سرد رت کی بارش اور مضافات کا دُکھ


’ سردیوں کی نہایت مدہم رفتار سے رِم جھم بارش ۔ انسان اندر ہی اندر سکڑتا چلا جاتا ہے ۔ گرم لحاف میں لپٹے لپٹے پرانے زخموں کے ٹانکے کھلنے لگتے ہیں ۔ یادوں کے عطر دان سے خوشبو کے مرغولے اٹھتے ہیں اور چار سُو پھیلتے چلے جاتے ہیں ۔ باہر برستی بارش کھڑکی کا کوئی دریچہ کھول کر اندر آ جاتی ہے اور دل کے دالان میں بھی رم جھم شروع ہو جاتی ہے‘ ….یہ جناب عرفان صدیقی کی ایک خوبصورت تحریر کا اقتباس ہے ۔ دسمبر جنوری کی جھڑی میں ہم دیہاتیوں کے جذبات و احساسات بھی کچھ اسی طرح رومانٹک سے ہو جاتے ہیں لیکن مصیبت یہ ہے کہ جب لحاف کی دنیا سے نکل کر کام کی دنیا میں جانا پڑے تو چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں۔ ٹمبر مافیا نے جلانے کے لیے لکڑی چھوڑی کوئی نہیں اور سرد رُت کی رم جھم میں برفانی ہواﺅں سے ہمارے جسمانی عناصر کے ظہور ِ ترتیب کو شدید خطرات لاحق ہو جاتے ہیں ۔
اس بار جنوری ایسا یخ بستہ موسم لایا ہے کہ صابر و مصلی یاد آ گیا۔ سردیوں کی جھڑی میں کانپتا آگ کے الاﺅ کے پاس آ بیٹھا تو اپنے برف جیسے ہاتھ تاپتے ہوئے حسرت سے بولا ’یا خالق! اگلے جہان بھی آگ ہی دینا ‘….اگر آئندہ بھی ٹھنڈ پروگرام کی یہی صورت اور بجلی و گیس کا موجودہ مشکوک چال چلن برقرار رہا تو شعرا محبوب کے ساتھ ساتھ ان محکموں کو بھی درد مندانہ سندیسے بھیجیں گے کہ”اسے کہنا جنوری آ گیا ہے ‘….ابھی ابھی ہم نے کانپتے ہاتھوں اور بجتے دانتوں کی نشاط انگیز کیفیت میں ایک نصیحت آموز ایس ایم ایس پڑھا ہے ۔ جو سردی کے مارے ”شاعر“ نے فرازکی زمین میں گہرا ہل چلا کر تخلیق کیا ہے کہ :
اس جاڑے میں ڈبل لباس پہن لو فراز
سردی گھٹتی ہے، جرابیں جو جرابوں میں ملیں
اس کھلی فضا میں ہم مضافاتیوں کی زندگی کھلی کتاب کی مانند ہے مگر اس کتاب سے سردی اور گرمی سے بچاﺅ سمیت کئی صفحات پھٹے ہوئے ہیں ۔ یہاں تاحد نظر ’سنٹرل کولنگ سسٹم ‘ نظر آتا ہے ۔ شہروں میں تو گھر اور عمارتیں محفوظ ہیں مگر ہم ستر فیصد صابرو مصلی یعنی ملک کی دیہی آبادی سردی سے تحفظ نامی کسی بلا سے آشنا نہیں ۔ گیس نے ابھی اِدھر کا رُخ نہیں کیا اور بجلی بھی خواجہ میر درد کے دل کی طرح ’ہر چند کہ یاں ہے ،یاں نہیں ہے ‘ کی مثل ہی سمجھئے ۔ ایسے دل نشیں ماحول میں چار سو پھیلے اس سنٹرل کولنگ سسٹم نے ہماری ہڈیوں میں ایسا گودا جمایا ہے کہ ہم لوگ گرمیوں کی اذیت بھول گئے ہیں ، جب ’دن کا اجالا آگ لگائے ، یہ رات نہ کاٹی جائے رے ‘ کی کیف آفریں کیفیت طاری ہوتی ہے ۔ گویا دن بھر پسینے میں شرابور اور رات بھر مچھروں سے جنگ ۔
آپ اہل شہر کے نزدیک کھلی آب و ہوا صحت کے لیے اچھی چیز ہے لیکن ہمارے خیال میں یہ اتنی بھی کھلی ڈلی نہیں ہونی چاہیے کہ گرمیوں میں ’کول پروف ‘ اور سردیوں میں ’ہیٹ پروف‘ ہو جائے ۔ مراد یہ ہے کہ بجلی و گیس اور دیگر بنیادی سہولتوں پر تھوڑا بہت ہم اہل دیہات کا بھی حق ہونا چاہیے ۔ ہم آزادی اظہار کے متوالے بلاگر نہیں لیکن لاغر سی اس آزادی کے جرم میں جان کی امان پائیں تو عرض کریں کہ خدا کی اس سر زمین پر اب تک تو ہمارے پاس موسم کی سختیاں سہنے کے صدیوں پرانے نسخے ہی کار آمد ہیں کہ ہم گرمیوں میں ’ پانی پرست ‘ اور سردیوں میں ’آتش پرست‘ ہوجاتے ہیں۔ اگر یقین نہ آئے تو تشریف لائیے اور دیکھئے کہ ہم جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے کیسے کوشاں ہیں؟ گرمیوں میں باہر بھی آگ اور کمرے میں تنور۔ سردیوں میں باہر بھی ہڈی چیر ٹھنڈ اور کمرے بھی ریفریجریٹرز ۔ ان بارانی اور پہاڑی وادیوں میں کوئی بچاﺅ نہیں ، دن بھر لُو کے بے رحم تھپیڑے یا برفانی ہوائیں اور شب کو روشنی کے لیے چاند کی مدہم لو یا گھپ اندھیری رات، واہ مالک تیری تقسیم ۔
تو ہے اِک شہر ، تجھے کیا معلوم
کیسا ہوتا ہے مضافات کا دُکھ
البتہ ایک ایڈوانٹج ہمیں ضرورت حاصل ہے یہاں نوبیاہتا جوڑے بند کمروں میں گیس ہیٹر کی گیس بھر جانے سے کبھی نہیں مرتے ۔ وہ کوئلوں کی انگیٹھی کی گیس کمرے میں جمع ہونے کے طفیل یہ رسم ادا کرتے ہیں ۔ البتہ یہ بات تحقیق طلب ہے کہ کمروں میں گیس بھرتی کیوں ہے ؟ شاید یہ معاشرے میں فرسٹریشن کی طرح ہے ۔ جب ایگزاسٹ کی سہولت نہ ہو تو معاشرے میں فرسٹریشن اور کمروں میں گیس بھر ہی جاتی ہے ۔خیر چھوڑیں ، ہم اپنے موضوع پر ہی رہیں تو بہتر ہے کہ ہم حیران ہیں کہ ہمارے بڑے کتنے با ہمت لوگ تھے جو سردیوں کی بارش میں بھی ڈھور ڈنگروں کی دیکھ بھال اور کھیتی باڑی کے کام جاری رکھتے تھے ۔ لباس بھی ہوادار یعنی فقط کرتہ اور تہمند ۔ بنیان نہ سویٹر ۔ جراب نہ بوٹ۔ سرد رُت کی جھڑی میں ان کے کچے کوٹھوں کی چھتیں ٹپ ٹپ ٹپکتی تھیں اور وہ کچی مٹی کے فرش بچانے کی خاطر کمروں میں جا بجا برتن رکھتے تو جلترنگ سی بج اٹھتی ۔ اسی پر سکون ماحول میں وہ راتیں بسر کرتے تھے ۔ گاہے بارش سے کوئی چھت گر بھی جاتی اور وہ اس میں چپ چاپ دب بھی جاتے تھے۔ ایسے میں وہ بارش تھمنے کی دعائیں مانگتے اور خشک سالی میں فصلوں کے لیے پھر سے بارانِ رحمت کی التجائیں کرتے ۔ بارانی علاقوں میں فصلوں کا انحصار تو خیر اب بھی بارش پر ہے ۔ اس دفعہ بارشیں دیر سے ہوئی ہیں اور ہم لوگ ابھی سے گندم کی فصل کے آئندہ سیزن میں متوقع نقصانات کے تخمینے لگا رہے ہیں۔
اسیں موسم کچے عشق دے
ساڈی دھپ بنے نہ چھاں
ساڈے متھے بھرے لکیر دے
ساڈی قسمت مول نہ تھاں
ساڈے لگن روز عدالتاں
سانوں پے جائے روز تریک
اسیں جمدیاں نال گھابرے
اسیں قسمت نال خفا
کدی پتھراں دے وچ کھیڈدے
کدی ٹردے دھوڑ اُڈا
اسیں بھولے وانگ کبوتراں
اسیں پاگل وانگ ہوا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments