افغانستان کے حالات اور پاکستان کے پالیسی ساز


طالبان نے جس برق رفتاری سے افغانستان کے مختلف صوبوں، صوبائی دارالحکومتوں اور بی الآخر کابل کا کنٹرول سنبھالا ہے اس کی امریکہ اور طالبان سمیت کسی کو بھی توقع نہیں تھی۔ کابل سے مایوسی کے عالم میں فرار ہونے کی کوشش کرنے والے لوگوں اور شہر میں جگہ جگہ موجود عام افغانوں کے فکرمند چہروں کو ٹیلی وژن سکرینوں پر دیکھنے کے دوران مجھے رواں برس فروری میں پاکستان میں ہونے والی میری بعض ملاقاتوں کی یاد تازہ ہوئی۔

پاکستانی فوج کے دو حاضر سروس برگیڈیئروں، دو کرنلوں اور ایک میجر جنرل کے علاوہ ایک سابق میجر جنرل اور ایک سابق برگیڈیئر سے ملاقاتوں میں علاقائی اور ملکی حالات پر طویل تبادلہ خیال ہوا۔ جن اہلکاروں سے گفتگو ہوئی ان میں سے چند پاکستان کی سیکریٹ سروس، انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) میں بھی اہم خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ فروری میں کم از کم میرے لیے یہ تصور کرنا بھی ناممکن تھا کہ اگلے چھ مہینے میں تمام امریکی افواج اس عجلت اور بغیر مناسب منصوبہ بندی کے افغانستان سے روانہ ہو چکی ہوں گی، افغان قومی فوج تتر بتر ہو کر ملک پر طالبان کا کنٹرول مودبانہ انداز سے قبول کر چکی ہوگی، صدر اشرف غنی افغانستان کو قیادت فراہم کرنے کے بجائے ملک چھوڑ کر کہیں اور سکون سے ٹیلی وژن پر حالات دیکھ رہے ہوں گے، انڈیا بوریا بستر باندھ کر روانا ہو جائے گا اور طالبان صدارتی محل میں فوٹو سیشن کر رہے ہوں گے۔

لیکن فوج کے ایک اہلکار نے اس وقت مجھے یہ خبر دے کر اچنبھے میں ڈال دیا تھا کہ ”اگر امریکہ انڈیا کو لاکر ہماری مغربی سرحد پر بٹھا دے گا تو یہ ہمیں کسی صورت قبول نہیں ہوگا اور بہت جلد اشرف غنی کی حکومت بھی ختم ہو جائے گی۔“

میں نے پوچھا کہ اگر انڈیا افغانستان میں ترقیاتی کام کر رہا ہے تو اس میں کیا برا ہے؟ اور کیسے اشرف غنی کی حکومت ختم ہو جائے گی، اب تو تین لاکھ کے قریب افغان فوج ہے؟

افسر مسکرایا اور کہنے لگا، آپ کا خیال ہے انڈیا صرف افغانستان کی ترقی کے لیے وہاں گیا ہے اور اس کے کوئی سٹریٹجک مفادات نہیں؟ وہ ہمارے خلاف وہاں سے دہشت گردی نہیں بھڑکا رہا اور بلوچ مسلح گروپوں کو افغانستان میں تربیت نہیں دی جا رہی۔ بالاچ مری اور ڈاکٹر اللہ نذر کیا افغانستان سے سرگرمیاں نہیں کر رہے تھے؟ ”ہم نے امریکہ کو کہا تھا کہ ہم باقی تمام مسائل پر بات کر سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انڈیا کو لاکر ہمارے سر پر بٹھا دیں گے تو یہ ہم برداشت نہیں کریں گے۔ امریکہ نے ہماری بات نہیں سنی، اس کا نتیجہ امریکہ کے لیے اچھا نہیں نکلنا۔“

افغانستان کی حالیہ صورتحال پر پاکستانیوں کے ذہنوں میں بھی دنیا بھر کے لوگوں کی طرح کئی سوالات ہیں۔ پاکستانیوں کے لیے سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا افغانستان میں طالبان کے کامیابی کے بعد پاکستان میں جہادی قوتیں مضبوط نہیں ہوں گی؟ تحریک طالبان اور دیگر گروپ کیا پاکستان میں بھی ایسی تبدیلی لانے کے لیے مزید سرگرم نہیں ہوں گے؟ فوجی اہلکار سمجھتے ہیں کہ اس بات کا خطرہ موجود ہے لیکن بقول ان کے یہ خطرہ انڈیا کے افغانستان میں قدم مضبوط کرنے کے مقابلے میں قدرے کم ہے۔

اس ضمن میں انہوں نے حالیہ برسوں میں پاکستان میں دہشت گردی تقریباً ختم کر دینے کی مثال دی اور کہا کہ پاکستان نے اپنی ریڈ لائنز شدت پسندوں سمیت سب پر واضح کر رکھی ہیں اور وہ عبور کرنے کی ہم کسی کو اجازت نہیں دیں گے۔ افسران کی اس خود اعتمادی کا اصل نتیجہ کیا سامنے آتا ہے؟ اس بارے میں سردست کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ لیکن وہ مطمئین ہیں کہ کچھ کولیٹرل ڈیمج ہوگا لیکن شدت پسندی مینینجبل سطح تک رہے گی۔

ایک اور سوال جو سب کو ستا رہا ہے وہ یہ ہے کہ طالبان اتنی جلدی پورے ملک پر کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب کیسے ہو گئے؟ تو اس کا کچھ جواب تو امریکی صدر بائیڈن نے دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ افغانستان کی تین لاکھ فوج تھی، جس کو اسلحہ، ساز و سامان، تربیت اور تنخواہیں امریکہ دیتا رہا لیکن جب وقت آیا تو قیادت نے ہار مان لی اور فرار ہو گئی جبکہ فوج نے مزاحمت ہی نہیں کی۔

لیکن اس کے علاوہ بعض اور وجوہات بھی تھیں۔

امریکہ نے افغان فورسز کی تربیت، ساز و سامان اور تنخواہوں کی مد میں گزشتہ بیس برس میں پچاسی ارب ڈالر خرچ کیے ہیں۔ لیکن اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق افغان فورسز کی تربیت پر معمور اہم اہلکار ان فوسرز کی اہلیت اور کمٹمنٹ کے بارے میں سوالات اٹھاتے رہے ہیں اور ان کو کبھی بھی یقین نہیں تھا کہ وہ امریکہ کی مدد اور پیسے کے بغیر لڑ سکیں گے۔ ان کے بقول بیشتر تو صرف تنخواہوں اور بعض مراعات کے لیے فوج میں شامل تھے جبکہ وہ دل سے طالبان مخالف مقصد کے لیے جان دینے کے حق میں کبھی نہیں تھے۔ یہ فوجی اور پولیس اہلکار ملک کی انتہائی بدعنوان اشرافیہ سے بھی ناراض تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ ان کے رہنماؤں اور اعلیٰ کمانڈروں نے کروڑوں ڈالر بنائے ہیں، ملک سے باہر ان کے گھر اور خاندان کے افراد رہ رہے ہیں اور جب وقت آئے گا تو وہ چلے جائیں گے تو پھر عام سپاہی کس مقصد کے لیے اپنی جان دے؟

دوسری جانب امریکی جرنیلوں اور اعلیٰ اہلکاروں کو افغانستان کی صورتحال، لوگوں کی نفسیات اور کلچر سمجھنے میں بھی بالکل ناکامی ہوئی اور وہ سمجھتے رہے کہ صرف پیسہ پھونکنے سے نئی فوج اور پولیس فورس تیار کر لیں گے۔ جو کہ بنیادی طور پر غلط پالیسی تھی۔

تو جب طالبان نے امریکی افواج کے جانے کے بعد اپنا حملہ شروع کیا تو انہوں نے خفیہ طور پر کئی صوبوں میں حکومت کے دستوں، گورنروں اور اہلکاروں سے معاہدے کر کے صوبوں کا کنٹرول لے لیا۔ طالبان نے کچھ کو پیسے دیے، کچھ کو دھمکیاں دیں، کچھ کو مراعات کا لالچ دیا اور کچھ کو نئی انتظامیہ میں عہدے دینے کا وعدہ کیا۔

پاکستانی افواج اور سویلین قیادت کہتی ہے کہ افغانستان میں طالبان کی کامیابی میں اس کا کوئی ہاتھ نہیں۔ لیکن امریکی اور یورپی تجزیہ کار اس بات کو تسلیم نہیں کر رہے۔ ایک برطانوی اہلکار نے آف دی ریکارڈ گفتگو میں بتایا کہ طالبان کا جو نیا ”سافٹ“ روپ سامنے آیا ہے وہ بھی پاکستان کی تربیت کا نتیجہ ہے۔ ان کے مطابق پاکستان نے طالبان کو شاید ملٹری افرادی قوت تو فراہم نہیں کی لیکن ان کو اپنے ملک میں مہمان رکھنے، اپنی سرگرمیاں نسبتاً آرام سے جاری رکھنے سے لے کر وارفیئر کی سٹریٹیجک مدد اور ایک نیا امیج بنانے میں ضرور کلیدی کردار ادا ہے۔

پاکستان نے اس بات سے کبھی انکار نہیں کیا کہ ان کے رابطے افغان طالبان کے ساتھ ہمیشہ رہے ہیں اور جو کچھ پاکستان کا اثر رسوخ ان پر تھا اس کو بھی امن کے قیام کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔

لیکن اب پاکستانی مبصرین جس بات سے سب سے زیادہ پریشان ہیں وہ یہ ہے کہ کیا جب افغانستان میں طالبان کی حکومت مضبوط ہو جائے گی اور دنیا کے کئی ممالک اس نئی زمینی حقیقت کو مان کر ان کی حکومت کو تسلیم کر لیں گے، تب وہ پاکستان میں اپنے نظریاتی حامیوں اور جہادیوں کی مدد نہیں کریں گے؟ ان مبصرین کو خدشہ ہے کہ پاکستان میں شدت پسندی اور کٹر مذہبیت پہلے ہی بہت بڑھ رہی ہے اور طالبان کی یہ کامیابی اس کو مزید قوت بخشے گی۔ اور تب وہ وقت ہوگا جب پاکستانی فوجی اہلکاروں کے اس دعوے کا امتحان ہوگا کہ ”جو حالات پیدا ہوں گے وہ مینیج ایبل ہوں گے۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments