ٹھرکی بڈھے اور موقع پرست خواتین


میں آج تک شریفانہ اور غیر شریفانہ رویے کے درمیان کوئی لکیر نہ لگا سکا۔ کچھ لوگوں کے لیے خواتین کا گھر سے باہر نکلنا ناپسندیدہ عمل ہے، کچھ کے لیے برقع کے بغیر گھر سے نکلنا ناپسندیدہ عمل ہے، کچھ چادر تک محدود ہیں تو کچھ دوپٹے کو بہتر خیال کرتے ہیں اور کچھ کے نزدیک تو لباس ہی کافی ہے۔ اسی طرح مردوں سے بات کرنے، دوستی کرنے اور ملنے جلنے پر بھی مختلف لوگوں کے خیالات مختلف ہیں۔

اگر کوئی بھی خاتون اپنے دائرے سے اگلے دائرے میں جانے کی کوشش کرتی ہے تو ایک شور برپا ہو جاتا ہے۔ جو خواتین نوکری کرتی ہیں ان میں بہت سی یہ جانتی ہیں کہ ترقی کرنے کا آسان اور سہل طریقہ کیا ہے۔ وہ یہ طریقہ استعمال کرتے ہوئے اپنے تمام ہم عصر لوگوں کو کچلتے ہوئے آگے نکلتی جاتی ہیں۔ انہیں اس چیز سے کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ کچلا جانے والا کتنا محنتی اور قابل ہے۔

میری یہ بات ہو سکتا ہے کچھ لوگوں کو ناگوار گزرے کہ لڑکی جتنی مرضی ذہین ہو پریکٹیکل ورک میں وہ لڑکوں کی طرح کام نہیں کر سکتی۔ یہ بات میں اپنے پینتیس سالہ تجربے کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں۔ میں ایک فیکٹری میں ملازمت کرتا تھا۔ وہاں لڑکیاں اور لڑکے انجینئر تھے۔ وہاں مہربان مینیجر حضرات ڈیوٹی لگاتے ہوئے اس بات کا خاص خیال رکھتے تھے کہ سخت ڈیوٹی صرف لڑکے سرانجام دیں اور لڑکیاں صرف اے سی دفتر میں بیٹھ کر کام کریں۔ پلانٹ پر بے تحاشا گرمی میں جہاں درجہ حرارت ساٹھ ڈگری کے قریب ہوتا تھا لڑکے ڈیوٹی سرانجام دیتے تھے۔ مگر جب انکریمینٹ کا وقت آتا تھا تو لڑکیوں کے کام کو بہت سراہا جاتا تھا ان کی تنخواہ میں اچھا خاصا اضافہ ہوتا تھا اور لڑکے نکھٹو اور کام چور قرار دیے جاتے تھے۔

ایک مرتبہ ٹریننگ پر نئے انجینئر بھرتی کیے گئے۔ دو لڑکیاں اور تین لڑکے تھے۔ ان تمام کو اسائنمینٹ دی گئیں۔ جن صاحب نے ان کو کام دیا۔ تھوڑی دیر بعد فائلوں کا بنڈل اٹھا کر لڑکیوں کے پاس آئے اور ایک لڑکی کو سمجھایا کہ انہوں نے کاغذ کی پرچیاں لگا دی ہیں۔ جہاں سے ان کو مطلوبہ مواد مل سکتا ہے۔ پھر باقی ماندہ فائلیں دوسری کے آگے دھریں اور کام سمجھا دیا۔ پندرہ منٹ بعد ایک لڑکا ان صاحب سے کچھ پوچھنے آیا تو وہ بولے کام ایسے ہی نہیں ہوتا لٹریچر سروے کرنا پڑتا ہے۔ فائلوں میں سر مارنے پڑتے ہیں تب جا کر مطلوبہ چیز ملتی ہے۔ تین دن بعد وہی صاحب بڑے مینیجر صاحب سے کہہ رہے تھے۔ لڑکیوں نے اپنا اپنا کام کر بھی لیا ہے لڑکوں نے ابھی تک نہیں کیا۔

ایک اور واقعے کا ذکر مناسب رہے گا۔ ہماری فیکٹری بک گئی اور نئے مالکان نے اس خوشی میں اپنی فیکٹری اور نئی خریدی گئی فیکٹری کے تمام افسران کو افطار پارٹی پر بلایا۔ ہم چونکہ نئے غلام تھے اس لیے ایک کونے میں لگے حالات کا جائزہ لے رہے تھے۔ ڈائریکٹر صاحب کرسی صدارت پر براجمان تھے۔ ان کی عمر ستر سال کے لگ بھگ تھی۔ پرانی فیکٹری کی لڑکیاں چہچہاتی ہوئی جدید اور فیشن ایبل لباسوں میں ادھر سے ادھر پھر رہی تھیں۔ افطاری میں ابھی کچھ وقت باقی تھا۔

ایک لڑکی اٹھلاتے ہوئی بڑے صاحب کے پاس آئی اور بولی ”سر ایک تصویر میرے ساتھ“
صاحب اپنے ساتھ رکھی کرسی پر ہاتھ رکھ کر بولے ”آؤ بیٹھو“

اب لڑکی صاحب کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گئی۔ فوٹو گرافی شروع ہو گئی۔ دیکھا دیکھی دوسری لڑکیاں بھی اس پروگرام میں شامل ہوتی گئیں۔ اب وہ صاحب لڑکیوں کے اشاروں پر ناچنے لگے کبھی کرسی، کبھی سٹیج کے تختے پر۔ اپنے جھریوں زدہ چہرے پر مسکراہٹ سجا کر اسے خوبصورت بنانے کی کوشش میں مزید مضحکہ خیز لگ رہے تھے۔ بعد میں تصویریں دیکھ کر پتہ چلا کہ ناری اچھے بھلے انسان کو بندر بنا دیتی ہے۔ اب کچھ لڑکوں نے بھی ہمت کی کہ ہم بھی کچھ چمچہ گیری کر لیں۔ صاحب کا موڈ بہت بھلا ہے۔

ایک لڑکے نے انتہائی لجاجت سے کہا ”سر آپ کو زحمت تو ہو گی۔ ادھر ایک تصویر ہمارے گروپ کے ساتھ بھی ہو جائے“

صاحب کے چہرے کے تاثرات ایک دم بدل گئے۔ ناگواری سے بولے ”جس نے اتروانی ہے یہیں آ کر اتروا لو“

لڑکے اس مختصر سی جگہ پر پھنس پھنسا کر کھڑے ہو گئے۔ ایک تصویر اترتے ہی صاحب نے کہا ”چلو اب بہت ہو گئی“

اسی طرح بہت سی نوکری کرنے والی لڑکیاں اپنی نسوانیت کو کیش کروانا جانتی ہیں۔ مگر وہ ان لڑکیوں کے لیے خاص طور پر ماحول خراب کر دیتی ہیں۔ جو ان بڈھے بابوں کو باتوں سے رجھانا نہیں جانتیں۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ نوجوان افسرز میں پھر بھی کچھ شرم حیا ہوتی ہے مگر بابے شرم حیا سے عاری ہوتے ہیں۔ وہ اپنی عمر کا بھی ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہ بابے ہر ایک کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا چاہتے ہیں۔ اس طرح سیدھی سادی لڑکیوں کے لیے مشکلات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

اب ایک کم تعلیم یافتہ ٹک ٹاکر لڑکی نے اپنی آمدنی کو بڑھانا چاہا۔ گو اس کا طریقہ انتہائی بھونڈا تھا۔ اگر اس کا طریقہ تعلیم یافتہ لڑکیوں والا ہوتا تو اعتراض نہ ہوتا۔ پیسے کا لالچ ہر کسی کو ہوتا ہے۔ لیکن اگر یہ صحیح انداز میں کمایا جائے تو کوئی برائی نہیں۔ جبکہ نسوانیت کی وجہ سے کوئی لڑکی اپنی تنخواہ زیادہ کرواتی ہے تو اس میں اور ٹک ٹاکر لڑکی میں کوئی فرق نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments