طالبان کی فتح: اب آگے کیا ہو گا؟


افغانستان ایک مرتبہ پھر کابل طالبان کے کنٹرول میں آ گیا ہے۔ بیس برس کے بعد طالبان کابل میں داخل ہوئے ہیں اور اس وقت تقریباً پورے ملک پر طالبان کی عملداری قائم ہو چکی ہے۔ صاف نظر آ رہا تھا کہ امریکی انخلا کے بعد طالبان پھر سے اقتدار قائم کر لیں گے مگر یہ اندازہ کسی کو بھی نہیں تھا کہ افغان فوج چند دن بھی مزاحمت نہیں کر پائے گی۔ اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری اور برسوں کی امریکی تربیت کے بعد کھڑی ہونے والی فوج کے تنکوں کی مانند بکھر جانی کی ایک سے زائد وجوہات ہو سکتی ہیں۔

ایک وجہ شاید یہ ہے کہ اس بار طالبان نے اپنی پیشقدمی کا آغاز شمالی افغانستان سے کیا جہاں ماضی میں طالبان کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ یہ علاقے احمد شاہ مسعود اور رشید دوستم جیسے طالبان مخالف وار لارڈز کا گڑھ ہیں۔ یہاں ازبک اور تاجک برداری سے تعلق رکھنے والوں کی اکثریت ہے اور یہ لوگ فارسی یا دری بولتے ہیں جبکہ طالبان کی اکثریت پشتون ہے اور یہ پشتو بولنے والے ہیں۔ ان کے درمیان چپقلش پرانی ہے اور ماضی میں جب طالبان کی پچانوے فیصد افغانستان پر حکومت تھی تو شمالی افغانستان میں انہیں سخت مزاحمت کا سامنا رہتا تھا۔ لہذا جب افغانستان کے شمالی علاقے بغیر کسی مزاحمت کے طالبان کے پاس چلے گئے تو افغان فوج جس کی اکثریت ازبک اور تاجک برداری کے لوگوں پر مشتمل ہے اس کا مورال گر گیا اور اس نے بغیر لڑے ہی ہتھیار ڈال دیے۔

افغان فوج کی اس قدر بری شکست کی ایک اور وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ جب دوحہ میں مذاکرات شروع ہوئے تو طالبان نے امریکی کٹھ پتلی قرار دے کر افغان حکومت کی ان مذاکرات میں شمولیت پر اعتراض کیا تھا۔ کئی بار اس وجہ سے مذاکرات تعطل کا شکار ہوئے اور بالآخر امریکا کو طالبان کا یہ مطالبہ ماننا پڑا۔ افغان حکومت اور فوج ویسے ہی امریکی بیساکھیوں پر کھڑی تھی یہاں سے پھر افغان حکومت کی کمزوری اور طالبان کی برتری کا آغاز ہو گیا۔

دوحہ مذاکرات کے بعد بھی امریکا نے بین الافغان مذاکرات کرانے اور کوئی سیاسی بندوبست یقینی بنانے کی کوئی کوشش نہیں کی اور کسی انتظام و انصرام کے بغیر ہی افغانستان سے انخلا کا آغاز کر دیا۔ یہاں تک کہ افغانستان میں موجود سب سے بڑے امریکی اڈے بگرام ائیربیس کو امریکی افواج رات کی تاریکی میں افغان حکومت کو اطلاع دیے بغیر خالی کر کے نکل گئیں۔ جس وقت امریکی افواج افغانستان سے نکل رہی تھیں اسی وقت طالبان کی پیش قدمی بہت سے علاقوں میں شروع ہو گئی لیکن امریکا نے اپنی قائم کردہ فوج کو کسی بھی قسم کی فضائی مدد بھی فراہم نہیں کی۔ جس فوج کی بنیاد ہی امریکی تعاون پر بھروسا تھا جب وہ امریکی مدد سے محروم ہوئی تو اس فوج میں عدم تحفظ اور مایوسی پیدا ہونا فطری امر تھا اسی لیے افغان فوج نے بغیر لڑے ہتھیار ڈال دیے۔

دوسری طرف افغانستان سے عجلت میں انخلا کو بعض حلقے امریکی پسپائی تصور کر رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ ایک بے سرو سامان گروہ کی کامیابی ہے جس نے دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور کو محض اپنے جذبے، دلیری اور اللہ پر توکل سے شکست دی۔ امریکا طالبان کی حکومت، ان کی فکر اور اس گروہ کا نام و نشان مٹانے افغانستان آیا تھا۔ طالبان کی حکومت تو امریکا کچھ عرصے کے لیے ختم کرنے میں کامیاب ہو گیا، مگر طالبان تنظیم نظریے اور قوت کا خاتمہ اس سے نہیں ہوسکا۔

فکر، سوچ اور گروہ کے طور پر ان کا نظم، سٹرکچر اور قیادت ایک دن بھی کمزور نہیں پڑی۔ یہ طالبان کی کامیابی ہے کہ امریکہ شکست کھا کر جا رہا ہے اور طالبان دوبارہ اپنے وطن میں فاتح کی حیثیت سے نظر آ رہے ہیں۔ خود امریکا کے اندر سے اس پر آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ لوگوں کو افغانستان سے امریکی سفارتی عملے کو ہیلی کاپٹرز کے ذریعے ریسکیو کرنے کی تصاویر دیکھ کر ویتنام والی ہزیمت اور پسپائی کی یاد آ رہی ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن اس وقت امریکا کے اندر اور باہر سے تنقید کا نشانہ بن رہے ہیں۔ جرمنی جیسے حلیف ممالک بھی امریکا پر تنقید کر رہے ہیں اور سوال کیا جا رہا ہے کہ اگر افغانستان پھر سے طالبان کے حوالے کرنا تھا تو اتنی جانیں اور وسائل ضائع کرنے کی کیا ضرورت تھی؟

چند لوگوں کا خیال ہے کہ یہ امریکہ کی شکست نہیں بلکہ نئی گریٹ گیم کا آغاز ہے۔ کہا جا رہا کہ امریکا اب اپنی تمام تر توانائی چین کے خلاف استعمال کرنا چاہتا ہے اور اس کے لیے اب طالبان کو استعمال کیا جائے گا۔ اس کے لیے دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ چین کے خلاف برسر پیکار ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ پر امریکہ نے بھی پابندی عائد کر رکھی تھی مگر سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جاتے جاتے یہ پابندی اٹھا گئے تھے۔ یہ تنظیم طالبان کے ساتھ افغان حکومت کے خلاف مزاحمت میں شریک رہی ہے لہذا اب جبکہ طالبان کے پاس افغانستان کا کنٹرول ہے تو یہ تنظیم چین کے خلاف کارروائیاں کرنے میں مکمل آزاد ہوگی اور اسے افغانستان میں محفوظ ٹھکانے میسر ہوں گے۔

اسی طرح پاکستان دہشت گردی پر قابو پا چکا تھا، لیکن افغان جیلوں سے جو قیدی رہا کیے گئے ہیں ان میں ٹی ٹی پی سے تعلق رکھنے والے خطرناک لوگ بھی تھے لہذا ان کی مدد سے ایک بار پھر پاکستان میں بد امنی پیدا کی جائے گی۔ ان خیالات کو تقویت اس بات سے ملتی ہے کیونکہ افغانستان کے زر مبادلہ کے ذخائر امریکا نے منجمد کر دیے ہیں اور کہا ہے کہ وہ طالبان کو نہیں دیے جائیں گے۔ افغانستان کا کوئی ذریعہ آمدن بھی نہیں اور اس کا تمام انحصار بیرونی امداد پر ہے۔ لہذا خیال کیا جا رہا ہے کہ ملک چلانے کے لیے طالبان کو امریکا کی گائیڈ لائن پر چلنا پڑے گا۔

کون سی بات درست ہے اور کون سی غلط یہ آنے والا وقت بتادے گا۔ فی الوقت اہم بات یہ ہے کہ طالبان کون سا نظام حکومت تشکیل دیتے ہیں۔ اب تک کے اقدامات سے لگتا ہے طالبان کی سوچ میں تبدیلی آئی ہے خدا کرے انہیں یہ بھی ادراک ہو گیا ہو کہ طاقت کے ذریعے عوام کو وقتی طور پر محکوم بنانا آسان ہے لیکن طاقت کی مدد سے ہمیشہ کے لیے کسی کو اطاعت پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ طالبان پشتون قوم کی نمائندگی کرتے ہیں جو افغانستان کی آبادی میں زیادہ سے زیادہ پچاس فیصد ہوں گے۔

ان کی بھی تمام تعداد طالبان کی ہمیشہ کے لیے حکومت پر کبھی متفق نہیں ہو سکتی۔ دیکھنا یہ ہے کہ نئے نظام میں اختلاف کرنے والوں کے پاس حکومت میں آنے کے لیے بندوق اٹھانے کے سوا کوئی آپشن ہوگا یا نہیں۔ طالبان کو یہ بھی سوچنا چاہیے اس قسم کی تحریکیں جن میں طاقت کا ارتکاز چند ہاتھوں میں ہو، جب وسائل اور اقتدار ان کے ہاتھ آ جائے طویل عرصہ باہم منظم نہیں رہتیں۔ دعا ہے کہ طالبان واقعی ماضی سے مختلف ثابت ہوں، وہ سب کو ساتھ لے کر چلیں اور افغانستان میں مضبوط حکومت بنانے میں کامیاب ہوں تاکہ اس خطے کو استحکام اور امن نصیب ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments