امریکہ میں پبلک ٹرانسپورٹ کے خلاف جنگ


امریکہ سرمایہ دارانہ نظام کا پاسبان ہے۔ اس نظام کے تحت عوام کو مراعات فراہم کرنا انتظامیہ کی ذمہ داریوں میں شامل نہیں بلکہ اس کی ذمے داری ان مراعات کو حاصل کرنے کے لئے مواقع فراہم کرنا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں معیار زندگی کو پیسوں اور اشیا کی مقدار سے ناپا جاتا ہے اور زندگی کی کوالٹی کے متعلق ضروریات مثلاً پبلک ٹرانسپورٹ، علاج معالجہ کی سروس، امن و امان، غربت کے خاتمے کی ترجیحات کم ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ چند دہائیوں سے بین الاقوامی کارپوریشن اپنی لابیوں کے ذریعے سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کے فیصلوں پہ اثر انداز ہو رہی ہیں۔

اس طرح سیاستدانوں اور بیوروکریٹس اکثر عوام کے مفاد کے بجائے کارپوریشن کے حق میں فیصلے کرتے ہیں۔ امریکہ میں کاروں اور پٹرول کی کمپنیوں نے اپنی اپنی لابی بنائی ہوئی ہے اور وہ پیسے اور اثر و رسوخ کے استعمال سے پبلک ٹرانسپورٹ کا خلاف جنگ جیت رہے ہیں۔ اسی لئے امریکہ میں نیویارک شہر کے علاوہ بقیہ تمام بڑے شہروں میں پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام ناقص ہے۔ جب بھی کسی ادارے یا مقامی انتظامیہ نے پبلک ٹرانسپورٹ کے نظام میں توسیع یا ایک نیا نظام لانے کی کوشش کی تو سرمایہ داروں کی لابیاں فعال ہو جاتی ہیں اور اپنے اثر و رسوخ سے ایسے منصوبوں کو پیدائش سے قبل ہی دفن کر دیتی ہیں۔ عوام کو اشتہارات اور اجتماعات کے ذریعے ڈرایا جاتا ہے کہ اس پہ عمل کرنے سے ٹیکس میں اضافہ ہو جائے گا، یا ماحولیات کو نقصان پہنچے گا یا یہ نظام سفید ہاتھی کی طرح سرکار کے لئے نقصان کا باعث بن جائے گا یا یہ کہ اس نئی سروس کو بہت کم لوگ استعمال کریں گے۔

چند سال قبل امریکہ کے شہر نیشول نے جب شہر کے بڑھتے ہوئے ٹریفک پہ قابو پانے کے لئے اور شہریوں کو سہولت دینے کے لئے ریل اور بس کے نیٹ ورک کی تعمیر کا منصوبہ بنایا تو اسے ریفرنڈم کے لئے لیے پیش کیا گیا۔ اس ریفرنڈم میں ریل نظام کے خلاف ووٹ ڈلوانے کے لیے ارب پتی ڈیوڈ کوک نے ایک زبردست مہم شروع کر دی۔ اس مہم کے حامی لوگوں نے گھر گھر جاکر کر شہریوں کو ڈرایا کہ یہ ریل نظام بنانے سے ان پر بھاری ٹیکس عائد کیے جائیں گے۔ مزید براں اس نیٹ ورک کی تعمیر سے نقصانات زیادہ اور فوائد کم ہوں گے۔ نتیجتاً ریفرنڈم میں شہریوں کی بھاری اکثریت نے اس نظام کی مخالفت میں ووٹ ڈالا اور اس طرح اس منصوبے کو شروع کرنے سے پہلے ہی ہیں ختم کر دیا گیا۔

امریکی ریاست کیلیفورنیا کے دو بڑے شہروں سان فرانسسکو اور لاس اینجلس کے درمیان تقریباً چھو سو کلو میٹر کا فاصلہ ہے اور دونوں شہروں کے درمیان خاطر خواہ ٹریفک ہے لیکن ریل کی کوئی براہ راست سروس نہیں ہے۔ کیلیفورنیا کے سابق گورنر جیری براؤن نے چین سے ان دو شہروں کے درمیان بلٹ ٹرین کے منصوبے کی بات کی تھی لیکن یہ کاوش بات چیت سے آگے نہیں بڑھ پائی۔ دس سال کی محنت کے بعد بھی اس ریل لائن پہ ابتدائی کام تک مکمل نہیں ہو سکا ہے۔

اس کے برعکس یورپ اور مشرقی ایشیائی ممالک میں بہت فعال اور قابل اعتماد بسوں اور ریل گاڑیوں کے نیٹ ورک ہیں جن کی وجہ سے عام لوگوں کو کاریں یا موٹرسائیکل خریدنے کی ضرورت نہیں ہوتی، لوگ گھنٹوں ٹریفک میں نہیں پھنستے اور اس کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی آلودگی نہیں بڑھتی۔ چین پورے ملک میں تیز رفتار ریل کا جال بچھا رہا ہے جس سے شہریوں کو عام آمدورفت میں خاطر خواہ سہولت ملی ہے اور اس طرح ماحول کو مزید آلودہ کرنے سے بچا لیا گیا ہے۔

امریکہ میں پبلک ٹرانسپورٹ کے نفاذ میں ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ وفاق اور صوبائی حکومتیں پبلک ٹرانسپورٹ کی مد میں شہروں کو کوئی فنڈ نہیں دیتیں لیکن سڑکوں کے نظام کی مرمت اور توسیع کے لئے بجٹ میں سے رقم فراہم کی جاتی ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کے نفاذ کے لئے شروع میں بہت خطیر رقم درکار ہوتی ہے اس لئے شہر اس طرف طرف توجہ نہیں کر پاتے۔ کئی شہروں کے مئیر نظریاتی طور پر پبلک ٹرانسپورٹ کے خلاف ہونے کی وجہ سے ایسے نظام کی تجدید اور توسیع کے راستے میں خود ہی رکاوٹ بن جاتے ہیں۔

پچھلی صدیوں میں امریکہ کے مشرقی شہروں میں اور شکاگو میں اور ریل کے نظام بچھائے گئے تھے لیکن آہستہ آہستہ کار کمپنیوں کی لابی نے مغربی امریکہ کے شہروں میں اس قسم کے نفاذ کے قیام کو ناکام بنا دیا۔ حتیٰ کہ بعض جگہ بچھی ہوئی پٹڑیوں کو اکھاڑ دیا گیا، پورے امریکہ میں سڑکوں کا جال بچھا دیا گیا اور اس طرح امریکی عوام کو پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت مہیا کرنے کے بجائے کاروں کا محتاج بنا دیا گیا۔

امریکی انتظامیہ کی موجودہ صورت حال افسوس ناک ہے اور دونوں بڑی پارٹیاں لابیوں کے دباؤ یا لالچ کے تحت فیصلے کرتی ہیں۔ جمہوریت ووٹ ڈالنے تک محدود ہوتی جا رہی ہے۔ ایسے حالات میں امریکہ میں جدید پبلک ٹرانسپورٹ کے نظام کی امید کیا کرنا، بچے کھچے ماضی کے نظام بھی جلادوں کی مار کی زد میں ہیں۔

کووڈ انیس کی وجہ سے جب لوگوں کی نقل و حرکت پہ پابندیاں لگائیں گئیں تو بسوں اور ریلوں میں سفر کرنے والوں کی تعداد بہت کم رہ گئی جس کی وجہ سے پبلک ٹرانسپورٹ کے نظام گہرے خسارے میں چلے گئے۔ ان کو بچانے کے لئے وفاقی امریکی انتظامیہ نے اربوں ڈالر مختص کیے ہیں لیکن یہ رقم ضرورت کے لحاظ سے کافی کم ہے اور تمام شہر اخراجات کم کرنے کے لئے کئی روٹ بند اور کئی روٹ پہ سروس میں کمی کرنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ ان خدمات میں کمی صرف ایک شروعات ہے۔

نقل و حمل کے کارکنوں کو خدشہ ہے کہ بڑے پیمانے پر آمدورفت میں کمی پبلک ٹرانسپورٹ کو موت کی طرف لے جائے گی۔ ایسی صورت حال میں اور کم رہائشی ٹرینوں اور بسوں پر سوار ہونے کا انتخاب کرتے ہیں، جس سے کرائے کی آمدنی میں مزید کمی واقع ہوتی ہے اور سیاسی حمایت میں کمی واقع ہوتی ہے۔ اس طرح امریکہ کے کئی شہروں میں پبلک ٹرانسپورٹ کے نظام کے خاتمے کے امکانات مزید بڑھ گئے ہیں۔

حبیب شیخ
Latest posts by حبیب شیخ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments