جنسی درندگی، غیر مہذب سماج اور خواتین کے تحفظ کا سوال؟


لاہور میں محرم الحرام کے مقدس ماہ میں ملک کی 75ویں جشن آزادی کے موقع مینار پاکستان کے اقبال پارک میں عائشہ اکرم کے ساتھ جو وحشت ہوئی ہے اس کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔ ساتھ میں لاہور شہر کی سڑکوں پر جو خواتین کے ساتھ نازیبا حرکات ہوئی ہیں ان کے ساتھ جنسی ہراسانی کے واقعات رونما ہوئے ہیں یقین جانیئے کہ ہمارا سر شرم سے جھک گیا ہے۔ عائشہ کی باتیں سن کر ایسے لگتا ہے کہ یہ ملک وحشت کی چکی میں پھنس گیا ہے۔

لاہور شہر میں سوشل میڈیا پر دیکھی گئی کلپس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح بچیوں کو جنسی طور پر سرعام تذلیل کا نشانہ بنایا گیا ہے اس پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔ صرف لاہور ہی کیوں پورا ملک وحشت کی بھینٹ چڑھ گیا ہے۔ بگڑی ہوئی نسل قوم کے لئے ناسور بن چکی ہے۔ 14 اگست کو جو کچھ اس مرتبہ لاہور میں ہوا ہے وہ پچھلے ایک ڈیڑھ دہائی سے سکھر میں ہوتا ہوا آریا ہے۔ فیملیز کے سامنے جوان لڑکیوں کو برہنہ کرنے کے واقعات بھی ہو چکے ہیں۔

16 سال پہلے نجی اسکول کی ایک لیڈی پرنسپل نے بتایا کہ اس کی دوست جو باہر ممالک میں رہتی ہیں وہ پاکستان گھومنے آئی۔ 14 اگست کو سکھر میں اس مہمان خاتون کی جوان بیٹی کے ساتھ جو کچھ لب مہران پارک کے گیٹ پر ہوا بیان نہیں کیا جا سکتا ہے۔ سکھر بند روڈ پر اوباش نوجوانوں نے 12 سال قبل 14 اگست پر ایک خاتون کی قمیص تک پھاڑ دی، جسم تک برہنہ ہو گیا۔ وہاں موجود ایک دوست نے اپنی قمیص اتار کر اسے پہنا دی۔ اس کے علاوہ بھی 14 اگست کو کئی مرتبہ ایسے واقعات رکارڈ ہو چکے ہیں آزادی کا دن مناتے ہوئے شراب میں دھت اوباش نوجوان اس گری ہوئی حرکت میں ملوث ہوتے ہیں۔

اس مرتبہ محرم الحرام کی وجہ سے ہلا گلا نہی ہوا اگلے سال جو سکھر میں ہوگا وہ بھی اب کے سامنے ہوگا۔ مگر سکھر میں 18 اگست کو ایک واقعہ پیش آیا ہے۔ لاڑکانہ کے ایک نوجوان کو ساتھی نوجوانوں نے نجی ہوٹل میں ملاقات کے لئے بلایا وہاں اسے شراب پلائی اور ساتھ میں آئس اور چرس بھی پی گئی۔ جنسی زیادتی کے واقعہ نے نوجوان کی جان لے لی ہے۔ ہم جنس پسند اور منشیات فروش گروہ 6 نوجوانوں پر مشتمل تھا تین دن تک سکھر کے ایک ہوٹل میں ٹھہرے اور نشہ کیا اور جنسی زیادتی بھی کی گئی۔

جس سے ایک مہمان نوجوان کی جان چلی گئی۔ پولیس کے مطابق نوجوان نے اپنے بھائی کو میسج کیا کہ اس کے ساتھ دھوکا ہوا ہے اس کی جان بچائی جائے۔ یہ سب کچھ اسی اسلامیہ جمہوریہ پاکستان میں ہو رہا ہے۔ بدقسمتی سے ملک کے چاروں صوبوں کی نسبت سندھ میں خاص طور پر سکھر اور لاڑکانہ ڈویژن میں خواتین اور بچوں پر جنسی زیادتی، تشدد اور قتل کے واقعات میں میں کمی آنے کے بجائے اضافہ ہو رہا ہے جو کہ پریشان کن صورتحال ہے۔ سکھر اور لاڑکانہ ڈویژن امن امان کے حوالے سے پہلے کافی متاثر ہے۔

ہم سب میں پچھلے کالم میں سال بھر کے اور ماہانہ کے ساتھ چھ ماہی اور سہ ماہی قتل و غارت، اغوا برائے تاوان سمیت ڈکیتی کی وارداتوں کی تفصیل اعداد و شمار دے چکے ہیں۔ مگر خواتین اور بچوں کے قتل میں اضافہ سمجھ سے باہر ہے۔ جنگی اصول بھی ہوتے ہیں کہ بچوں اور خواتین کو ہاتھ تک نہی لگایا جاتا۔ دو روز میں خیرپور کے علاقے ٹنڈو مستی تھانے کے حدود میں ملزم دھنی بخش وسان نے اپنی بیوی رشیدہ وسان کو بھائی کے ساتھ مل کر ڈنڈوں اور اینٹوں سے حملہ کر کے بیدردی سے قتل کر دیا۔

ملزم کے لئے بتایا جاتا ہے کہ وہ پہلے ہی کرمنل تھا اس کی دو شادیاں تھی۔ پہلی بیوی کو بھی مارنے کی کوشش کر رہا تھا اس نے جان بچا کر کورٹ پہنچ گئی اور طلاق لے لی۔ پہلے بھی قتل کے مقدمات میں پولیس کو مطلوب تھے۔ جوان بچوں کی ماں کو بیدردی سے قتل کرنے والے ملزم دھنی بخش کو پولیس 50 گھنٹے گزرنے کے باوجود گرفتار نہ کر سکی ہے۔ رشیدہ وسان کے قتل کی طرح کے واقعات سندھ میں روز کا معمول ہیں۔ کوئی نہ ایکشن لیتا ہے نہ نوٹس۔

ان قتل کی اکثریت سکھر اور لاڑکانہ ڈویژن میں مختلف مقامات پر ہوتی ہے۔ جہاں پر وڈیروں، جاگیرداروں، سرداروں اور پولیس کا راج ہے۔ حکومت کسی کی بھی ہو وہی با اثر افراد ہر حکومت کا حصہ ہوتے ہیں۔ غیرت کے نام پر قتل ہونے والے افراد کا تعداد بھی کم نہی ہے۔ خواتین کو وراثت ملکیت سے حصہ مانگنے پر سیاہ کاری کا الزام لگا کر مار دیا جاتا ہے۔ روٹی نہ ملنے کھانے میں نمک زیادہ ڈالنے پر بھی خواتین کو قتل ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔

سال 2020 میں سندھ میں کارو کاری (سیاہ کاری) غیرت کے نام پر 98 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا جس میں اکثریت خواتین کی تھی۔ سندھ میں خواتین کے حقوق اور تحفظ کے لئے کام کرنے والی سماجی تنظیم سندھ سھائی آرگنائزیشن کی چیئرپرسن ڈاکٹر عائشہ دھاریجو نے اپنی چھ ماہی اعداد و شمار بتاتے ہوئے کہا کہ جنوری 2021 سے جون تک 91 افراد کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا ہے، جن میں 66 خواتین اور 25 مرد شامل ہیں۔ یہ قتل سندھ کی موجودہ صورتحال کے حوالے سوالیہ نشان ہے۔

کشمور کندھ کوٹ ضلع میں 13 خواتین اور تین مردوں سمیت 16 افراد کو قتل کیا گیا۔ جیکب آباد میں 13 مرد و خواتین کو قتل موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ شکار پور میں 9 خواتین سمیت 10 افراد کو قتل کر دیا گیا۔ سکھر میں 5 خواتین اور چار مردوں سمیت 9 افراد کو موت کی نیند سلا دیا گیا، گھوٹکی میں 7 خواتین کو قتل کر دیا گیا، اسی طرح لاڑکانہ میں 6، خیرپور میں 5 اور دیگر اضلاع میں 25 مرد و خواتین سمیت مجموعی طور پر 91 خواتین و مردوں کو بیدردی سے قتل کیا گیا ہے۔

بدقسمتی سے کہنا پڑتا ہے کہ کشمور کندھ کوٹ، شکارپور، گھوٹکی اور سکھر کے کچے میں 6 خواتین کو بے دردی سے قتل کرنے کے بعد لاشوں کو دریائے سندھ میں بہایا گیا ہے۔ پولیس کی عدم دلچسپی کے باعث نہ ہی تو ملزمان گرفتار کیے گئے ہیں نہ ہی نعشوں کا کوئی پتا چلا ہے اور گھوٹکی کے علاقے داد لغاری میں ایک خاتون کو زندہ دفنانے کا انکشاف ہوا ہے لیکن گھوٹکی پولیس کی عدم دلچسپی کے باعث ابھی تک اس خاتون کا بھی پتا نہیں لگ سکا ہے۔

حیدرآباد کے علاقے بیراج کالونی میں ملزم عمیر میمن نے اپنی بیوی ایم بی اے پاس چار بچوں کی ماں قرتہ العین عرف عینی بلوچ کو شراب پی کر نشے کی حالت میں اپنی بیگم کو کمرے میں لے کر فل آواز میں گانا چلا کر کر بیگم کو ڈنڈوں سے مارنا شروع کر دیا۔ اس کی چیخیں معصوم بچے سن رہے تھے اور دروازہ کھٹ کھٹا رہے تھے۔ جب تک دروازہ کھلا ان کی ماں قرہ العین مر چکی تھی۔ سوشل میڈیا پر مہم چلی تو پولیس نے ملزم کو گرفتار کر لیا ہے۔

خیرپور کے علاقے گمبٹ کے نواحی گاؤں کھڑا سے تعلق رکھنے والی لڑکی روبینہ اجن کو درگاہ سے نامعلوم افراد نے اغوا کیا اور اجتماعی طور پر جنسی درندگی کا نشانہ بنایا۔ اور بعد میں قتل کر کے ایک نہر میں لاش کو پھینک دیا گیا۔ آج تک نہ تو ملزم گرفتار ہو سکے ہیں اور نہ ہی کیس کی تفتیش آگے بڑھ سکی ہے۔ روبینہ اجن کی بوڑھی ماں اور جوان بھائی انصاف کے لئے سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں مگر کوئی آواز میں اپنی آواز شامل نہیں کر رہا۔

کشمور کے علاقے میں ملزم رشید بنگوار نے شادی کی پہلی رات بیوی صغراں کو قتل کر کے لاش دریا میں پھینک دیا گیا ہے، صغری کی لاش نہیں مل سکی ہے۔ مقتولہ کے ورثا دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں، پولیس ملزمان کو گرفتار کرنے سے قاصر ہے۔ عالمی وبا کرونا وائرس کے باعث جہاں پوری دنیا بند تھی اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے سندھ میں اتنے خواتین و مردوں کو قتل کیا گیا ہے۔ یہ سب کچھ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کی چھتری تلے ہو رہا ہے جو کہ سندھ سرکار اور سندھ پولیس کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔

ہمارے ملک میں خواتین کے حقوق اور ان کے تحفظ کے لئے قوانین تو بنائے جاتے ہیں لیکن ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ غیرت کے نام پر کارو کاری قتل کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے، ہم سب کو مل کر سیاہ کاری قتل عام کی روک تھام کے لئے جدوجہد کرنا ہوگی تاکہ خواتین میں پائی جانے والی بے چینی و مایوسی اور عدم تحفظ والی فضا کو روکا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments