صحافی کیوں بدنام ہوئے؟


صحافی کے لفظ کے ساتھ ہی ایک بحث کا آغاز ہو جاتا ہے جس کا اختتام نہ آج تک ہوا اور نہ مستقبل میں ایسا ممکن ہے کسی محفل میں اگر ایک بھی صحافی موجود ہو تو وہاں پر مختلف نظریہ کے لوگ صحافی کے خیالات اور ان پر مثبت یا پھر منفی گفتگو کریں گے۔ پہلے تو محفل میں موجود صحافی خود کو ٹارزن سمجھے گا لیکن جب گفتگو تنقید میں تبدیل ہو گی تو اس کی حالت قابل رحم ہو جاتی ہے۔ صحافی کو ایسی صورتحال کا سامنا کیوں کرنا پڑتا ہے اس پر غور کرنے کی اشد ضرورت ہے ورنہ ایک وقت ایسا بھی قریب ہے کہ صحافی کی کسی محفل میں موجودگی باقی سب کے لیے ناگوار ہو۔

سب سے پہلے تو اس بات کا خیال رہے کہ صحافت کے شعبے کی عظمت اور اس کی عزت پر کوئی دو رائے نہیں صحافت کا شعبہ کسی بھی ملک کی سماجی، سیاسی اور معاشی ترقی کو نمایاں کرنے میں اہم مقام رکھتا ہے شعبہ صحافت کے باعث ہی دنیا میں کسی بھی ملک کا تشخص بہتر ہوتا ہے اور اگر صحافت زنجیروں میں جکڑ دی جائے تو حکمران کتنا بھی صالح ہو اس کی کارکردگی مایوس کن ہی ہو گی۔ یہ بھی سوچ مناسب نہیں کہ شعبہ صحافت حکمرانوں کو تنگ نظری سے ہی دیکھتا ہے۔

دنیا میں اس شعبے سے ایسے لوگ منسلک رہے جن کا طوطی بولتا تھا ان کے تجزیے، خبریں اور فیچر ایسا انقلاب برپا کرتے رہے ہیں کہ پوری دنیا کے نظریے کی سمت ہی تبدیل ہو گئی اور یہ تب ہی ممکن ہو جب شعبہ صحافت کی باگ ڈور ایسے افراد کے ہاتھوں میں تھی جو اس کی افادیت سے اشنا تھے۔ دنیا کے کسی بھی انقلاب کا مرکزی ستون ہمیشہ صحافت اور اس سے جڑے وہ عظیم لوگ تھے جو اس صحافت کے اندر چھپی روح پر نظر رکھتے تھے۔ تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ صحافت بھی روحانیت کی ایک شکل ہے جس نے اپنے مثبت قول و فعل سے اس مقام کو پایا اس نے کئی اقوام کی تقدیر میں تبدیلی میں اہم کردار ادا کیا۔

یہ سب لکھنے کا مقصد اتنا سا ہے کہ ہمیں اس موضوع پر بحث کے لیے صحافت اور اس کے ساتھ جڑے ہوئے صحافی کو الگ الگ دیکھنا چاہیے کسی صحافی کے ذاتی فعل کو لے کر صحافت پر کیچڑ اچھالنا کسی طور بھی مناسب نہیں۔ اب یہ پرکھنے کی ضرورت ہے کہ صحافی بدنام کیوں ہوئے کیا اس کی وجوہات معاشی ہیں یا مثبت شعور کی کمی ہے جیسا کہ پہلے ہی عرض کر چکا کہ صحافت روحانیت کا ایک جز ہے جو اس کے درجے کو نہ پہچان سکا وہ ناکام رہا اس کے مالی حالات تو بہتر ہو گئے لیکن عزت کے معاملے میں اس کا کردار داغدار رہا۔

یہ ممکن نہیں کہ اپ صحافت کو اپنے ذاتی مفاد کے لیے استعمال کریں اور اپ کو عزت بھی ملے جس نے صحافت کے بنیادی اصولوں سے انحراف کیا وہ کسی بھی مرتبے پر ہو عزت و احترام سے محروم رہا۔ یہ سب لکھتے ہوئے بہت سے چہرے نظروں کے سامنے سے گزر رہے ہیں لیکن ایسے افراد کا نام بطور صحافی لکھنا بھی گناہ کے زمرے میں سمجھتا ہوں اور نہ میرا یہ کام ہے کہ میں کسی کے کردار پر بحث کروں نہ ہی یہ اس تحریر کو قلم بند کرنے کا مقصد ہے۔

نہ ہی میں جج ہوں جو کسی کے اچھے یا برے ہونے کا سرٹیفکیٹ جاری کروں میرا مقصد صرف اتنا سا ہے کہ صحافی بدنام کیوں ہوئے اس کا تدارک کرنا ہے۔ سیکھنے کے عمل سے گزرتا ہوا صحافی ہونے کے ناتے کہوں گا کہ مثبت سوچ ایک اچھے صحافی کی عزت کا پہلا جز ہے۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ منفی خبر ہی شہرت پاتی ہے اور ایسی خبروں سے ہی بھونچال پیدا ہوتا ہے اگر ایسی خبروں کا جائزہ لیں تو ان خبروں کی زندگی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے اور اس کا نتیجہ خبر جاری کرنے والے صحافی کی بدنامی پر ختم ہوتا ہے۔

آج کے دور میں سمجھا جاتا ہے کہ خبر حاصل کرنے کے لیے بڑے عہدوں پر فائز شخصیات سے تعلقات بنانا ضروری ہے یہی وہ نقطہ ہے جہاں سے صحافی کا نظریہ تبدیل ہونا شروع ہوتا ہے ایک بات طے ہے کہ کوئی بھی با اثر شخص کسی بھی صحافی کو خبر دیتے ہوئے اپنے مفادات کا تحفظ ضرور کرے گا آج کے دور میں کوئی بھی خبر آپ کے سوشل میڈیا پر پہنچ جاتی ہے اور صحافی اسے اپنا انداز دیے کر بریک کر دیتا ہے۔ انہی تعلقات کے چکر میں کئی قابل صحافی راہ سے بھٹک گئے اور گمنامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے اصل میں تو جب سے صحافیوں نے تحقیقی صحافت کو خیر باد کیا صحافیوں کے اسلوب بھی تبدیل ہو گئے۔

ایک وقت ایسا بھی تھا کہ خبر حاصل کرنے کے لیے ساری رات بھی کسی مقام پر کھڑا رہنا پڑتا ہے کسی اہم اجلاس کی خبر حاصل کرنے کو ویٹر کا روپ بھی دھارنا پڑتا ہے لیکن یہ سب کچھ تب ہی ممکن ہوتا ہے جب آپ کا دامن صاف ہی نہیں شفاف بھی ہو۔ صحافت کے شعبے میں کام کرنے والا صحافی جب سے غیر جانبدار نہیں رہا تو اس کی عزت بھی ختم ہوتی جا رہی ہے صحافی کا غیر جانبدار ہونا ہی اس کی طاقت ہے جو کہ آج کے مادیت پرست دور میں کسی معجزے سے کم نہیں۔

صحافی کے بدنام ہونے میں مکمل طور پو اس کا اپنا ذاتی عمل ہوتا ہے اپ کسی وزیر کسی سیٹھ کسی با اثر بد معاش کا آلہ کار بن کر گھر گاڑی اور زندگی کی آسائشیں تو حاصل کر سکتے ہیں لیکن عزت کا لفظ بھی ایسے صحافیوں کے ساتھ جوڑنا دراصل صحافت کے بنیادی اصول سے انحراف ہے۔ صحافی کی بدنامی کی ایک وجہ جہاں تحقیقی صحافت کا ناپید ہونا ہے وہاں پر ہی اس شعبے میں ایسے افراد کا شامل ہونا ہے جو صحافتی کارڈ کے حصول کے لیے دربدر پھرتے تھے اور پھر کارڈ حاصل کرتے کرتے صحافی بن گئے اور سلسلہ یہاں ہی نہیں رکا وہ دو چار سال بعد سینئر صحافی اور پھر خدا کا کرنا ایسا ہو کہ تجزیہ کار بن گئے اور مزید کہ وہ ایسے صحافیوں کی قسمت کا فیصلہ کرنے لگے جو ضمیر کی آواز کو قریب سے سنتے تھے۔

یہی کارڈ والے صحافی اعلی عہدوں پر بھی فائز ہو کر لوگوں کی پگڑیاں اچھالتے ہیں کسی کی پگڑی اچھالنا اور کسی کی کرپشن کو منظر عام پر لانے میں بہت فرق ہے جہاں صرف کرپشن منظر عام پر لائی جاتی ہے وہاں صحافی کا اپنا مفاد نہیں ہوتا اور جہاں پگڑی اچھالی جاتی ہے وہاں اس کا مفاد پیش نظر ہوتا ہے۔ صحافی بدنام کیوں ہوئے اس پر کئی کالم لکھے جا سکتے ہیں آج کا صحافی نظریاتی صحافت سے دور ہونے کے باعث خود کرپٹ ہو گیا۔

حکومت کسی کی بھی ہو طاقت ور صحافت کسی حکمران کو قابل قبول نہیں ہوتی اور وہ اپنی خامیاں چھپانے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے اس کے لیے وہ مختلف طریقوں سے سنسر کا حربہ استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان کے جن حکمرانوں کو اپنی زندگی میں عوام کی آواز کو دباتے دیکھا ان میں ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر عمران خان تک سب نے ہی صحافت کو اپنی مرضی سے چلانے کی کوشش کی ان میں وہ حکمران بھی ہیں جن کو صحافیوں نے ہی شہید کا درجہ بھی دیا اور جو باقی بچے ان کو سیاسی شہید بھی صحافیوں نے ہی قرار دیا۔

جب یہ حکمران اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو ہمارے صحافی ان کو انقلابی ثابت کرنے پر لگ جاتے ہیں کسی بھی با اثر شخص کی لونڈی بن جانا ہرگز نہ صحافت ہے اور نہ صحافی۔ ان حکمرانوں کی تقریریں لکھ کر ان کو عوام پر مسلط کرنے والے بھی صحافی ہیں مختصر یہ کہ صحافت آزاد ہے لیکن کسی کے مفاد کے لیے کام کرنے والے صحافی نہ پہلے آزاد تھے اور نہ آنے والے وقت میں آزاد ہوں گئے کیونکہ اپنی خواہشات میں قید کوئی بھی شخص کبھی آزاد نہیں ہو سکتا وہ قید میں ہی ان خواہشات کے بوجھ تلے دب کر دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔

بات حکمرانوں کی طرف سے عائد سینسر شپ پر ہو رہی تھی اس نقطے پر اتنا ہی عرض کروں گا جو صحافی سینسر شپ میں اپنے نقطہ نظر کو بیان کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا وہ اپنے کو صحافی نہ سمجھے صحافی کا قلم اتنا کمزور نہیں ہونا چاہیے کہ وہ سنسر کا لفظ بھی نہ لکھ سکے۔ صحافی کو بدنامی سے بچانے کے لیے ایک قومیا جرگے کی ضرورت ہے پہلے اپنا گھر کی صفائی اور ترتیب درست کرنے کی ضرورت ہے اس سے پہلے کسی بھی حکمران کو درست کرنے کا عمل ناکامی کے سایوں میں منڈلاتا پھرے گا اور عوام بھی اس سائے سے دور ہی رہیں گے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments