ہم لوگ کون ہیں؟ ہماری پہچان کیا ہے؟ ہم لوگ کیا ہیں؟


ہم لوگ کون ہیں؟ ہماری پہچان کیا ہے؟ ہم لوگ کیا ہیں؟ یہ کچھ سوالات ہیں جن کے جوابات دینے کی کوشش کرتا ہوں۔

گزشتہ چند دنوں سے سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر چلنے والے لاہور واقعہ نے ہم لوگوں کے کرداروں پر ایک سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے۔ لاہور اقبال باغ میں ایک لڑکی کو سرعام برہنہ کر دیا جاتا ہے۔ ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہو جاتی ہیں۔ عوام کا رد عمل دیکھنے لائق ہوتا ہے۔ ایک دن واقعہ کے حق میں دلائل دیکھنے کو ملے تو دوسرے دن اس کی مخالفت میں ملتے ہیں۔

پاکستانی معاشرے میں ہم لوگ سے مراد میں ”مرد“ ہوں۔ میں اس معاشرے کا کرتا دھرتا ہوں۔ میں مالک ہوں۔ مجھے حق ہے کہ جہاں مرضی آؤں جاؤں۔ میرا حق ہے کہ میں کسی کے ساتھ ناجائز تعلقات رکھوں۔ میں چاہوں تو ساری رات گھر سے باہر رہوں۔ میں چاہوں تو گھر جا کر دوسری ذات جو ’ہم سب‘ سے باہر کی ہے یعنی عورت اس پر حکم چلاؤں۔ میں جب چاہوں اس کا جسم نوچ لوں۔ جب چاہوں اسے زد و کوب کروں۔ جب چاہوں اس کا معاشرتی معاشی اور سماجی استحصال کروں۔ میں کون ہوں میں ’ہم سب‘ ہوں۔

لیکن اس معاشرے میں ’ہم سب‘ سے باہر کی ایک جنس بھی ہے۔ اس کا حق نہیں کہ وہ اپنی مرضی کے کپڑے پہنے۔ اس کا حق نہیں کہ وہ مرضی کی شادی کرے۔ اس کا حق نہیں کہ وہ مرضی کی یونیورسٹی میں جا کر تعلیم حاصل کرے۔ اس کا حق نہیں کہ وہ تفریحی مقام پر جائے اور سیر سپاٹا کر لے۔ اس کا حق نہیں کہ تعلق بہتر نہ چلنے پر توڑ دے۔ اس کا حق نہیں کہ اپنی قسمت کے فیصلے خود کرے۔ اس کا اپنا کوئی تشخص نہیں ہے۔ وہ اپنی مرضی سے جاب نہیں کر سکتی۔ اپنی مرضی سے گھوم نہیں سکتی۔ اس سے ہماری ہم لوگوں کی عزت مشروط ہے۔

زرا گریبان میں جھانکیں دیکھیں کہ ہم اپنے گھر کی عورت کو انسان ہونے کا درجہ دینے سے کیوں قاصر ہیں۔ میں نے کسی کو لاہور واقعہ پر کہتے سنا کہ وہ اکیلے کسی کے ساتھ پارک کیوں گئی تھی جو اس کے ساتھ یہ سب ہوا۔ ذرا سوچیں کہ کیا وجہ ہے کہ ہم اپنے گھر سے باہر نکلنے پر عورت کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ اس کو مخلوط نظام تعلیم میں پڑھنے پر ان سیکیور محسوس کرتے ہیں۔ اصل میں ہم سماجی بھیڑیے ہیں۔ ہماری آنکھوں پر ہوس کی چادر ہے۔ یہاں ہم سے مراد ہم لوگ ہیں اور ہم لوگوں سے کیا مراد ہے وہ اوپر بتا چکا ہوں۔ اس معاشرے میں سارے حقوق ہم لوگوں کے لیے ہیں۔ کسی دوسری ذات کے سارے حقوق ہم سے متصل ہیں۔ اگر لاہور میں یہ واقعہ چار سو مردوں کی موجودگی میں ہوا تو اس میں ہم لوگ بھی ملوث ہیں۔ ہم ہوس پرست معاشرے میں ہیں۔

یاد رکھیے ایک ہجوم بھیڑ چال کی مثال ہوتا ہے اور بھیڑ چال معاشرتی رویوں کا عکس۔ جو ہجوم میں ہوا اگر ہم نے اس کے حق میں یا مخالفت میں دلیل نہیں دی تو ہم لوگ اس میں برابر کے شریک ہیں اور مجھے افسوس ہوتا ہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی میں ان لوگوں کا حصہ ہوں۔

لاہور جو ہوا وہ سراسر غلط تھا۔ یوں تو اس کا الزام تمام ہم لوگ کو نہیں دینا چاہیے لیکن کیا کریں ہم لوگ چلتے بھی تو بھیڑ چال ہیں اور یہی بھیڑ چال ہم لوگوں کا قومی چلن بھی ہے۔ دونوں اطراف سے غلطی ہونے کے باوجود بھی ہم لوگ غلط ہیں تو کھلے دل سے اعتراف کر لیں۔ کھلے دل سے تنقید کر برداشت کریں اور عہد کریں کہ اس ہم لوگ کی کیٹیگری میں صنف نازک کو بھی برابر کا شریک کریں گے تا کہ سماج میں یہ انتشار جلد از جلد ختم ہو جائے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments