قومی یکجہتی کا نیا نسخہ


پہلے کہا گیا کہ انگریزوں اور ہندؤں سے آزادی لے کر مسلمانوں کے لئے ایک الگ وطن بنا کر رہیں گے۔ بس یہی حل ہے بلکہ آخری حل بھی یہی ہے کہ مسلمانوں کے لئے بالکل الگ وطن ہو جس میں ان کی قومی یکجہتی پھلے پھولے اور پروان چڑھے ورنہ متحدہ ہندستان میں تو مسلمانوں کی شناخت ہی ختم ہو جائے گی اور پھر 1947 میں ہم نے دو حصوں پہ مشتمل الگ وطن بنا ہی لیا۔ الحمدللہ اب تو ہماری قومی یکجہتی بغیر کسی ڈر کے محفوظ تھی۔

صرف سات سال بعد یعنی 1954 میں ملک کے مالکان کو خیال آیا کہ یہ صوبے ووبے ایک قوم بننے میں رکاوٹ ہیں، اس لئے تمام قومیں ختم، بس تمام کے تمام پاکستانی۔ ایک یونائٹڈ پاکستان، ایک مغربی پاکستان دوسرا مشرقی پاکستان۔ ایسا کرنے سے جلد ہی تمام لوگ خود بخود ایک قوم بن جائیں گے، صرف پاکستانی قوم، سب لوگ اپنی اپنی قومیتیں بھول جائیں گے۔ اس سے قومی یکجہتی کو فروغ ملے گا۔ بس پھر یہ طے ہوا کہ ون یونٹ ہی قائم کیا جائے، تمام صوبے ختم، نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔ 1954 سے 1970 تک ون یونٹ کا تجربہ چلایا گیا مگر قومی یکجہتی نے آگے بڑھنے سے انکار کر دیا۔

اس دوران میں ایک سپاہی نے سوچا کہ جمہوریت ملک کے لئے نیک شگون نہیں ہے کیونکہ اس سے قوم مختلف پارٹیوں میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ لوگ ایک قوم نہیں بنتے، نتیجے میں قومی یکجہتی کا ستیاناس ہوجاتا ہے، لہٰذا اس مسئلے کا حل صرف مارشل لاء کے ساتھ صدارتی نظام قائم کرنے میں ہے۔ پھر وقتاً فوقتاً یہ فلم ایوب خان سے لے کر مشرف تک تقریباً 33 سال تک چلتی رہی، مگر قومی یکجہتی کا یہ حال ہوا کہ ملک ہی دو لخت ہو گیا۔ کچھ لوگ شکر بجا لائے کہ ”قومی یکجہتی میں رکاوٹ بنے، بنگالیوں سے تو جان چھوٹی۔ اب پرواہ نہیں، چار بھائی مل کر رہیں گے، نہ قومیت کا مسئلہ اور نہ زبان کا“

ملک کے دو ٹکڑے ہونے کے باوجود بھی حکمرانوں نے قومی یکجہتی سے ہاتھ نہیں اٹھایا اور کچھ عرصے بعد جمہوریت جیسی بیماری سے جان چھڑانے اور اسلامی جذبے کے ساتھ قومی یکجہتی کو پروان چڑھانے کے لئے ملک کے منتخب وزیراعظم کو چلتا کر کے اسے سولی پہ لٹکا کر سکھ کا سانس لیا گیا۔ اب ہماری قومی یکجہتی اتنا تیزی سے پروان چڑھنے لگی کہ ہم نے اسے کم از کم افغانستان میں ایکسپورٹ کرنا شروع کیا اور وہاں کے مسلمانوں کے لئے اپنی دل اور ملکی سرحدوں کے دروازے کھول دیے۔

اس طرح قومی یکجہتی کے ساتھ ساتھ حکمرانوں کے مالی حالات بھی مستحکم ہوتے رہے۔ وہ تو بھلا ہو آم کی پیٹی والے کا، جس نے پوری قوم کا منہ میٹھا کروا دیا، لیکن ملک کے مالکوں نے جمہوریت کو قومی یکجہتی کے لئے اچھا شگون نہیں سمجھا اس لئے جن وزراء اعظم کو قومی یکجہتی کی راہ میں حائل دیکھا تو ان کو وقفے وقفے سے بےعزت کر کے فارغ کرتے رہے۔ ایک (سابقہ) خاتون وزیراعظم کو گولیوں سے چھلنی کیا گیا تاکہ قومی یکجہتی کے دشمن سبق سیکھ سکیں۔ اس طرح قومی یکجہتی کو فروغ دینے کے لئے تجربات جاری ہیں۔

گزشتہ تین سال سے، جمہوریت کی کھال میں لپٹے ہوئے ایک یو۔ ٹرنی وزیراعظم نے نیا پاکستان بنانے کے لئے پرانے کو بلڈوز کرنا شروع کیا ہے اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری و ساری ہے۔ تاریخ، جیوگرافی اور موسمیات کے ماہر اس شخص نے اچانک انکشاف کہ ”اوہو! یہ ساری برائی تو تعلیمی نصاب میں ہے۔ 74 سال سے ہم ملک دشمن نصاب پڑھ رہے ہیں تو قوم“ ایک قوم ”کیسے بن جائے گی! کچھ کورسز میں شاہ لطیف، بابا بلہے شاہ، میر گل خان نصیر اور باچا خان شامل ہیں، ان کا پاکستان سے کیا تعلق ہے؟

نتیجے میں قوم طبقات میں بٹ گئی ہے۔ اب اگر تمام لوگوں کو ایک قوم بنانا ہے اور قومی یکجہتی کو کم از کم کے ٹو کے پہاڑ پر پہنچانا ہے تو اس کا علاج یہ ہے کہ ان تمام لوگوں کو سلیبس سے نکالنا پڑے گا جو کسی نہ کسی طرح صوبوں کی بات کرتے ہیں۔ پاکستان کو حقیقی معنوں میں سمجھنے کے لئے، نصاب کو صرف اردو زبان میں پڑھایا جائے گا کیونکہ ایک ملک، ایک مسلمان، ایک نصاب تو ایک زبان کیوں نہیں؟ جس طرح قرآن شریف پڑھنے کے لئے عربی زبان کا پڑھنا ضروری ہے، بالکل اس طرح پاکستان کو سمجھنے کے لئے اردو زبان کا پڑھنا کمپلسری ہے۔ دوسری علاقائی زبانیں قومی یکجہتی کی نشو و نما میں رکاوٹ کا سبب بن سکتی ہیں، اس لئے ان کو سائیڈ لائن رکھنا ضروری ہے۔

اس تجربے پہ عمل شروع ہو چکا۔ وزیراعظم نے فرمایا کہ دوسری خوبی اس نصاب کی یہ ہوگی کہ اس کے پڑھنے کے بعد پاکستان میں طبقاتی فرق ختم ہو جائے گا۔ امیر امیر اور غریب غریب نہیں رہے گا۔ امیر پہ اس نصاب کے پڑھنے کے بعد اتنا اثر ہوگا کہ وہ اپنی تمام دولت غریبوں میں تقسیم کر دے گا اور قومی یکجہتی تمام جمہوری قسم کی بیماریوں سے نجات حاصل کر کے اپنی جوانی پائے گی اور ہم اس پراسرار چیز کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments