عرفان صدیقی صاحب کا معصوم انکشاف یا نون لیگ کی سیاست کے خلاف چارج شیٹ


اپنے بیس اگست کے کالم میں عرفان صدیقی صاحب فرماتے ہیں، ”یہ 25 مئی 1997 کا ذکر ہے۔ وزیراعظم نواز شریف اپنی اقامت گاہ کے ایک کمرے میں بیٹھے پی۔ ٹی۔ وی پر رات 9 بجے کا خبرنامہ دیکھ رہے تھے۔ شہ سرخی تھی کہ پاکستان نے امارات اسلامی افغانستان (طالبان) کی حکومت کو تسلیم کر لیا ہے۔ میاں صاحب کو دھچکا لگا کہ یہ کب، کیسے، کیوں کر، کس کے حکم سے ہو گیا ہے؟“ میں پاکستان کا وزیراعظم ہوں ”۔ اور مجھے پتہ ہی نہیں۔

ایسا نہیں کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا یا آخری واقعہ تھا۔ اس سے پہلے انیس سو اکانوے کی پہلی گلف وار میں کویت پر جارحیت کے مرتکب جنرل صدام حسین کے حق میں پاکستان بھر میں ایک مہم چلائی گئی۔ مجھے یاد ہے اس زمانے میں نویں اور دسویں کلاس کے لڑکوں کے پاس فائلز ہوا کرتی تھیں جسے وہ انگوٹھے اور انگلیوں میں دبائے بڑے سٹائل سے سکول آتے۔ جبکہ چھوٹی کلاسز میں ہمارے ذمے چار کلو کا بستہ ہوتا جس کا مجموعی حجم ہماری کاٹھی سے بھی زیادہ ہوتا۔

ان دنوں جان ریمبو اور مختلف باڈی بلڈرز کی تصویروں کو فائل کور میں سجا یا جاتا مگر جب گلف وار شروع ہوئی تو فائل کورز پر صدام حسین کی وردی والی تصویروں، عراق کے جھنڈے، اور تلوار کا فیشن عام ہو گیا۔ رنگ محل سے اردو بازار جگہ جگہ مارکیٹس کے شٹرز اور ستونوں پر اسی طرز کے سٹیکرز چسپاں ہوتے۔ یہ وہ وقت تھا جب منتخب وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے کویت کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا مگر ریاست کے اندر کی ریاست صدام کو ہیرو بنانے پر تلی تھی۔ وزیر اعظم کی ناک تلے یہ سارا معاملہ چلتا رہا مگر میاں محمد نواز شریف کو پتہ ہی نہیں تھا؟

اپنی دوسری ٹرم میں بھی جب بھارت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کو میاں صاحب نے مینار پاکستان مدعو کیا، تو بھارتی سیاست کے سب سے کٹر بندی گروہ اور فکر کے نمائندہ لیڈر نے پاک بھارت تقسیم کو ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کیا اور اس امر کا اظہار کیا کہ آنے والے سالوں میں دونوں ملک مل کر امن، سلامتی اور ترقی کی منازل طے کریں گے۔ عین اس وقت کارگل میں ایک ایڈونچر اپنے آخری مراحل پر تھا جس نے پوری دنیا میں پاکستانی کی فوج کو روگ آرمی اور ریاست کو فیل سٹیٹ ثابت کر دیا۔ افسوس کا مقام ہے کہ میاں محمد نواز شریف کے ترجمانوں کے مطابق اس وقت بھی انہیں کچھ پتہ نہیں تھا۔

تیسری بار عوام سے ووٹ لے کر دوبارہ میاں صاحب کو منتخب کیا اور اقتدار سنبھالتے ہیں انہوں نے ملک کو ترقی کی شاہراہ پر واپس لانے کے لئے ایک لائحہ عمل ترتیب دیا، مختلف بڑے منصوبوں پر کام کا آغاز کیا، چین اور ترکی کے ساتھ معاہدے کیے اور عین اسی دوران لندن میں ایک پلان بنا۔ جس کے بعد 126 دنوں تک ڈی چوک دھرنا دیا گیا، پورا ملک جام ہو گیا، حکومت کی بے بسی نے نئی تاریخ رقم کی۔ اپنے اسی دور حکومت میں ایک سرکاری مولوی نے فیض آباد کے مقام پر دھرنا دیا اور ریاست کے ایک اہم ادارے یعنی پولیس کی دوڑیں لگوا دیں۔

حکومت تحمل اور بردباری کی دہائیاں دیتی رہی اور جدید ترین ماسک پہن کر ایک جسمانی اور ذہنی معذور نے پوری حکومت کو مفلوج کر دیا۔ پھر پانامہ کا قصہ اور عدالت عالیہ کا یہ تبصرہ کہ ایسی فریولس درخواست، ایسی بیہودہ درخواست لے کر عدالت آنے کی جرات کیسے ہوئی سے سپریم کورٹ کے جج کی مانیٹرنگ میں احتساب عدالت کی روزانہ سماعت تک، ایک پوری تاریخ ہے جو ڈان لیکس سے ہوتے ہوئے منتخب وزیر اعظم، اس کے آفس اور ووٹ کی بے توقیری پر ختم ہوئی اور جب یہ سب کچھ جاری و ساری تھا، میاں صاحب کو کچھ پتہ نہیں تھا۔

عرفان صدیقی صاحب یا نون لیگ کے تمام ترجمان کب تک عوام کو بدھو اور بیوقوف مانتے رہیں گے۔ کب تک یہ یاد دلاتے رہیں گے کہ عوام کے مسلسل اعتبار اور ووٹ کے باوجود میاں صاحب بنیادی معاملات کو حل کرے میں ناکام رہے۔ کب تک اس ناکامی کو معصومیت اور ”مجھے تو پتہ ہی نہیں تھا“ کے بہانوں میں چھپاتے رہیں گے۔

جب کسی لیڈر کو بار بار ووٹ کے ذریعے اقتدار سونپا جائے تو عوام کی جانب سے یہ اعتماد اور امید کا سب سے شاندار اظہار ہوتا۔ وہ لیڈر جسے اس عزت کے لئے عوام بار بار چنے، یقیناً اس چناؤ کے ساتھ عوام کی کچھ امیدیں بھی وابستہ ہوتیں۔ بدقسمتی سے بار بار وہ امیدیں ٹوٹیں اور بار بار ہمیں سننے کو ملا کہ ”مجھے تو پتہ ہی نہیں تھا“ ۔

کیا عرفان صدیقی صاحب جب اگلی بار میاں صاحب سے ملیں یا بات کریں تو انہیں بتانا پسند کریں گے کہ پاکستان جیسی ریاستوں میں عوام اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتی کہ آپ کو ووٹ دے دے۔ اگر بار بار انہیں کام کرنے سے روکا جاتا تھا، ان سے معلومات چھپائی جاتی تھیں، ان کو اندھیرے میں رکھا جاتا تھا، ان سے پوچھے بغیر فیصلے کیے جاتے تھے، تو اس مسئلے کا حل انہوں نے نکالنا ہے۔ اس معاملے پر بحث انہوں نے کروانی ہے۔ آئینی، انتظامی اور ادارہ جاتی ریفارمز انہوں نے کرنے تھے۔ کیونکہ لیڈر وہ ہیں۔ ہر بار بہانے بنانے یا معصوم صورت بنا کر جواز تراشنے والا فارمولا اب نہیں چل سکتا۔

ن لیگ کے میڈیا مینیجرز کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اسی اور نوے کی دہائی کے ہمدردی کارڈز دو ہزار اکیس میں کسی کام کے نہیں۔ نون لیگ کے پاس اگر اس مسئلے کا حل موجود نہیں تو ووٹ مانگنے سے توبہ کرے اور کسی دوسرے کو موقع دے۔ تاہم نون لیگ اگر سمجھتی ہے کہ اسے ووٹ مانگنے کا حق ہے تو کارکردگی بھی اسی کے ذمے ہے۔ بہانے بنانے اور رونے دھونے اب بند ہونے چاہئیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments