آپ سب آزاد ہیں


سیاست دان کی تقریر دو قسم کی ہوتی ہے۔

ایک ”سیاسی بیانیہ“ کہلاتی ہے جبکہ دوسری کو ”پالیسی بیانیہ“ کہا جاتا ہے، عموماً سیاسی جدوجہد میں سیاسی قیادت ایک بیانیہ اپناتی ہے، جسے سیاسی بیانیہ کہا جاتا ہے، جو وقت کی نزاکت کے عین مطابق ہوتا ہے، لیکن جب وہی جماعت یا تحریک اقتدار میں آتی ہے، تو اسے سمجھ آتی ہے کہ ملک جلسوں کے بیانات پر نہیں چلایا جا سکتا اس کے لئے پھر پالیسی بیانیہ پیش کیا جاتا ہے، جو پہلے سے قائم سیاسی بیانات سے یکسر مختلف نوعیت کا ہوتا ہے، جس کی وجہ بھی وقت کی نزاکتیں ہی ہوتی ہیں۔

تقسیم سے پہلے قائد اعظم کا بیانیہ اسلام کے مطابق تھا،

جگہ جگہ وہ قرآن اور اسلام کا نام لے کر لوگوں کے دلوں میں گھر کرتے رہے، اسلام کو ایک مکمل ضابطہ حیات اور مسلمانوں کو ایک الگ قوم کے طور پر پیش کرتے رہے ہیں

کیونکہ وہ مذہبی گروہوں کو بھی ساتھ ملا کر چلنے کی خواہش رکھتے تھے، جس کا مقصد یقیناً الگ وطن حاصل کرنا تھا، لیکن وہ بیانیہ ایسا میٹھا بیانیہ تھا کہ قوم آج تک اس نظریے کے لئے استعمال ہو رہی ہے۔

پھر وقت نے حالات تبدیل کیے ، تقسیم ہند ہوئی تو مکمل پالیسی کی ضرورت پڑ گئی، جس میں ”امن“ ہو، کیونکہ پاکستان میں صرف مسلمان آباد نہیں تھے، یہاں دوسرے مذاہب کے ماننے والے بھی رہ رہے تھے، تو تقسیم سے پہلے کی جوشیلی تقاریر کو ایک طرف رکھ کر آب ایک تعصب سے پاک پالیسی کی ضرورت تھی، جس پر سب راضی ہو کر ملک و قوم کی ترقی میں نمایاں کردار ادا کریں۔

”آپ سب آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لئے، آپ سب آزاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانے کے لئے، اور کسی بھی اور عبادت گاہ میں جانے کے لئے، اس مملکت پاکستان میں آپ کا تعلق کسی بھی مذہب، ذات یا عقیدے سے ہو، مملکت کا اس سے کوئی سروکار نہیں“ ،

یہ خطاب گیارہ اگست انیس سو سینتالیس کو نشر ہوا،

جس کے واضح الفاظ چیخ چیخ کر یہ کہ رہے ہیں کہ ہم یعنی اکثریت دوسری اقلیتوں کو تحفظ دیں، چوہدریوں کو کہ رہے ہیں کہ کمی کا کلچر قائد اعظم کی پالیسی پر پورا نہیں اترتا اور مذہبی طور پر فرقہ پرستوں سے قائد کے الفاظ یہ التجا کر رہے ہیں کہ قائد عقیدے یعنی مسلک کی آزادی کے قائل تھے اور مملکت پاکستان سے ہاتھ جوڑ کر قائد کے الفاظ منت کر رہے ہیں کہ آپ کا فرد کے ذاتی معاملات سے کوئی سروکار نہیں اور نہ ہی ہونا چاہیے۔

لیکن آج بھی اس خطاب کو مختلف مکاتب فکر اپنا اپنا سیاق و سباق استعمال کر کے پیش کر رہے ہیں، تاکہ قوم ہمیشہ لڑتی رہے اور بھاشن بیچنے والوں کی اونچی دکان چلتی رہے جس کا پکوان پھیکا ہے پر بک رہا ہے۔

مذہبی طبقہ تو سرے سے یہ خطاب قائد کا خطاب ماننے کو تیار نہیں، ان کا ماننا ہے کہ یہ تو کسی سیکولر ریاست کا بیانیہ ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ مذہبی طبقہ اقلیت کو مذہبی آزادی دینے کے قائل نہیں ہے، حالانکہ اسلام مذہبی آزادی کا قائل ہے، آگر آپ کو میری بات ہضم نہیں ہو رہی تو سندھ میں زبردستی مسلمان کیے گئے، ان ہندؤں سے پوچھ لیں جس کی لڑکیوں سے پھر زبردستی شادی کی جاتی ہے۔

حال ہی میں مندر پر کیا گیا حملہ دیکھ لیں، پشاور میں کچھ عرصہ قبل کا واقعہ دیکھ لیں جس کا سبب محلے کے امام مسجد کی تقریر تھی، مندر کی تعمیر پر حکومت فنڈز جاری کرے تو جو ہنگامے برپا ہوتے ہیں، ذرا ایک نظر انہیں دیکھ لیں، سکھوں کے لئے کرتار پور راہ داری تعمیر کی گئی، اس پر مذہبی طبقے کی زہر شدہ تقاریر اور رویہ دیکھ لیں۔

مسیحی تو ہمارے پاکستان میں تیسرے درجے کے شہری بن کر رہ گئے ہیں، ہندؤں کی تعداد بھی سینتالیس کے بعد کم ہوئی ہے جس میں سب سے بڑی وجہ ہمارے ملا کا نام نہاد انتہا پسندانہ رویہ ہے، مولانا ظفر اللہ خان کے ساتھ قائد کی وفات کے بعد جو کچھ ہوا وہ دیکھ لیں، حالانکہ قائد اعظم کے ان کے بارے میں وہی خیالات تھے جو ایک عام مسلمان کے بارے میں تھے، بلکہ وہ تو قائد کے وزیر تھے، اور وزیر ہونا یہ ثابت کرتا ہے کہ قائد اعظم سیاسی اور مذہبی آزادی کے قائل تھے، کیونکہ وہ خود فرما رہے ہیں کہ مملکت کا کسی کے مذہب یا عقیدے سے کوئی سروکار نہیں ہے، یہ ہر فرد کا ذاتی مسئلہ ہے۔

دوسری طرف قائد اعظم کے اس خطاب سے سیکولر ازم کے داعی بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں، بقول ان کے قائد اعظم پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے، یہ بات کسی لحاظ سے سہی بھی مانی جا سکتی ہے، لیکن یہاں بات صرف ریاست کی حد تک ہی رہے تو ٹھیک ہے، محمد علی جناح ریاست کی حد تک ہی سیکولر تھے، ورنہ بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔

کیونکہ مغربی سوچ کے حامل لوگ پھر ہر حال میں ایک ایسی آزادی کی مانگ کرتے ہیں جو نہ ہمارے جغرافیائی اعتبار سے قابل قبول ہے، نہ ہی معاشرتی لحاظ سے قابل برداشت ہے، یہاں ہر مذہب کا ماننے والا زمینی حقائق کے لحاظ تو مشرقی ہے، ہماری ثقافتی تاریخ ہزاروں سالوں پر محیط ہے، ذاتی زندگی میں فرد جو کرے گا وہ خطے کی ثقافتی پہچان کے مطابق کرے گا، لیکن جب دوسرے خطے یعنی مغرب کی تہذیب نافذ کرنے کے لئے کوئی باہر آئے گا تو ہیجان پیدا ہو گا۔

گیارہ اگست کے خطاب کا ایک اور حصہ بھی ہے، جو کہ عموماً کم ہی عام لوگوں کو سنایا جاتا ہے، یہ حصہ آڈیو کلپس سے بہت ساری جگہوں پر کاٹا گیا ہے، اور کہیں تو سنسر کیا جاتا ہے، کیونکہ دوسرا حصہ قدرے سخت ہے، یقین نہیں آتا تو خود ہی پڑھ لیں۔

”آپ دیکھیں گے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندو ہندو نہیں رہے گے، اور مسلمان مسلمان نہیں رہیں گے، مذہبی معنوں میں نہیں کیونکہ یہ ہر فرد کا ذاتی عقیدہ ہے، بلکہ سیاسی معنوں میں کیونکہ وہ ایک ہی ریاست کے برابر کے شہری ہوں گے“ آب اس بقیہ حصے کو پہلے حصے کے ساتھ جوڑ کر دیکھیں۔

ہندو ہندو نہیں رہیں گے اور مسلمان مسلمان نہیں رہیں گے، یہ جملہ سیاسی معنوں میں ہے، کیونکہ ذاتی زندگی کا مملکت سے کوئی سروکار نہیں ہے، اور مذہب بھی ایک ذاتی چیز ہے، جس میں وہ آزاد ہے،

یہاں ایک اور بات سمجھ میں آتی ہے کہ ملک کے سیاسی معاملات میں آگر آپ مذہب یا عقیدے کو دیکھتے ہیں تو آپ قائد اعظم کے اصولوں سے دوری اختیار کر رہے ہیں، یعنی وزیراعظم، صدر، سینٹ کہیں کسی بھی ادارے میں آگر کسی انسان کو پرکھنا ہے تو وہ میرٹ کے ترازو میں پرکھا جائے، نہ کہ مذہب، رنگ نسل یا عقیدے کی میزان میں تولا جائے، کیونکہ قائد اعظم نے یہ بات طے کر دی ہے کہ سیاسی لحاظ سے وہ ایک ہی ریاست کے برابر کے شہری ہیں۔

آب آپ دیکھ لیں آگر قائد اعظم کے اصول کے خلاف ہو رہا ہے تو یہ پہلے تو اسلام کے اصولوں کا رد ہے اور دوسری جانب قائد اعظم کی حکم عدولی ہے، آب ایک ہی نظر میں قائد اعظم کے خطاب کا پہلا حصہ دوبارہ پڑھ کر دیکھیں اور اپنے اردگرد حالات کا جائزہ لیں کہ کیا ہم مذہبی آزادی دے رہے ہیں؟ یہ یقیناً چبھتا ہوا سوال ہے، کرنے والے کو جان سے بھی مارا جا سکتا ہے، پھر اسی نظر سے یہ دیکھیں کہ ہمارے ارد گرد فقہی یا مسلکی آزادی بھی دی گئی یا نہیں؟ یہ سوال بھی یقیناً چبھ رہا ہو گا۔

لیکن یہ سوال حقیقت ہے، قوم مذہب کے طور پر تقسیم ہے، مذاہب فقہی لحاظ سے تقسیم ہیں، اور ریاست جسے بقول قائد کے وہ مذہب کو سیاست سے دور رکھے گی وہ ملا ازم کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہے، جس میں دوسرے مذاہب کی نمائندگی آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے، جس سے سیاسی برابری کا والا حصہ تو آپ یوں کہ لیں کہ ہم نے قائد کی قبر کے ساتھ دفنا دیا ہے۔

چند حقائق اس خطاب کے بارے میں بڑے دلچسپ ہیں، دائیں ہاتھ کے سیاستدان اور طاقت کے علم برداروں کو یہ حق بات پسند نہیں آئی تھی، اور قائد کی زبان سے تو بالکل بھی پسند نہیں آئی تھی،

خطاب کا ریکارڈ ہر جگہ سے ہٹا دیا گیا، ریڈیو پاکستان کے آرکائیو سے بھی ڈیلیٹ کروا دیا گیا جس کا الزام ایک نام نہاد مذہبی انتہا پسند آمر کے سر لگایا جاتا ہے، مذہبی گروہ تو سرے سے اسے قائد اعظم کا بیان تسلیم ہی نہیں کرتا، وجہ آپ کے سامنے ہے، اگر یہ مان لیا تو اپنا مذہبی بھاشن کیسے بکے گا؟ یہی بھاشن بیچنے کے لئے قرار داد مقاصد منظور کی گئی، جس میں ملا کا ڈر اور خوف کو ملحوظ خاطر رکھا گیا تھا، تاکہ سیاسی کرسی کو مسجد کے ممبر کی سپورٹ دستیاب ہو اور خانقاہوں سے مفت میں ووٹ لئے جا سکیں، گیارہ اگست کے بیان کو اقلیت برادری نے بڑی کوشش کی کہ نصاب کا حصہ بنایا جائے لیکن ہر بار قومی اسمبلی میں بیٹھا ایک فیصد سے بھی کم ملا طبقہ سامنے آ جاتا ہے، جیسے روکنے سے کوئی شے رک جائے گی، یہیں سے تو بغاوت سر اٹھاتی ہے۔

جب یہ ملک ملا ازم سے آزادی حاصل کرے گا تو پھر ہی یہ پالیسی سامنے رکھ کر قوانین بنائے جائیں گے نہیں تو قرار داد مقاصد جس کا مقصد آج تک قوم کو سمجھ ہی نہیں آیا ماتھے پر کالے ٹیکے کی طرح سجا کر پھریں گے کوئی آپ کو روکنے والا نہیں ہو گا کیونکہ وہ قرار داد ملا مافیا کی من پسند ہے اور یہ ایسی حقیقت ہے جسے قوم جھٹلا نہیں سکتی، قرار داد مقاصد جس پیش ہوئی تو ایک اقلیتی رہنما نے کہا تھا ”یہ ملک ملا کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے“ یہ بات ایک آج بھی حقیقت ہے، یہ تو آپ پر منحصر ہے کہ آپ کھلی آنکھ سے دیکھتے ہیں یا وہی تنگ نظری والی آنکھ سے جس سے آپ کو یہ طبقہ نہایت ہی معصوم نظر آئے گا جو میری رائے میں ایسا نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments