کھیل جیت اور تشدد


یہ کافی سال پرانی بات رہی ہو گی۔ میں اپنے ددھیال کے گاؤں، گرمیوں کی تپتی دوپہر، پیپل کے درخت تلے رکھی چارپائی پر دراز تھا۔ چند بچے میرے ارد گرد کھیل رہے تھے۔ وہ دھریک کے درخت سے دھرکونے (کڑوے پھل) توڑ کر ”کلی جوٹا“ کھیل رہے تھے۔ مٹھی میں چار، پانچ، چھ گول پھل دباتے اور مقابل بیٹھے کھلاڑی سے پوچھتے کہ کلی یا جوٹا؟

Even or Odd?

کبھی کوئی ایک ہارتا تو مخالف کو اتنی ہی مقدار میں دھریک کے درخت کے دھرکونے تھما دیتا۔ یہ گولیوں کی مانند دھرکونے نہ بیچے جا سکتے تھے اور نہ کھائے۔ یہ شدید کڑوے ہوتے ہیں۔ یہ محض جیتے یا ہارے جا سکتے تھے۔ جیت اور ہار کا تعلق قیمت سے نہیں ہوتا۔ اس کا تعلق تسکین اور احساس تفاخر سے ہے۔ ان کی آواز سے میری نیند میں خلل تو پیدا ہو رہا تھا مگر طویل عرصے بعد یہ آوازیں، تکرار اور قہقہے سننا نہایت بھلا محسوس ہو رہا تھا۔

ابھی یہ تکرار اور کھیل جاری تھا کہ مجھے ”بارہ ٹینی“ کھیلنے والوں کی آواز محسوس ہوئی۔ یہ قہقہے بکھیرتا دوسرا گروپ تھا۔ ان کے ہاتھوں میں چھوٹے چھوٹے پتھر اور لکڑی کے بارہ ٹکڑے تھے۔ یہ شطرنج کی مانند کھیل زمین پر ہی لائنیں لگا کر کھیلا جاتا تھا۔ چند ہی لمحوں میں وہ اپنا شطرنج سجائے کھیل رہے تھے۔ اردگرد آلتی پالتی مارے بیٹھے بچے بھی اس سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ جہاں کوئی ہلکی چال چلتا، مخالف اس کی گوٹ کو مار دیتا۔ اس کی پتھر یا لکڑی سے بنی گوٹ کو مار کر گھٹنے کے پاس رکھ لیتا۔ کرتے کرتے گیارہ گوٹ ماری جاتیں۔ مخالف لکڑی یا پتھر کی گوٹوں سے نہیں، جیت سے لطف محسوس کرتا تھا۔

اسی دوران کچھ بچیاں بھی دیوار کے ساتھ اردگرد آن بیٹھی تھیں۔ انہوں نے دیوار کے ساتھ لڑکوں سے دور اپنی دنیا بسا لی تھی۔ وہ ہاتھ سے بنی کپڑے کی گڈیاں اور گڈے لئے ایک دوسرے کے ساتھ چپکی بیٹھی قہقہے اڑا رہی تھیں۔ بشری ’کے گڈے کی شادی صغری‘ کی گڈی کے ساتھ ہونے والی تھی۔ بچیوں نے پٹولوں (رنگ برنگے کپڑوں کی کترن) کی صورت بری بھی بنا رکھی تھی۔ مٹی سے بنے برتن بھی رکھے تھے۔ سرکنڈے کو چھیل کر اس سے نکلنے والی نرم لکڑی سے چارپائی بھی بنا رکھی تھی۔

بارات کے کھانے کا اہتمام بھی تھا۔ دکان سے میدے اور چینی کا بنا ”پوڑا“ بھی رکھا گیا تھا جس سے بارات کی تواضع کی جاتی۔ میک اپ کا سامان موجود تھا۔ سرخی، پاؤڈر، ناخن پالش یہ سب لڑکیاں ساتھ لائی تھیں۔ ہر لڑکی اپنے اپنے گھر سے لائی تھی تاکہ سب مل کر کھیل سکیں۔ یہ صرف شادی میں رکھنے کے لئے عارضی طور پر سجایا گیا تھا۔ ایک پرانی سرمہ دانی بھی نظر آ رہی تھی جس کے سرمچو کا کنارہ ٹوٹا ہوا تھا۔ اسی دوران ایک دھاڑ سنائی دی، ”اوہ کڑیو“ چلو ایتھوں۔ وہ سب اپنا اپنا سامان لے کر بھاگیں۔ کسی ایک نے بھی نہ کہا کہ چاچا کھیلنے دیں ناں، بابا بیٹھنے دیں ناں۔ انہیں خود بھی احساس ہوا کہ غلط جگہ کا انتخاب کر بیٹھی ہیں۔ یہ تو لڑکوں کے کھیلنے کی جگہ ہے۔ وہ بھلا یہاں کیسے بیٹھ سکتی تھیں۔

لڑکے بارہ ٹینی کھیل چکے تو اپنے جوتے اتار کر ایک جگہ اکٹھے کیے ، درمیاں میں ایک لکڑی کا کیل نما ٹکڑا زمین میں نصب کر دیا۔ اس کے ساتھ رسی باندھ دی۔ ایک لڑکے نے درمیاں میں رہنا تھا۔ باقی سب نے اس درمیانی جگہ کلے (لکڑی کے نصب کیل) کے پاس رکھے جوتے اٹھانے تھے۔ جوتے اٹھاتے کسی بھی لڑکے کو وہ ہاتھ لگا لیتا تو ہاتھ لگانے والے کی جان چھوٹ جاتی جب کہ جسے ہاتھ لگتا وہ اس رسی اور جوتوں کے ساتھ بندھ جاتا۔ اگر تمام جوتے اٹھا لیے جاتے تو اس درمیانی لڑکے کو آخری جوتے کے اٹھتے ہی بھاگنا ہوتا تھا۔ باقی تمام لڑکے اس پر جوتے برساتے، عقب سے مارتے۔ وہ نہایت تیز بھاگتا اور اتنی دور نکل جاتا کہ سب جوتے اور لڑکے پیچھے رہ جاتے۔ پھوٹتے قہقہوں اور برستے جوتوں کے درمیاں بھاگنے والے کے قہقہے بھی موجود ہوتے تھے۔ جوتے کھا کر بھی وہ ہنستا تھا کیوں کے اس ساتھی بھی ہنس رہے ہوتے تھے۔ لطف اندوز ہوتے تھے۔

میں اٹھ بیٹھا۔ چارپائی سے پاؤں نیچے لٹکائے انہیں دیکھنے لگا۔ وہ تقریباً ہر گھر کے بچے تھے۔ پنجاب کے نارمل گاؤں کے سخت جان بچے۔ سماجی طور پر ایک دوسرے میں کھبے ہوئے بچے۔ ایک دوسرے کے قہقہوں میں بندھے اور بنے ہوئے بچے۔ مجھے امید ہے کہ سندھ بلوچستان، کشمیر گلگت بلتستان اور خیبر پختونستان کے بچے بھی ایسے ہی آپس میں جڑے ہوئے تھے۔ سب اکٹھے کھیلتے تھے، ایک دوسرے کو محسوس اور برداشت کرتے تھے۔ ان کے پاس ایسے ہی، ان سے ملتے جلتے کھیل تھے۔

جسمانی طور پر مضبوط بننے کے لیے بھی متعدد سرگرمیاں تھیں۔ وہ ویڈیو گیم کے ذریعے خلا میں جا کر تو نہیں کھیل پاتے تھے مگر وہ زمین کے کھیلوں سے ہی ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے۔ وہ کھیل کا لطف بے مول دھریک کے درخت کے ”دھرکونوں“ سے بھی حاصل کر لیتے تھے۔ وہ سینکڑوں، ہزاروں فائر کر کے، ویڈیو گیم میں سینکڑوں لوگوں کو مار کر کھیل کا لطف حاصل نہ کر پاتے تھے۔ ان کی روٹی پر چیونٹی چڑھ جاتی تھی تو بھی اسے پھونک مار کر ہٹا دیتے تھے اسے مارنے کی ضرورت یا اس چیونٹی کو مار دینے کے لطف کے عادی نہ تھے۔ ان کے لئے کھیل، کھیل ہی رہتا تھا۔ جیت اصولوں سے جڑی ہوتی تھی، عزت اور انا کا اس ہار جیت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ وہاں تو کھیل میں جوتے کھا کر بھی ہنسا جاتا تھا۔ اس کھیل کو ”باندر کلا“ کہا جاتا تھا۔ باندر کا مطلب بندر اور کلا کا مطلب کیل۔

آج کا کھیل ہے باجوں سے شور پیدا کرنا۔ جو جتنا زیادہ بدتمیزی پھیلائے کا اتنا ہی لطف اندوز ہو گا۔ جس کے موٹر سائیکل کی جتنی آواز اور رفتار ہو گی اتنا ہی اسے لطافت محسوس ہوگی۔ ویڈیو گیم میں جتنے زیادہ فائر اور اموات ہوں گیں اتنی ہی جیت پکی ہو گی۔ اسی طرح ویڈیو گیم میں جتنی زیادہ گاڑیاں سپیڈ سے چلیں گیں اور برابر والی گاڑی کو حادثات کا شکار کریں گیں، اتنی ہی فتح کا احساس آپ کو لذت دے گا۔ بچے کے لہو اور روح کو گرمائے گا۔

جب ہم نے اپنے کھیل ہی بدل لئے، کھیل کی لطافت اور لذت ہی بدل لی، فلاسفی ہی تبدیل کر لی تو رکشے میں جاتی پرائی بیٹی کا بوسہ لے لینا کون سی اچنبھے کی بات ہے؟ یہ چھیڑ خانی تو اب ایک کھیل ہے۔ یہ تو ہماری سڑکوں پر اور یوم آزادی کے روز ہو رہا ہے۔ سکول جاتی بچیوں پر آوازے کسنا بھی تو ایک عام کھیل ہے۔ کھلاڑی کو تو لذت سے غرض ہے۔ یاد رکھیں معاشرہ فلاسفی سے چلتا ہے۔ معاشرتی سرگرمیاں، فلاسفی کی طاقت سے انسان کے قابو میں رہتی ہیں ورنہ انسان شتر بے مہار بن جاتا ہے۔

اسے جب کھیل میں تشدد، استحصال، جبر اور دہشت کا عنصر چاہیے ہو تو اس کا نتیجہ گھر سے مزدوری، نوکری، خریداری یا مجبوری سے نکلی بیٹیاں برداشت کرتی ہیں۔ خدارا بچوں کے کھیل درست کریں۔ ان کی عادات بھی درست ہو جائیں گیں۔ انہیں بچپن کے وقت میں بچے ہی رہنے دیں انہیں قاتل، متشدد ڈرائیور یا بم پھینکتا ہوا ”ہواباز“ نہ بنائیں۔ انہیں کھیل کی لذت، جیت کی اصلیت، ساتھ جڑنے کی چاہت اور معاشرے کی اکائی رہنا سکھائیں۔ انہیں احترام آدمیت کا درس دیں۔ اگر یہ بچے باز نہ آئے تو میرا یقین ہے کہ وقت کا تھپیڑا نہ والدین کو بخشے گا اور نہ ہی ایسے متشدد کھلاڑیوں کو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments