نذرانہ یوسف زئی کی ٹویٹر سپیس اور فمینزم


شرمین عبید چنائے کی فلم “سیونگ فیس” کو آسکر ایوارڈ ملا تو زیادہ تر لوگوں کا یہ خیال تھا کہ چند لبرل خواتین کو پاکستانی کی بدنامی کے لئے منتخب کیا گیا ہے۔ یہ ملک کی مکروہ شکل دکھا کر ڈالر کماتی ہیں۔ غیر ملکی ایجنڈے پر چلتی ہیں۔ لاہور میں کچھ صحافیوں کو یہ فلم دکھانے کا انتظام کیا گیا۔ ان میں زیادہ تر اکثریت ان لوگوں کی تھی جو اس فلم کو ملک مخالف پراپیگنڈا سجھتے تھے۔ جوں جوں فلم کے فریم آگے بڑھتے گئے، ہال میں خاموشی چھاتی گئی اور فلم ختم ہونے پر ہال میں انہی حضرات کی سسکیوں کے سوا کچھ نہیں بچا تھا۔ تیزاب سے جھلسی عورتوں کی کہانی اتنی تکلیف دہ تھی کہ کوئی بھی اپنے آنسووں پر قابو نہ رکھ سکا۔ یہ فلم شائد پروڈکشن کے اعتبار سے اتنی اعلی نہیں تھی مگر اس کا موضوع اور حقیقت اتنی تلخ اور تکلیف دہ تھی کہ آسکر کے سوا اس کے لیئے کوئی ایوارڈ ہی نہیں بچا تھا۔

جب سے ٹویٹر نے سپیس کا آپشن دیا ہے اس کے بعد سے میں نے بہت سے لوگوں کی سپیس کو جوائین کیا۔ میری خواہش یہ ہوتی ہے کہ میں خود بولنے کے بجائے لوگوں کے خیالات سے آگاہ رہوں۔ ایک سپیس سے دوسری سپیس کا سفر کرتے ہوئے میں نے ٹویٹر سپیس میں نذرانہ یوسفزئی کی ٹویٹر سپیس کو جوائین کیا۔ کئی دن سے ان کی سپیس کا موضوع خواتین پر ہونے والے مظالم تھے۔ گفتگو کا معیار اعلی، لہجہ متین اور دلیل کی گیرائی کا سہرا اس سپیس کی ہوسٹ کو جاتا ہے۔

میں نذرانہ یوسفزئی کو اس سے پہلے نہیں جانتا تھا، مجھے معلوم نہ تھا کہ ان کا تعلق کس علاقے سے ہے، کہاں کی رہائشی ہیں، کیا تعلیم حاصل کی، کیا کام کیا اور کیا نام کمایا لیکن ان کی ٹویٹر سپیس میں جس معیار کی گفتگو ہوتی رہی اس نے مجھے مجبور کیا کہ میں اس خاتون سے بات کروں۔ بصد دشواری ان کا نمبر ملا، ان سے رابطہ ہوا، تب جا کر علم ہوا کہ نذرانہ یوسفزئی کا تعلق سوات کے یوسفزئی قبیلے سے ہے، وہ امریکہ میں مقیم ہیں انھوں نے یونیورسٹی آف مانچسٹر سے ایل ایل ایم کیا۔ سوات کے آپریشن کے دنوں میں انھوں نے ملک سے ہجرت کی، پہلے تو ارادہ یہی تھا کہ واپس آ کر اپنے ملک میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کریں مگر حالات کچھ ایسے ہو گئے کہ وطن واپس آنا دشوار ہو گیا۔ انھوں نے پشاور میں وکالت کی پریکٹس کی بھی کوشش کی مگر خوف و ہراس کے ماحول نے انھیں پھر دساور کے سفر پر جانے پر مجبور کیا۔

پاکستان گزشتہ کچھ دنوں سے خواتین کے حوالے سے سانحات کا شکار ہے، کبھی نور مقدم کا سر تن سے جدا ہو جاتا ہے، کبھی مینار پاکستان پر اک شرمناک تاریخ رقم ہوتی ہے اور نظریہ پاکستان کا منہ چڑاتی ہے، کبھی کسی خاتون پر تیزاب پھینک دیا جاتا ہے، کبھی کسی کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے۔ پولیس عموماً ایسے واقعات کی ایف آئی آر درج نہیں کرتی، اس کو گھریلو معاملہ کہہ کر ٹال دیا جاتا ہے۔ ریاستی سطح پر بھی ہمارا بیانیہ خواتین کے مؤقف کی نمائندگی نہیں کرتا، نفرت کا ایک سمندر ہے جس کو ہر خاتون عبور کرنے پر مجبور ہے۔ بہتان، الزام اور دشنام کے مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے، اس کے بعد بھی فحاشی کا الزام الٹا ان ہی کے سر ہوتا ہے، سرکشی اور بے باکی کا بہتان ان پر ہی لگتا ہے، گالی گلوچ ان کا مقدر ہوتی ہے۔ محرومی ان کی قسمت بنتی ہے اور بے بسی کو ان کے نصیب کا نام دیا جاتا ہے۔

ہر لکھنے والے کی طرح مجھے بھی زعم تھا کہ میں ہر موضوع پر وافر علم رکھتا ہوں لیکن اس سپیس میں نہایت پڑھی لکھی خواتین کے خیالات اور تجربات سن کر مجھ پر اپنی جہالت کا عقدہ کھلا۔ فمینزم کیا ہے؟ کیوں ہے اور کیسے ہے؟ اس کے متعلق میری معلومات صرف اتنی تھی کہ خواتین کا احترام کرنا چاہیے، ادب سے بات کرنی چاہیے اور بس۔۔۔ لیکن نذرانہ یوسفزئی کی ٹویٹر سپیس میں جن خواتین نے اپنے علم اور تجربے سے آگاہ کیا تو معلوم ہوا کہ اگر صرف آپ احترم کرتے ہیں تو یہ کافی نہیں ہے۔ اس معاشرے میں کدروتیں، کجیاں اور کشمکش کچھ اور بھی ہے۔ میں خصوصاً سیدہ نایاب بخاری جنہوں نے سائمن فریزر یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی اور تحریم عظیم کا شکر گزار ہوں جن کی مدلل گفتگو سے مجھے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔

میں نے حالیہ واقعات پر خواتین کو گفتگو کرتے سنا تو یقین مانیے حیرت کا ایک سمندر تھا جو میرے سامنے تھا۔ یہ پاکستان کی نصف آبادی کی نمائندہ خواتین تھیں جو علم و فضل میں کسی سے کم نہیں تھیں، بہت سی خواتین کو کئی ایک خوفناک تجربات سے گزرنا پڑا کہ ان کا بیان بہت مشکل ہے، بہت سی خواتین گفتگو کرتے ہوئے آب دیدہ ہو گئیں، کچھ کو غصہ تھا، کچھ طیش میں تھیں، کچھ ملول و مغموم تھیں۔

میرے سینے میں انی کی طرح ایک خاتون کی بات گڑی ہوئی ہے جنھوں اس سپیس میں کہا کہ پاکستان میرا بھی ملک ہے، میں بھی جشن آزادی منانا چاہتی ہوں مگر گھر والے کہتے ہیں کہ رش والی جگہ پر نہ جاؤ۔ رندھی ہوئی آواز میں اس خاتون نے کہا پاکستان میرا ملک نہیں؟ جشن آزادی منانا میرا حق نہیں؟

خواتین کے حقوق پر بات کی گئی تو علم ہوا کہ خواتین کو نہ خواہش کا حق ہے، نہ تعلیم، نہ خوراک، نہ شادی کا، نہ ملازمت کا، نہ ترقی کا۔ ان کا مقدر اندھیرے کمروں میں زندگی بسر کرنا، پردوں میں خود کو لپیٹنا، اور کسی کی انا پر قربان ہو جانا ہی رہ گیا ہے۔ یہی ان کا نصیب ہے، یہی ان کا اس سماج میں مقدر ہے۔

خواتین کے ساتھ تحقیر آمیز رویے کی بہت سی وجویات بیان کی گئیں جن سے میں یہ جان پایا کہ یہ مسئلہ سیاسی بھی ہے، معاشی بھی، جمہوری بھی، قانونی بھی سماجی بھی، نفسیاتی بھی اور جذباتی بھی۔ مذہب کی غلط تشریح کرنے والے بھی اس کے ذمہ دار ہیں۔ لیکن ایک نقطے میں اگر بات بیان کرنا مقصود ہو تو جن معاشروں میں قانون کی عمل داری ہوتی ہے وہاں ایسے واقعات کی روک تھام ممکن ہے۔

خواتین کے ساتھ اس طرح کے واقعات کی تاریخ بہت پرانی ہے، یہ واقعات پہلےبھی ہوتے رہے ہیں، پہلے بھی غیرت کے نام پر کتنے قتل ہوئے، کتنے چہروں پر تیزاب پھینک دیا گیا، کتنی خواتین کی عصمت دری کی گئی، کتنی خواتین کو گلی کوچوں، بازاروں میں انگلیاں چبھوئی گئیں، کتنی خواتین کو دفاترمیں جنسی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا؛ یہ سب بہت عرصے سے ہو رہا ہے۔ اب جو ان واقعات پر شور مچ رہا ہے تو اس کی بنیادی وجہ سوشل میڈیا اور خواتین میں آنے والی آگہی ہے اور شعور ہے۔ قتل اب بھی ہو رہے بس فرق یہ ہے کہ اب خواتین کو ان لاشوں پر ماتم کا شعور مل گیا ہے۔

اس سے ظلم کیا ہو سکتا ہے کہ دنیا میں جب کوئی خاتون گھر سے باہر نکلتی ہے تو اسے خوش مزاج کہا جاتا ہے ہمارے ہاں اسے آوارہ کے لقب سے پکارا جاتا ہے۔ دنیا میں جب کسی خاتون کا ریپ ہوتا ہے تو حکومت مجرم کی تلاش کرتی ہے ہمارے ہاں ریپ کا الزام اسی خاتون کے ماتھے پر تھونپ دیا جاتا ہے۔ دنیا میں جب کسی خاتون کا قتل ہوتا ہے تو اسے مقتولہ کہا جاتا ہے ہمارے ہاں اسے بدچلن اور بے غیرت کے نام سے پکارا جاتا ہے

شائد المیہ یہ نہیں کہ یہاں عورتوں کے سر قلم ہوتے ہیں، ان کو غیرت کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے، ننھی بچیوں کے جسموں کو ادھیڑ دیا جاتا ہے۔ اصل المیہ یہ ہے کہ ان مظالم کا دفاع کرنے والوں کی یہاں کوئی کمی نہیں۔

میں نے جن خواتین کا احوال سنا اور ان پر مظالم کی داستان سنی تو مجھ پر منکشف ہوا کہ صدیوں پہلے ایک زمانہ تھا جسے ہم جاہلیت کا زمانہ کہتے تھے جب لوگ اپنی نوزائیدہ بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے۔ لیکن شاید وہ لوگ ہم سے اچھے تھے کیوں کہ وہ صرف دفن کرتے تھے، نہ تیزاب سے جسم کو جھلساتے تھے، نہ سر قلم کرتے تھے، نہ ان کے جسموں کو داغتے تھے، نہ انہیں زندہ نذر آتش کرتے تھے، نہ ان کو مارتے پیٹتے تھے، نہ ان کے والدین کے سامنے ان کی عزت تار تار کرتے تھے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ یہ سماج خواتین کے معاملے میں زمانہ جاہلیت سے کہیں بدتر ہے، وہ اچھے تھے جو دفن کر دیتے تھے اور ہم وہ لوگ ہیں جو مار بھی دیتے ہیں مگر ان زندہ لاشوں کو دفن نہیں کرتے۔

عمار مسعود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمار مسعود

عمار مسعود ۔ میڈیا کنسلٹنٹ ۔الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ہر شعبے سےتعلق ۔ پہلے افسانہ لکھا اور پھر کالم کی طرف ا گئے۔ مزاح ایسا سرشت میں ہے کہ اپنی تحریر کو خود ہی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر میزبانی بھی کر چکے ہیں۔ کبھی کبھار ملنے پر دلچسپ آدمی ہیں۔

ammar has 265 posts and counting.See all posts by ammar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments