بابو چوڑی والے کا تعزیہ


بچپن میں ہم شرارتی بچوں کا ٹولہ دوپہر میں آرام کرتے بڑوں سے نظریں بچا کر چھت پر جا نکلتا اور اپنے قد سے دوگنی اونچی دیواروں سے پرے کی دنیا کو دیکھنے کے لیے کئی جتن کرتا۔ چھت پر پڑی مختلف کباڑ نما چیزوں مثلاً ٹوٹی ہوئی کرسیوں، بےکارپیڑھیوں، پرانی اینٹوں یا ٹوٹے ہوئےگملوں میں سے چند کا انتخاب کیا جاتا اور انھیں الٹا سیدھا ترتیب دے کر ایک ایسا چبوترہ تشکیل دیا جاتا جس سے لمبے قد والے بچے نصف کمر تک اور چھوٹے قد والے دونوں ہاتھ دیوار پر رکھے ایڑیوں کے بل اچک کر پاس پڑوس کے گھروں میں جھانک سکتے تھے۔

محرم کے دنوں میں دوپہر کے وقت کا یہ مشغلہ ہمیں اس لیے بھی عزیز تھا کہ اس وقت ٹھیک دوپہر میں بابو چوڑی والا، اپنے چھوٹے بھائی اسلم کے ساتھ عاشورہ کے دن کے لیے تعزیہ بنا رہا ہوتا۔ امی بتاتی تھیں کہ وہ تعزیہ داری کی یہ رسم وہ اُس وقت سے نبھا رہا تھا، جب اُس کے بے اولاد والدین نے اولاد کی خاطر محرم میں یہ منت مانی تھی۔ اپنے ہوش میں آنے سے لے کر خود اپنی اولاد کے لیے مانگی جانے والی منت کی حرمت کو سنبھالے، وہ بڑی عقیدت اور محبت سے عاشورہ کے لیے تعزیہ بناتا اور بڑی عاجزی سے اُسے شہر کے مرکز کے قریب ہی بنی وسیع و عریض جگہ میں دیگر تعزیوں کے درمیان لا کھڑا کرتا۔

لمبے بالوں والا بابو منیار چند سال پیشتر ہی ہمارے پڑوس کے اُس خستہ و بے حال چھوٹے سے گھر میں، اپنے بھائی اسلم کے ہمراہ بطور کرایہ دار آ بسا تھا، جو طویل عرصے سے بند ہونے، اور مختلف من گھڑت قصوں کا مرکز ہونے پر ہم بچوں کی توجہ کا خاص مرکز تھا۔ بابو اپنی روزی روٹی کی فکر میں، سارا دن رنگ برنگی چوڑیوں کے ہمراہ ہلکان ہوتا پھرتا، لیکن جونہی محرم شروع ہوتا، وہ سب کام تیاگ کراپنی چھوٹی سی بنا دیواروں کی برائے نام چھت پر آن بیٹھتا اور تعزیہ بنانے میں ایسا غرق ہوتا کہ پھر شام تک اسے سر اٹھانے کی فرصت نہ ملتی۔ اس کے ارد گرد سنہرے رنگ کے کاغذوں، گتوں، لکڑی اور بانس کے چھوٹے بڑے ٹکڑوں کا ڈھیر سا لگا ہوتا جنھیں وہ بڑی مہارت سے کاٹ کر اور مختلف وضع میں جوڑ کر تعزیے کی مضبوط بنیاد بناتا۔ اپنے کام میں محو بابو، شام تک جھومتا جھامتا نوحے اور مرثیے پڑھتا جاتا اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد مولا علی اور امام حسین کی عظمت کے نعرے بلند کرتا جاتا۔ ہم بچوں کے لیے وہ کسی کہانی جیسا دلچسپ کردار تھا۔

ہمارے ایک دوسرے کو کہنیاں مارنے، دھکیل کر خود دیوار پر لٹکنے کے جھگڑوں یا نیچے جا کر کسی بڑے کو اٹھا دینے کی دھمکی نما شکایتی آوازوں پر، وہ چونک کر سر اٹھاتا اور ہمیں حیرت اور خفگی کے ملے جلے تاثر سے دیکھتا، پھر گر جانے کی تنبیہ کرتے ہوئے دوبارہ اپنے کام میں منہمک ہوجاتا۔ تب ہم بچوں کے لیے تعزیہ بنتا ہوا دیکھنا ایک ایسی تفریح تھی جس کے لیے ہم اُس وقت تک دیوار پر لٹکے رہتے جب تک کہ گھر کے کسی بڑے کی آنکھ نہ کھل جاتی اور ہمیں خاطر تواضع کے ساتھ واپس زمین پر نہ اتار لیا جاتا۔

عاشورہ کے دن کا انتظار بابو سے زیادہ ہمیں ہوتا کہ اُس دن، اُس کی دن رات کی محنت سے بنا تعزیہ اپنی پوری شان اور تمکنت کے ساتھ گلی میں جلوہ افروز ہوتا اور ہم اس بڑے سے بلند تعزیے کے چاروں اطراف میں گھوم پھر کر، بڑے انہماک سے اُس کے ایک ایک حصے کا جائزہ لیتے اور گردن اٹھا اٹھا کر اس کی بلندی پر حیران ہوتے۔ محلے والوں کی اشتیاق بھری دید کے بعد بڑے اہتمام، چاؤ اور عقیدت کے ساتھ، اُس تعزیے کو اٹھا کر شہر کے چوراہے سے قدرے فاصلے میں بنی سبزی منڈی کے بڑے سےاحاطے میں لے جایا جاتا۔ تب بابو کے تعزیے کی سج دھج اور شاہی انداز دیکھنے والا ہوتا۔ یہ آب و تاب خود بابو اور اُس کے بھائی اسلم کے سرخ پڑتےچہروں پر بھی دیکھنے کے لائق ہوتی۔ اپنی محنت اور فن کے اس خوبصورت امتزاج کی ستائش و توصیف پر وہ انکساری سے جھک جھک جاتا اور حسین ابن علی پر سلام پڑھتے ہوئے، مختلف مرثیوں کے اشعار، جو اُسے ازبر تھے انھیں ایک خاص جذبے اورسوز کی لحن میں سناتا جاتا۔ اُس لمحےغمِ حسین کے دردناک اشعار ایک خاص جذب کی کیفیت میں بلند آہنگ پڑھتا، لمبے بالوں والا بابو ہمیں کوئی اجڑا، بے حال، آشفتہ سر دیوانہ معلوم ہوتا۔

عاشورہ کا وہ پورا دن ہی سوز میں ڈوبا گزرتا۔ ہر طرف سے آنے والی حزن و ملال اورگریہ و زاری کی آوازوں سے دل بھاری ہوجاتا۔ تب ایک دوسرے کے مسلک کا احترام دلوں میں اتنا زیادہ تھا کہ آس پڑوس کے اہلِ تشیع گھرانوں کے ساتھ ساتھ، خود ہمارے اپنے گھروں میں بھی حزن و اداسی کی کیفیت ہمہ وقت طاری رہتی۔ امی صبح سے ہی حلیم بنا کر بانٹنا شروع کر دیتیں۔ شہر کے مرکز میں رہنے کی بدولت گردو نواح میں ہونے والی اعزاداری و ماتم کی تواتر سے آنے والی آوازیں دل بوجھل کر دیتیں۔ شام کے بعد پی ٹی وی پر جب علامہ طالب جوہری اپنے مخصوص رقت آمیز مغموم انداز میں جب شام غریباں کی روداد سناتے توامی رو رو پڑتیں۔ اختتام کے بعد ناصر جہاں کی درد انگیز آواز میں ڈوبے، پرانے زمانے کے سلام سنتے ہوئے ان کی غمزدہ کیفیت مزید بڑھ جاتی۔ تب حسین، سب کے حسین ہوا کرتے تھے اور واقعہ کربلا کا غم سب کا سانجھا تھا۔ حق و باطل کی اس جنگ کو کبھی کسی نے اپنا یا پرایا نہ کہا تھا۔

یہ نوے کی دہائی کے بعد کا زمانہ تھا۔ جب متشدد مسلکی اختلافات کی چنگاری نے آہستہ آہستہ سلگنا شروع کیا۔ کسے خبر تھی کہ آنے والے دنوں میں یہ چنگاری شیعہ سنی مسلکی اختلافات کی ایسی آگ بھڑکائے گی کہ جس کی لپیٹ میں باہمی امن، محبت اور خلوص سب سے پہلے جل کر خاک ہو جائیں گے۔ عاشورہ کے اُس دن بھی بابو چوڑی والے کا بنایا گیا تعزیہ بڑی عقیدت، تقدس اور احترام کے ساتھ لے جا کر دیگر تعزیوں کی صف میں رکھا گیا تھا۔ عصر کے وقت، اُس کےتعزیے میں ہونے والے ہولناک بم دھماکے نے شہر بھر کو لرزہ کر رکھ دیا۔ بم دھماکے کی غضب ناک گونج دار آواز سے آنگن کی بیلوں میں اُچھلتی کودتی چڑیاں خوفزدہ ہو کر ہوا میں اڑ گئیں۔

دھماکے کے بعد پیدا ہونے والے ہنگامی حالات نے گھر کے سب افراد کو خوف اور تشویش میں مبتلا کر ڈالا۔ محلے کےسبھی لوگ، اُس وقت گھر سے باہر موجود اپنے اپنے عزیزوں کی تلاش میں بیقرار ہو کر دوڑے، عجب قیامت کا سماں تھا۔ پڑوس کی دس سالہ رفعت جو سارا دن اپنےآٹھ، نو ماہ کے بھائی کو ایک کولہے پر اٹھائے پھرتی تھی، کچھ ہی دیر پہلے امی کو اشتیاق سے تعزیے دیکھنے جانے کا کہہ کر گئی تھی، اب اپنی خون آلود ٹانگ گھسیٹ گھسیٹ کر چل رہی تھی۔ محشر کی اس ہنگامہ آرائی میں اُس کا بھائی کہاں تھا، خدا جانے!

 اُس شام ہم چھت کی دیوار سے آدھے لٹکے، گلی میں خون آلود لباس میں داخل ہوتے زخمیوں کو، سہاروں سے ڈسپنسری کی طرف لانے لے جانے کا اذیت ناک فعل دیکھتے رہے، خوف اور ترحم سے ملا دہشت کا یہ نظارہ ناقابلِ دید تھا۔ تبھی ہم نے گلی میں نڈھال داخل ہوتے بابو کو دیکھا، جو اپنے بکھرے اجڑے بالوں، لٹکتے کندھوں اور زخمی جسم کے ساتھ جھومتا جھامتا گلی میں داخل ہوا۔ سب دم سادھے اُسے دیکھتے رہے۔ کسی نے دوسرے کو بتایا کہ دھماکہ بابو کے تعزیے میں ہوا تھا، مولا کی شان کہ وہ اور اس کا بیٹا فاصلے پر ہونے کی وجہ سے بچ گئے۔ تماش بینوں کی مانند کھڑے لوگوں نے تاسف سے سر ہلایا، پھر کسی نے دکھ سےکہا: ” بیچارے کی دن رات کی محنت روئی کی طرح ہوا میں بکھر گئی۔ “

بابو اپنے زخم سنبھالتا، ڈولتا ہوا آگے بڑھا۔ اس نے ایک خاموش اجنبی نظر باتیں کرتے لوگوں پر ڈالی اور گھر کا دروازہ یوں بند کیا، جیسے وہ گھر کا نہیں، دل کا دروازہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments