سب مرد بھیڑیے ہیں؟


ایک طوطا اور طوطی ٹہلتے، پیار محبت کی باتیں کرر ہے تھے کہ ایک گاؤں سے ان کا گزر ہوا۔ طوطے نے تباہ حال گاؤں کو دیکھ کر کہا ”لگتا ہے یہاں کسی الو کا گزر ہوا ہے“ ۔ یہ کہنا تھا کہ قریب کھڑے الو نے سن لیا اور وہ غصے میں طوطی کو اٹھا لے گیا۔ معاملہ قاضی کے پاس پہنچا تو سب عدالت میں جمع ہوئے۔ عدالت میں الو نے طوطی پر اپنا حق جتایا تو قاضی نے طوطے کی سنے بغیر طوطی الو کے حوالے کر دی۔ عدالت سے باہر آنا تھا کہ الو طوطے کے پاس آیا اور کہا کہ مجھے تمہاری طوطی نہیں چاہیے میں تو بس یہ بتانا چاہتا تھا کہ تباہی میری وجہ سے نہیں معاشرے میں عدل و انصاف کے نہ ہونے کے باعث آئی ہے۔

یوں الو نے طوطی واپس کی اور اپنے راہ کو چل پڑا۔ جب جب ہمیں اپنے پیارے ملک پاکستان میں زیادتی اور بدفعلی کے واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں تو یہی سننے کو ملتا ہے کہ سب مرد ایک جیسے ہوتے ہیں اور کبھی کبھی تو یہ تک کہہ دیا جاتا ہے کہ سب مرد بھیڑیے ہیں۔ کیا سچ میں سب مرد ایک جیسے ہوتے ہیں؟ جی بالکل بھی نہیں۔ حال ہی میں علامہ اقبال گریٹر پارک میں ہونے والے نازیبا واقعے میں 400 سے زائد افراد ایک خاتون کو ہراساں کرتے ہیں جو درندگی کی بدترین مثالوں میں سے ایک ہے۔

کوئی بھی غیرت مند شہری اس واقعے میں درندوں کے کردار کو کسی صورت سہارا نہیں دے سکتا۔ مگر کیا یہ 400 افراد پاکستان میں موجود تمام مردوں کی نمائندگی کرتے ہیں؟ میرا ماننا یہ ہے کہ اگر ایک خاتون برہنہ بھی کھڑی ہوتو کسی مرد کو حق نہیں کہ اسے ہراساں کرے۔ تاہم خاتون نے ٹک ٹاک پر جسم کی نمائش کرتے ہوئے 400 مردوں کو نہیں بلکہ 400 تماشائیوں کو مینار پاکستان میں اکٹھا کیا اور تماشائی کا نہ کوئی جنس ہوتا ہے اور نہ شناخت۔

تماشائی موقع پر ہی اپنی ہوس پوری کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے بار ہا ٹک ٹاک بند کرانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ تاہم ملکی نظام اس قدر خراب ہے کہ وزیراعظم بھی اس کوشش میں ناکام رہے۔ اس وقت مسلمان اسلام اور مغربی کلچر کے درمیان ہی کہیں راستہ بھٹک گیا ہے۔ جب بھی کوئی نازیبا واقعہ پیش آتا ہے تو کہا جاتا ہے مرد تو ایک جیسے ہوتے ہیں۔ مینار پاکستان میں جن 400 درندہ صفت افراد نے خاتون کو ہراساں کیا ان کو مرد تو دور انسان تصور کرنا بھی غلط ہوگا۔

مرد تو وہ ہے جو مجبوری میں گھر سے نکلی لڑکی کے لئے آسانیاں پیدا کرتا ہے اور ملکی ترقی میں خواتین کے کردار کو بڑھانے کا خواہاں ہے۔ مرد تو جنسی زیادتی کے واقعات میں سخت سزاؤں کا بھی حامی ہے تاہم میرا جسم میری مرضی کے لئے کام کرنے والی سول سوسائٹیز ہی ان سزاؤں کے خلاف کھڑی نظر آتی ہیں۔ اوپر سنائی گئی کہانی میں الو کا کردار مردوں سے جڑتا ہے جو صرف اپنے نام سے بدنام ہیں۔ اصل ذمہ دار تو ہمارا نظام ہے جو مجرموں کو سخت سزائیں دینے سے قاصر اور بے حیائی کو روکنے میں ناکام ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments