کابل جان۔ اللہ کی امان


سامان کلیر کروا کر مسافر لاو نج سے باہر آئے تو کابل ائرپورٹ پر ایک ویرانے کا گمان ہوتا تھا۔ تقریباً نصف درجن امریکی فوجی باہر گشت کر رہے تھے۔ سرمئی آسمان، سرمئی زمین اور سرمئی وردیوں میں ملبوس سرخ و سفید امریکی فوجی یقین جانیں کہ ذرا بھی نظر کو بھلے نا لگے۔ دل کیا کہ گلا ہی دبا دیا جائے۔ یہ اگست 2010 کے اواخر کی ایک صبح تھی۔ پاکستان میں موسم برسات نے سیلاب کی صورتحال پیدا کی ہوئی تھی لیکن افغانستان میں یہ خشک دن تھے۔ ہمیں سیدھا شہر نو میں ہمارے ہوٹل لے جانے کے لیے گاڑی میں بٹھا دیا گیا۔ رستے میں کابل شہر کو کبھی حیرت اور کبھی محبت سے دیکھا۔

بل بورڈز پر پاکستانی مصنوعات کے اشتہارات لیکن فارسی زبان میں، ایک جگہ نادیہ خان اپنے بیٹے کو نیڈو کھلاتی نظر آئی نیچے فارسی میں کچھ درج تھا۔

کابل کی سڑکیں پشاور اور اسلام آباد کا امتزاج لگ رہی تھیں لیکن ٹریفک کا ازدحام نہیں تھا۔ تقریباً ہر دوسری عمارت زیر تعمیر تھی۔ شاید عام انتخابات قریب تھے کہ جابجا ووٹ کی درخواست کرتے امیدواروں کے بینرز لگے ہوئے تھے، سکارف اوڑھے خوبصورت چہرے والی خواتین امیدواروں کی تصاویر سے مزین یہ اشتہارات ایک جدت پسند افغانستان کی کہانی سنا رہے تھے۔

نظروں نے ان نیلے برقعے والی خواتین کو ڈھونڈا جن کا ذکر ”the sewing circles of Herat“ میں ملتا ہے۔ جن کی موجودگی بین الاقوامی میڈیا میں افغانستان کا ایک مستقل حوالہ ہے لیکن ہم نے کل ملا کر محض پانچ خواتین کو دیکھا جو نیلے رنگ کے برقع میں ملبوس تھیں۔ ایک بل بورڈ پر ایک امریکی فوجی کو ایک افغان بزرگ کا ہاتھ عقیدت و احترام سے تھامے دیکھا تو دل نے فوراً کہا کہ سب ڈرامے بازی ہے، یہ سب ڈاکو اور قابض ہیں۔

بعد ازاں جتنے بھی دن کابل میں گزارے افغان شہری خواہ وہ ٹیکسی ڈرائیور ہو یا طالبعلم، دکاندار ہو یا استاد، کھانا پکانے والا ہو یا کھانا کھانے والا کسی کو بھی امریکہ کی موجودگی سے نالاں نا پایا۔ یہ بھی سچ ہے کہ وہ امریکہ کی تعریف میں رطب السان نا تھے مگر طالبان کے ظلم و جبر کا نوحہ ہر ایک زبان پر تھا۔ طالبان نے جس طرح کابل کو نوچا کھسوٹا اس کا گلہ ہر خاص و عام کو تھا۔

2010 میں کابل کا روپیہ پاکستان سے دگنی مالیت کا تھا۔ سب جانتے تھے کہ یہ امریکہ کی موجودگی کا ثمر ہے اور عارضی ہے لیکن مقام مسرت تو تھا۔

ہم نے جامعہ کابل میں سکارف اوڑھے لیکن جینز یا سکرٹ پہنے طالبات میں نجیب اللہ کا افغانستان دیکھا۔ جامعہ میں بہت سے شعبہ جات ابھی تکمیل کے مراحل میں تھے، اقبال آڈیٹوریم کے نام سے ایک کثیر المنزلہ عمارت بھی زیر تعمیر تھی جس کے احاطہ میں لائبریری، علوم مصوری کا ڈپارٹمنٹ اور ایک وسیع آڈیٹوریم شامل تھے۔ 2010 کے کابل میں سرینا ہوٹل سمیت بہت سے پنج ستارا ہوٹلوں کی بنیادیں رکھی جا رہی تھیں۔ شہروں کو آپس میں ملانے کے لیے سڑکیں بن رہی تھیں، کھنڈرات پھر سے عمارات میں ڈھل رہے تھے، چہروں پر آسودگی آ رہی تھی

ٹیلی ویژن پر ہندوستانی ڈرامے فارسی ترجمے کے ساتھ دکھائے جاتے تھے۔ بازار پر رونق تھے جہاں روائتی افغان ملبوسات کے ساتھ ہی دکانوں پر Adidas کے جوتے بھی فروخت ہو رہے تھے۔ یہ کابل پشتون، ہزارہ، ازبک، تاجک، سنی، شیعہ سب کا کابل تھا۔ یہ کابل بنیاد پرست تھا، روایت پسند تھا اور بیک وقت آزاد خیال بھی۔ یہ کابل غیر ملکی تسلط سے نجات بھی چاہتا تھا لیکن پتھر کے زمانے کی طرف لوٹنے سے بھی ڈرتا تھا۔

راقم کی رائے ناقص ہو سکتی ہے، نظریں دھوکا کھا سکتی ہیں لیکن جو کابل میں نے 2010 میں دیکھا وہ ایک رجعت پسند لیکن ترقی پذیر کابل تھا جس میں آگے بڑھنے کی خواہش تھی۔

آج صبح، 2021 میں، پورے گیارہ سال بعد راقم نے فیس بک پر ایک ویڈیو دیکھی جس میں وہی ہوائی اڈہ تھا۔ لیکن منظر یکسر مختلف۔

ایک ہجوم بے کراں تھا جو امریکی طیارے کے ہمراہ اڑ جانا چاہتا تھا۔

یہ گمان یقین میں بدل گیا کہ افغانستان کے لوگوں میں طالبان کا خوف اس قدر غالب ہے کہ پردیسی پردیسی جانا نہیں کے مصداق وہ اس پردیسی کے ساتھ ہی جانا چاہتے ہیں۔

میرے محبوب وطن تیرے مقدر کے خدا، دست اغیار میں قسمت کی عنان چھوڑ گئے
اپنی یک طرفہ سیاست کے تقاضوں کے طفیل، ایک اور بار تجھے نوحہ کناں چھوڑ گئے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments