خط نمبر 13۔ بچہ پیدا کرنا گناہ ہے!


محترم ڈاکٹر خالد سہیل!

اپنے ہر خط میں آپ نے مجھ پر علم کا ایک نیا دروازہ کھولا ہے جس کے لئے میں آپ کی بہت شکرگزار ہوں۔ کل ہی میں نے ’ہم سب‘ پر آپ کا نیا کالم پڑھا جس میں آپ نے فیمن ازم میں انائس نن کے کردار کی عمدگی سے وضاحت فرمائی۔ میں نے انائس نن کو پہلی مرتبہ پڑھا اور میں ان کی شجاعت اور منفرد سوچ سے متاثر ہوئی۔

ان خطوط کے سلسلے کی ایک بات جو مجھے بہت پسند ہے وہ ہر خط میں کیا جانے والا سوال ہے۔ میں جب آپ سے سوال کرتی ہوں تو مجھے اپنے سوالات کو سامنے رکھنے کا موقع ملتا ہے جس کا آپ نے ہمیشہ بخوبی جواب دیا ہے اور جب آپ مجھ سے سوال کرتے ہیں تو مجھے اپنے گردونواح کے حوالے سے اپنے مشاہدات کو سمیٹنے کا موقع ملتا ہے۔ یہ بہت دلچسپ ہے۔

گزشتہ خط میں آپ نے مجھ سے ماں باپ کے رشتے اور بچوں کی پرورش میں ان کے کردار کے متعلق دریافت کیا ہے۔

سر۔ میں نے اپنی زندگی کے ان اکیس سالوں میں ایسے بہت سے نوجوان دیکھے ہیں جو اپنے گھر والوں اور والدین کی وجہ سے دباؤ کے شکار رہتے ہیں۔ ہمارے ہاں فرمانبرداری کو ایک بڑا مقام حاصل ہے اور جو بچہ/شخص اپنے اور دوسروں کی حدود کا تعین کرنے لگے اسے نامناسب سمجھا جاتا ہے۔ ماں باپ کو یہاں سوپر نیچرل کرداروں کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ماں کے قدموں تلے جنت ہے اور باپ جنت کا دروازہ ہے۔ فقط یہ سوچ ماں باپ کے متعلق پائی جاتی ہے۔ ماں باپ کے آگے سے اف بھی کر دو تو اللہ ناراض ہو جاتا ہے۔

میں یہ نہیں کہوں گی کہ یہ تمام تر سوچ غلط ہے اور ماں باپ کا کردار مثبت نہیں۔ میں بس اس جنرلائزیشن کی حامی نہیں ہوں کہ کسی نے بس حیاتیاتی طور پر بچہ پیدا کر لیا ہو اور اس بچے کو پیدا کرنے والے روحانیت کی بلندیوں پر فائز کر دیے جائیں۔ میرے نزدیک ماں باپ بھی اوروں کی طرح انسان ہوتے ہیں سو اچھے بھی ہو سکتے ہیں اور برے بھی۔ میں فرمانبرداری کے بھی حق میں نہیں ہوں۔ یہ ایک آزاد انسان کے ذہن کو غلام بنانے والی بات ہے کہ وہ اپنے دماغ کو استعمال میں لاتے ہوئے درست فیصلہ کرنے کی بجائے ہمیشہ دوسروں کے فیصلوں پر ہی رہے۔

حال ہی میں ایک خاتون سے بات ہو رہی تھی۔ انھوں نے بتایا کہ ان کا بیٹا اتنا فرمانبردار ہے کہ شادی اور بچوں کے بعد بھی کہاں جانا ہے اور کہاں نہیں جانا سب کچھ ماں سے پوچھ پوچھ کر کرتا ہے۔ بہو اور بچوں کے ساتھ بھی تمام معاملات اپنی ماں کی ہاں اور ناں کی بنا پر طے کرتا ہے۔ وہیں موجود دوسری خاتون بہت متاثر ہو رہی تھیں کہ کیسا آئیڈیل بیٹا پایا ہے۔ مگر مجھے یہ بیٹا آئیڈیل کی بجائے کچھ دماغ سے پیدل قسم کا لگا۔ جو شوہر اور باپ بننے کے بعد بھی اپنے فیصلے خود نہیں کر سکتا۔ ایسا شخص بھلا ایک مضبوط باپ کس طرح بن سکتا ہے؟ وہ ایک سپورٹ کرنے والا شوہر کس طرح بن سکتا ہے؟ یہ بے جا فرمانبرداری کے نتائج ہیں۔ بچوں کو وقت کے ساتھ اسپیس دیے جانے کی بجائے کہ وہ اپنے لیے فیصلے خود کر سکیں۔ ماں باپ اپنے فیصلے ان پر تھوپنے لگ جاتے ہیں جس سے بہت سے نوجوان نفسیاتی الجھنوں کے شکار دکھائی دیتے ہیں اور ایسے نوجوانوں میں خود اعتمادی اور فیصلہ سازی جیسی صلاحیتوں کا بھی فقدان ہوتا ہے۔

عام طور پر ماں باپ اپنی فرمانبرداری کی کہانیاں سنا سنا کر اولاد کو سننے سے پہلے بات نہ ماننے پر ان کو نافرمانی کے سرٹیفکیٹ جاری کرتے رہتے ہیں۔ اس بات کو نہیں سمجھتے کہ وقت کے ساتھ ساتھ مسائل کی نوعیت بھی بدلتی جاتی ہے۔ نئی نسل کے حالات بھی نئے ہیں اور مسائل بھی سو اگر ان کے مسائل کو سلجھانا ہے تو روایتی طریقے کی بجائے اچھے سے حالات کا جائزہ لینا اور بچوں سے مکالمہ کرنا ہو گا۔

ہاسٹل میں رہتے ہوئے میں ایسی بھی لڑکیوں سے واقف ہوں جو چھٹیوں پر بھی گھر جانا نہیں چاہتیں کیونکہ ان کے والدین کے ساتھ ان کے تعلقات اچھے نہیں یا ان کے گھر کا ماحول ناخوشگوار ہے جہاں وہ سہمی رہتی ہیں۔

سر۔ جیسا کہ آپ نے اپنے پچھلے خط میں انجان مرد اور عورت اور انجان مولوی ان تین انجانوں کے ٹریو سے شادی کے سماجی ادارے کی وضاحت فرمائی۔ میں آپ کی بات کو ایکسٹینڈ کرتے ہوئے یہ کہنا چاہوں گی کہ ہمارے ہاں جتنا زیادہ دلہا دلہن شادی سے پہلے انجان ہوں اسے اتنی ہی بڑی خوبی سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ اس بات کا عقل سے بھلا کیا تعلق بنتا ہے کہ جو دو لوگ ایک دوسرے کو جانتے ہی نہ ہوں وہ ایک ساتھ بچوں کے ماں باپ بن جائیں؟

جنھیں ایک دوسرے کی شخصیات، نظریات اور مستقبل کے ارادوں کا علم ہی نہ ہو وہ شریک حیات بن جائیں؟ شادی کے بعد بھی ان جوڑوں کو ایک دوسرے کو سمجھنے کا وقت میسر نہیں آتا۔ فوراً سے بچوں کی پیدائش کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ مشرق میں شادی بچوں کے لئے کی جاتی ہے اس کا جوڑے کی محبت اور ساتھ میں خواب پورے کرنے سے میلوں تک کوئی تعلق نہیں۔ ساس کو پوتے کی خواہش ہوتی ہے تو جلدی سے بہو بیاہ لاتی ہے۔ دور دور کے رشتے دار شادی کے فوراً بعد سے ہی بچے کے پیدا ہونے کا انتظار کرنے لگ جاتے ہیں۔

عام طور پر پہلے سال میں ہی بچہ دنیا میں آ جاتا ہے اور میاں بیوی جو ایک دوسرے کو جانتے بھی نہیں وہ اب امی ابو بن چکے ہوتے ہیں۔ اکثر لڑکیوں کی کم عمری میں ہی شادی کر دی گئی ہوتی ہے وہ بھی اپنے تمام تجربات اپنے بچوں پر کرتی ہیں اور باپ کا کردار ہمارے ہاں ایک سخت پرنسپل جیسا ہے جو بس راؤنڈ لگاتا ہے تو سب سہم جاتے ہیں اور وہ ڈائریکٹ تعلق کی بجائے بچوں کے ساتھ فاصلے قائم رکھتا ہے۔ اہم ہوتا ہے مگر سخت اور دور!

بچے کی پرورش میں فیڈر بنا کر دینا، بچے کے کپڑے تبدیل کرا دینا اور بہت چھوٹا ہو تو لاڈیاں کر لینا وغیرہ شامل ہیں۔ بچے کی اچھی ذہنی نشو و نما کا کوئی تصور نہیں۔ تربیت کے نام پر بچے کی ڈوریں ہاتھ میں لے کر اسے کٹھ پتلی کی طرح نچوانا ثواب کا کام سمجھا جاتا ہے اور ایسے میں بچوں کی نفسیات کی کوئی پرواہ نہیں کرتا۔ ان کی امنگوں سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بچپن سے شرٹ کے رنگ سے لے کر، ڈگری اور جیون ساتھی تک سب صرف ماں باپ کی مرضی سے طے ہوتا ہے اور اگر کوئی بچہ یہ اختیار اپنے پاس کر لے تو وہ ایک بری مثال بن جاتا ہے۔ والدین بچوں کے موازنے بھی کرتے ہیں اور بخوبی احساس کمتری بچوں میں پھونکتے ہیں۔

میں نے اپنی قریبی دوستوں میں بھی گھر سے ملنے والے ٹارچر کو دیکھا ہے۔ میں گواہ ہوں کہ ایسے ماں باپ کے بچے کس طرح کی نفسیاتی اذیتوں کے شکار رہتے ہیں۔ میں واقف بھی ہوں کہ ہمارے معاشرے میں والدین کو کیا عظیم رتبہ حاصل ہے مگر میرے نزدیک تمام والدین اس رتبے کے اہل نہیں۔ صرف وہ لوگ اس رتبے کے اہل ہیں جو اندھے ہو کر بچے پیدا کرنے کی بجائے اس ذمہ داری کو سمجھتے ہیں اور بچے کی خوراک، کپڑوں کا ہی نہیں بلکہ اس کی ذہنی نشو و نما کا اور اس کی نفسیات کا بھی خاص خیال رکھتے ہیں۔

میرے نزدیک ماں باپ اگر تمام ضروریات پوری کرنے کے اہل ہیں صرف تب وہ بچے کو دنیا میں لانے کا سوچیں اور اگر ایک جان جس کا کوئی وجود ہی نہیں اور آپ اسے وجود میں لا رہے ہیں پھر نہ صرف باہر کی کئی الجھنیں اس کا مقدر بن رہی ہیں بلکہ آپ خود اس کی زندگی کو الجھا رہے ہیں۔ اس پر اپنی ضدیں تھوپ رہے ہیں اور ان کی نفسیات پر گہرے زخم لگا رہے ہیں تو آپ کسی لائق نہیں کہ آپ کو وہی رتبہ دیا جائے جو ذمہ داری قبول کرنے والے ماں باپ کا ہے۔ آپ اس رتبے کے اہل نہیں کیونکہ آپ نے ایک شخص جس کا وجود تھا ہی نہیں اس کو وجود میں لا کر ایک مسلسل اذیت میں مبتلا کرنے میں کھل کر کردار ادا کیا ہے۔ آپ جیسوں کے لئے بچہ پیدا کرنا گناہ ہونا چاہیے۔ جرم ہونا چاہیے!

سر۔ میں چاہوں گی کہ آپ بطور ماہر نفسیات اچھی پیرنٹنگ اور ٹاکسک پیرنٹنگ toxic parenting پر بھی بات کریں۔

اس دلچسپ موضوع پر آپ جیسے ماہر کے جواب کی منتظر
مقدس مجید
31مئی 2021

اس سیریز کے دیگر حصےمغربی معاشرے کی مختلف سماجی و سیاسی تحریکیں (12)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments