افغانستان میں دو قومی نظریہ


جونہی میں طورخم کے راستے افغانستان میں داخل ہوا تو وہاں ڈھیلی ڈھالی شلوارقمیض اورکالی پگڑی میں ملبوس لمبی زلفوں والے طالب نے مسکراتے ہوئے استقبال کیا ۔ ماضی کے برعکس یہاں کسی قسم کی امیگریشن یا رجسٹریشن کا نظام موجود نہیں تھا۔ طالبان جگہ جگہ ہاتھوں میں بندوقیں اٹھائے موجود تھے جبکہ افغانستان کی بجائے اب کلمہ طیبہ پرمشتمل طالبان کاسفید پرچم جگہ جگہ لہرا رہا تھا۔ ہمیں مقامی طالب انچارج سے اجازت لے کر آگے جانے کی ہدایت کردی گئی۔ جیو نیوز کے کیمرہ مین شاہد بھی میرے ہمراہ تھے۔ ہم نے کابل کے لیے گاڑی کرائے پر حاصل کی اور روانہ ہوگئے ۔ ہمارا ڈرائیورنوجوان لال خان تھا۔ یہ شام چاربجے کا وقت تھا۔ اس نے بتایا کہ طالبان کے آنے سے امنِ عامہ کا مسئلہ حل ہوگیا ہے۔ اس کے مطابق طالبان کے آنے سے قبل تک وہ شام کو اس سڑک پر سفر نہیں کر سکتے تھے مگر اب بے فکری سے سفر کررہے ہیں۔ راستے میں مختلف مقامات پر مسلح طالبان ہر شہر کے داخلی راستے پر موجود تھے اور گاڑیوں کو روک کران سے پوچھ گچھ کررہے تھے۔ حیران کن بات یہ تھی کہ میں مغربی لباس یعنی جینز اورشرٹ میں ملبوس تھا اورخیال تھا کہ یہ لباس انہیں نا مناسب لگے گا مگر ایسا کچھ نہیں ہوا، کسی نے مجھے میرے لباس کے حوالے سے کچھ نہیں کہا البتہ سب مجھ سے احترام سے ملے۔

طورخم سے کابل 228 کلومیٹر یعنی کم و بیش چارگھنٹے کا سفرہے ۔ راستے میں سب سے پہلے جلال آباد آتا ہے ۔ ہم وہاں پہنچے تو مرکزی چوک پر افغانستان کا قومی پرچم لہرا رہا تھا۔ سوچا بازار میں جاکر لوگوں سے بات چیت کی جائے۔ ٹھیلے لگے ہوئے تھے مگردکانیں بند تھیں۔ تھوڑی ہی دیر پہلے وہاں پر قومی پرچم کے حوالے سےکوئی احتجاج بھی ہوا تھا۔ لوگوں نے بتایا کہ طالبان کے کنٹرول سنبھالتے ہی مہنگائی بڑھ گئی ہے۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ افغان کرنسی کو کہا جاتا ہے کہ یہ پاکستان سے زیادہ مضبوط ہے۔ یعنی پاکستان کے دوروپے افغانستان کے ایک افغانی کے برابرہیں۔ ایک آدمی نے کہا کہ عام شہری طالبان کی وجہ سے کنفیوژن کا شکار ہے کیونکہ طالبان تو اپنے جھنڈوں کے ہمراہ گاڑیوں پر پھر رہے ہیں لیکن کچھ لوگ گھروں سے اسلحہ لے کر بازاروں میں خود کو طالبان کے طورپرمتعارف کرواتے ہیں۔ وردی نہ ہونے کے باعث ہم کنفیوژ ہیں کہ کون طالبان ہے اور کون نہیں ؟

کچھ دیرمیں ہم آگے بڑھ گئے۔ سڑک پر راستے میں ایک ہوٹل پرہمیں طالبان کا جھنڈا لگی ایک گاڑی نظر آئی تو ہم بھی وہاں طالبان سے بات چیت کے لیے رک گئے۔وہ ہم سے مسکرا کرملے۔ ان کے ہمراہ محمد ایوب نام کا ایک خوش گفتارشخص بھی موجود تھا۔ اس نے خود کو طالبان رہنما کے طورپرمتعارف کروایا۔ وہ اچھی اردو بول رہا تھا اور کسی زمانے میں جنرل حمید گل سے بھی ملتا رہا تھا۔ اس نے مجھے دعوت دی کہ میں اس کے ساتھ اسکی کارمیں سوار ہوجائوں کیونکہ وہ بھی کابل ہی جارہا تھا راستے میں گپ شپ رہے گی۔ میں نے اپنے کیمرہ مین کو بتایا کہ وہ ہمیں فالو کریں اور اس کے ساتھ ہو لیا ۔ ایوب نے بتایا کہ وہ پاکستان سے آرہاہے وہاں اس نے طالبان وفد کے ہمراہ جماعت اسلامی کے رہنما لیاقت بلوچ سے بھی ملاقات کی ہے اور جماعت الدعوۃ کے ایک اہم رہنما سے بھی ملے ہیں۔ اسکے مطابق اب افغانستان میں امن رہے گا اور یہاں خوشحالی آئے گی۔ ایوب سے پوچھا کہ یہ بتائیے کہ طالبان پاکستان کے ساتھ کیسے رہیں گے اورسب سے اہم یہ کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کونشانہ بنائے گی تو کیا اس سے پاکستان کا نقصان نہیں ہوگا؟ ایوب نے کہا نہیں،’’ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے‘‘۔ اس نے کہا آپ دیکھیے گا اس حوالے سے جلد ہمارا پالیسی بیان بھی آئے گا۔

کابل کےداخلی راستےپل چرخی پر طالبان بڑی تعداد میں کھڑے تھے۔ ہمیں بھی روکا گیا پھر فون پر ہمارے بارے میں ہدایات لی گئیں اورہمیں کابل داخلے کی اجازت مل گئی۔ رات کےتقریباً10 بج چکے تھے۔کابل شہرمیں جگہ جگہ ٹریفک جام تھی۔ ہم وزیراکبرروڈ پرپہنچے تووہاں لوگوں کا جم غفیر موجود تھا۔ استفسار پرپتہ چلا کہ یہاں کینیڈا کا سفارتخانہ ہے اورافغانستان سے نکلنے کے خواہشمند یہاں اکٹھے ہیں۔ ذرا آگے نکلے تو ارگ یعنی صدارتی محل کی طرف جانے والے راستے پرمجمع اس سے بھی بڑا تھا۔ پتہ چلا کہ یہاں فرانسیسی سفارتخانہ ہے، لوگ ویزے کی امید پر آئے ہوئے تھے ۔

ہوٹل میں سامان کی منتقلی کے بعد میں دوبارہ باہرنکلا اورفٹ پاتھ پرچلنے لگا۔ یہاں چلنا دشوارتھا کیونکہ عورتیں اوربچے بھی موجود تھے۔ دکھ ہو رہا تھا کہ وہ دو تین راتوں سے یہیں مقیم ہیں۔ حیران کن طورپر عورتیں برقعوں میں تھیں۔ ابھی چند روز قبل یہاں اسی مقام پر عورتوں کو مقامی یا مغربی لباس میں دیکھا تھا ۔ مجھے لگ رہا تھا کہ جیسے طالبان کے ساتھ برقعے بھی کابل شہر میں آگئے ہیں۔ یہاں جو ذرا متمول تھے وہ گاڑیوں میں اپنے خاندانوں کے ساتھ سفر کر رہےتھے ۔ رات کے گیارہ بج چکے تھے، ان کے چہرے پرپریشانی نمایاں تھی۔ مسلح طالبان جگہ جگہ موجود تھے۔ سفیدرنگ کے جھنڈے پرکالے رنگ سے لکھا کلمہ طیبہ انکی شناخت تھا۔

یہاں میں سوچ رہا تھا کہ آج کا افغانستان دراصل دو قومی نظریے کی زیادہ واضح تصویرہے۔ ایک طرف طالبان ہیں جو مذہب کو اہمیت دیتے ہیں جوطالبان نہیں ہیں وہ اسلام کو اپنا مذہب تو تسلیم کرتے ہیں لیکن ان کے نزدیک ان کی قومیت کی بنیاد مذہب کی بجائے ان کا افغان ہونا ہے ۔ افغانستان میں دوقومی نظریے میں فی الحال طالبان نے فتح حاصل کرلی ہے تاہم دیکھنا یہ ہے کہ طالبان مختلف نظریات رکھنے والوں سے کیا سلوک کرتے ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments