
یا کتنے کمزور کردار کے مالک ہیں ہم؟ جو گدھ سے بھی بری خصلتیں رکھتے ہیں اور کہتے خود کو زندہ قوم ہیں۔
اور جو لوگ کہہ رہے ہیں کہ وہ ایسی ویڈیوز بناتی کیوں تھی، وہ سٹیٹس لگا کر گئی ہی کیوں؟
اگر وہ بری عورت تھی تو وہ چار سو کسی اچھے گھر کی پیداوار ثابت ہوئے؟
چلیں مان لیا وہ بری عورت تھی اور وہ اچھے گھروں کے تو کیا ان کی اپنی مائیں بہنیں جانتی نہیں ہوں گی وہ لوگ اس دن کیا کر رہے تھے وہ تو اپنی چار دیواری میں محفوظ نہیں محسوس کریں گی کہ کیا سانپ پیدا کیے ہیں جو عورت کی ذرا سی غلطی پہ نوچ ڈالتے ہیں، ان کی آئیڈیل نہیں تھے آپ؟ ان کا بھی ذرا خیال نہ آیا؟
تو بھائی عورت ہی پاگل ہے اس کا اس معاشرے میں تمہارے بستر گرم کرنا اور تمہارے بچوں کو سنبھالنا ہی کام ہے اس کا دل ہی نہیں ہے اس کے جذبات ہی نہیں ہیں اور اس کا تو حق بھی نہیں ہے آزادی کی خوشی پہ، آزاد تو درندے ہیں عورت تو آزاد ہی نہیں ہوئی تھی 1947 میں وہ غیروں سے لٹی تھی اور تب سے اپنے اسے نوچ رہے ہیں۔
سمجھ نہیں آ رہا کس منہ سے خود کو پاکستانی کہیں، سوچ کر ہی شرم آ رہی ہے، نہ سمجھ آ رہی پھوٹ پھوٹ کر روئیں، گڑگڑائیں اور کس چیز کا ماتم کریں؟
انسان کا اشرف المخلوقات ہونے پہ، مسلمان ہونے پہ، اپنے عورت ہونے پہ یا اس ملک کے باشندے، جہاں عورت نوچنا جائز ہے۔ نہ جانے کتنے ہی لوگ ہوں گے جو زندگی میں پہلی دفعہ پاکستانی ہونے پہ شرمندگی محسوس کر رہے ہوں گے۔ اور ایک دوسرے سے منہ چھپا رہے ہوں گے۔
اگلے سال جب آزادی کا دن آئے گا تو بیٹیاں اپنے باپ سے فرمائش کرسکیں گی مینار پاکستان دیکھنے کی؟
حتٰی کہ بچیوں کو کوئی بتائے گا مینار پاکستان کے بارے میں؟
ہم اس شرمندگی سے بچ بھی سکتے ہیں ہم اپنی بچیوں کو محفوظ معاشرہ بھی دے سکتے ہیں۔ جہاں نور مقدم کا ریپ کے بعد سر تن سے جدا کر دینے والے کے خلاف ثبوت ہونے کے باوجود اس کیس کو اتنا لٹکایا جاتا کے لوگ اس کو بھول جائیں اور کوئی نیا واقعہ رو نما ہو جاتا۔
آخر کیوں ایسے درندوں کو فوری نشان عبرت نہیں بنایا جاتا؟
کیوں ہمارے ذہنوں کو سکون نہیں دیا جاتا کہ ایک واقعہ پہ صبر آنے لگتا تو اس سے بھی گرا ہوا واقعہ پیش آ جاتا۔
کیوں ایوان میں بیٹھے لوگ ایسا قانون نہیں بناتے کہ عورت ان درندوں سے بچ سکے۔
آخر کیوں اس عورت کو وہ عزت و احترام اور رتبہ نہیں دیا جاتا جس کی وہ حق دار ہے۔
وہ عورت جو تم سے تعداد میں بھی زیادہ ہے اور عزم میں بھی، جس نے تمہارے شانہ بشانہ ستاروں پہ کمند ڈالی اور سمندروں کو تسخیر کیا، کیا وہ مینار پاکستان میں نہیں جا سکتی؟
اب تو یہ کہنا بھی بجا نہیں کہ اس واقعہ کا سہرا ان قانون کے رکھوالوں اور قاضیوں کو جاتا جو اپنی ہی بہن بیٹی کو تخفظ فراہم نہیں کر پا رہے اور پوری قوم کو ریمانڈ جیسا لولی پاپ تھمائی رکھتے ہیں۔ یا ان ماؤں کو جو اپنے بچوں کو اپنی جگہ اپنی اہمیت نہیں بتا سکی یا ان استادوں کو جو تعلیم اور تربیت دونوں دینے سے رہ گئے یا ہمارے ملا حضرات جو حوروں کے خواب دکھاتے ہیں اور عورت کو تفریح کا سامان پیش کرتے ہیں۔ لیکن یہ نہیں بتاتے کے عورت کا صرف وہ روپ نہیں بلکہ عورت وہ بھی جس کی کوکھ سے تم پیدا ہوئے۔ یا ہمارے وزیراعظم کو جو انٹرنیشنل میڈیا پہ ایسے بیان دیتے ہیں۔
نبی ﷺ کے امتی ہونے کا کچھ بھی حق نہیں ادا کر سکی یہ قوم۔
افسوس کے ماں تربیت میں خود ہار گئی اپنی آنے والی نسل اور اپنی قوم کی بیٹی کی عزت نہ بچا سکی۔ افسوس کہ مسلمان کا ہی نفس عورت کہ معاملے میں اتنا گرا ہوا پایا گیا۔ افسوس کہ نام کے مسلمان کو یہ تو یاد رہا کے عورتوں کو اوڑھنیاں لینی چاہیے لیکن یہ نہ یاد رہا کے مجھے بھی نگاہ نیچی رکھنے کا حکم ہے۔ بلکہ آپے سے باہر ہو گیا۔ صد افسوس کہ ہم اپنی ہی بہن بیٹی کے سامنے ننگے ہو گے۔ افسوس کہ ہمارے اداروں سے آج کی عورت کا اعتبار اٹھ گیا۔ افسوس کہ 2021 میں ایک نیا پاکستان بن گیا۔
افسوس کہ ریاست مدینہ دوبارہ نہ بن سکی۔
آزادی کا دن ہے
ماں چھپا دو نہ مجھے!
- آزادی کا دن ہے۔۔۔۔ ماں چھپا دو مجھے۔۔۔۔۔ - 20/08/2021
- محفوظ اور پر امن معاشرہ کا فروغ - 27/12/2020
- حقیقت عشق - 11/10/2020
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).