تتلی کے تعاقب میں کوئی پھول سا بچہ


وہ آنکھیں بند کر کے کچھ دیر آرام کی غرض سے لیٹی ہی تھی کہ دروازہ زور زور سے دھڑ دھڑایا۔ اس نے ہڑبڑا کر دروازہ کھولا۔

”مس گل کیا آپ نے ولی بخت کو کہیں دیکھا ہے؟ ولی بخت کو تو جانتی ہیں ناں آپ؟ اسکول کے سب سے بڑی فنانسر، عثمان بخت کا بیٹا۔ پونے بارہ ہونے کو آئے ہیں وہ نہ تو اسکول گیا ہے نہ ہی ہاسٹل میں کہیں ہے۔ بلڈنگ کا کونا کونا چھان مارا ہے۔ اس کا کہیں نشان تک نہیں“ کہنے والے نے ایک ہی سانس میں ساری کتھا کہ سنائی تھی۔ اب وہ سوالیہ نظروں سے ولی بخت کی آیا کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔

”صبح میں نے تین بار اس کے بال بنائے تھے، وہ بال سیٹ کروانے کے بعد اپنے روم میں جاتا اور دوبارہ بال بکھیر کر آ جاتا۔ کبھی کہتا ٹائی ٹھیک سے نہیں باندھی تو کبھی کہتا مجھے بریڈ سپریڈ سے سمل آ رہی ہے۔ مجھے اس کے انداز سے لگا تھا کہ شاید وہ اسکول نہیں جانا چاہتا۔ لیکن پھر میں میس ہال کی طرف چلی گئی۔ اس کے بعد وہ مجھے نظر نہیں آیا“ ملازم چلا گیا تو اس نے اپنے روم سے باہر نکل کر گراؤنڈ فلور پر جھانکا۔ اسکول میں عجیب قسم کی ہڑبڑی مچی تھی۔

ہر طرف اس چھوٹے سے، سانولے بچے کی ڈھنڈیا پٹی ہوئی تھی۔ وہ جو کہ اپنی عادات کے اعتبار سے سب سے مختلف تھا، باقی بچوں کی نسبت بہت کم ہنستا تھا۔ اسے بہت ہی کم کسی پلے گراؤنڈ میں دیکھا گیا تھا۔ اس کی اداس آنکھوں میں اس دنیا کو لے کر بے تحاشا حیرتیں بھری تھیں۔ شہر کے مہنگے ترین اسکول میں پڑھتا تھا، امیر ترین باپ کا بیٹا تھا۔ اسے کیا پریشانی ہو سکتی تھی؟ کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ ایسا کیوں تھا، زیادہ تر ٹیچرز اس کو ابنارمل کیس شمار کرتے تھے۔

لیکن گل جانتی تھی۔ جب وہ اپنے روم میں آئی تو اس کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ وہ جو ساری رات کسی بھٹکی ہوئی روح کی طرح ہاسٹل کے درو دیوار کو تکتا رہتا تھا، اب دنیا و مافیہا سے بے خبر سو رہا تھا۔

نیند بڑی درویش صفت ہوتی ہے، نہ آنا ہو تو آرام دہ مخملیں بستر پر بھی نہیں آتی اور آنا چاہے تو سولی پر بھی آ جائے۔ وہ یہاں کب آیا؟ کیسے آیا یہ گل نہیں جانتی تھی۔ لیکن وہ یہ جانتی تھی کہ وہ کئی دنوں سے نہیں سو پایا تھا۔ اس کا اپنا بچہ ہوتا تو کیا وہ اسے جھنجھوڑ کر اٹھاتی؟ کبھی بھی نہ۔ بھاڑ میں جائے اسکول انتظامیہ، اور ان کے چونچلے۔ اس نے مامتا کی ماری اس ان پڑھ ماں کی طرح سوچا، جس کے نزدیک سب سے زیادہ اہمیت اس کی اولاد کے ذہنی سکون کی تھی۔

مزے کی بات یہ ہے کہ بہت سے پڑھے لکھے، فیوچر کانشیس لوگ اس کو اتنی سی بات سمجھ کر نظرانداز کر دیتے ہیں۔

اب تک اس کے باپ کے پاس اس کی گمشدگی کی اطلاع پہنچ گئی ہوگی۔ وہ غصیلہ مغرور اور بد دماغ بزنس مین منہ سے جھاگ اڑاتا کسی ہی وقت اسکول کے پرنسپل پر برس رہا ہوگا۔ اس نے بے اختیار سوچا۔ جہاں اتنی تاخیر ہو گئی، تھوڑی اور سہی۔

دو گھنٹے کے بعد وہ خود اسے لے کر پرنسپل آفس گئی چلی گئی۔ اس ساری غفلت کا ذمہ دار گل کو ٹھہرایا گیا۔ ایک گھنٹہ شدید قسم کی بے عزتی اور دو ماہ کی سیلری ضبط کرنے کے بعد اس کا معذرت نامہ قبول کر لیا گیا۔ ایک امیر ذادے کی ایک گھنٹے کی نیند اسے اتنی مہنگی پڑی تھی۔

اگر ایسی اچھائی ایک بیوقوفی تھی، تو گل واقعی ایک بیوقوف عورت تھی۔

”مجھے افسوس ہے جو اس دن آپ کے ساتھ ہوا۔ لیکن مجھے نہیں پتہ کیوں۔ میں اس دن آپ کی پشت سے سر ٹکا کر کب سو گیا؟“ وہ کہ نہیں سکا کہ اس کے وجود میں وہ اپنی ماں کی خوشبو ڈھونڈتا تھا، اس ماں کی جس کے لئے اس کا وجود ایک بے مصرف شے تھا۔ وہ بار بار اس لئے اپنے بال خراب کرتا تھا کہ وہ بنا شکن ڈالے بڑی محبت سے انہیں سنوار دیا کرتی تھی۔

وہ، چند ہزار روپوں کے عوض کام کرنے والی، پینتیس سالہ گل ہما۔
”تمہارے بچے کیوں نہیں ہیں گل؟“ جب وہ اس کے کپڑے لانڈری باسکٹ میں ڈال رہی تھی تو ولی نے پوچھا۔

”خدا کی مرضی۔“ اب وہ بیڈ شیٹ کی سلوٹیں درست کر رہی تھی۔ اس کے منہ کا کواڑ بس اسی کے سامنے کھلتا تھا۔

” سالی خدا کی مرضی۔“ گل کا حیرت سے منہ کھل گیا۔ ”ایسے نہیں کہتے، بہت غلط بات ہے“

”ہونہہ۔ کاش میں بھی نہ ہوتا۔ اور میرے پیرنٹس بھی لوگوں کو ایسا ہی جواز دیتے۔ بس جی خدا کی مرضی۔ یو نو۔ میرے پیرنٹس کو میری قطعاً ضرورت نہیں تھی۔ ان فیکٹ ان دونوں کے درمیان سیپریشن بھی میری ہی وجہ سے ہوئی ہے۔ ہمارے گھر میں کتے، بلی تک ایڈاپٹ کرنے سے پہلے پلاننگ ہوتی ہے۔ کون رکھے گا؟ کون کھلائے گا؟ کون سلائے گا؟ کہاں رہے گا وغیرہ۔ اور میں۔ میں کسی بھی پلاننگ کے بغیر پیدا ہوا تھا۔ یونہی بائے چانس۔ ماما کو بچے نہیں پسند تھے۔

وہ بہت سوشل تھیں۔ ان کی سوشل لائف میری وجہ سے ڈسٹرب ہوتی تھی۔ اس وجہ سے یہ ناپسندیدگی اور بڑھ گئی۔ جب کبھی میری وجہ سے گھر میں جھگڑا ہوتا تو میرا دل چاہتا کہ میں گھر سے کہیں دور چلا جاؤں۔ اتنی دور کہ انہیں کبھی نہ ملوں۔ اور جب ان کے سرکل کے لوگ ان سے میرے متعلق دریافت کریں تو وہ ان سے کہیں۔ بس جی کیا کریں جیسی خدا کی مرضی“ معصوم، سانولا چہرہ یک دم تاریک پڑا تھا۔ شاید وہ ان سے سخت خفا تھا۔

”میرے فادر کو گریڈز چاہیئیں، انہیں لگتا ہے کہ چونکہ یہ اسکول ان کی فنڈنگ سے چلتا ہے تو اس اسکول کی ٹاپ پوزیشن پر بھی ان کے بیٹے کو براجمان ہونا چاہیے۔ تم نے کبھی میرے فادر کو چلاتے دیکھا ہے؟ جب وہ چلاتے ہیں تو مجھے لگتا ہے میرا دماغ سن ہو گیا ہو، کبھی کبھار تو لگتا ہے کہ جیسے در و دیوار مجھ پہ آن گرے ہوں جب کبھی وہ مجھ سے بات کرنا چاہتے ہیں مجھے ان سے نفرت محسوس ہوتی ہے۔ کیا صرف بچوں کی جسمانی ضروریات پوری کر دینا ہی پیرنٹنگ میں آتا ہے؟ بچے کیا چاہتے ہیں کیا سوچتے ہیں اس کی کوئی ویلیو نہیں؟ ماں باپ ایسے تو نہیں ہوتے۔ میرا کہیں بھی دل نہیں لگتا، نہ گھر میں نہ یہاں۔ میرا بالکل دل نہیں چاہتا کہ میں کھیلوں یا آگے بڑھوں“ وہ سخت بیزار معلوم ہوتا تھا۔ گل اس کے روم کی سیٹنگ کر کے اس کی طرف آئی

”ولی! خواہشیں، تتلیوں کی مانند ہوتی ہیں۔ ان کے پیچھے بھاگنا ہی زندگی ہے۔ خوش رہنے کے لئے، زندہ دل رہنے کے خواہش رکھنا لازم ہے۔ اس کے لئے دلی طور پر چھوٹے رہنا ہی بہتر ہے۔ زندگی میں اگر بڑے ہونا چاہیے بھی؟ تو صرف اتنا کہ پہچان سکیں کون سی تتلی کس سمت لے کے جا سکتی ہے۔

”تم اپنے باپ سے یا اپنی ماں سے نفرت کر کے خود کو کھو دو گے۔ یہ جو ہم ہیں ناں۔ ہماری شخصیت دو ستونوں سے مل کے بنتی ہے۔ اول خدا پھر ماں باپ۔ ان کی محبت ہی سب کچھ ہے۔ بالفرض، تمہیں لگتا ہے کہ تمہارے ماں باپ تم سے محبت نہیں کرتے تو تم ان سے محبت کرلو۔ دیکھنا! تمہیں زندگی کم بری لگنے لگے گی۔ تم ان بچوں میں سب سے سلجھے ہوئے بچے ہو۔ سب سے پیارے بچے۔ تمہارے پاس ایسی صلاحیت ہے جو ان میں نہیں۔ ایک دن آئے گا کہ تمہارے فادر کو تم پہ فخر ہوگا۔ آئی گارینٹیڈ“ گل نے اس کے دونوں گالوں کو چٹکی سے کھینچا۔ اس کی آنکھوں میں آس کے جگنو چمکنے لگے۔

”کیا آپ سچ کہتی ہیں؟“ آواز میں ہلکا سا جوش تھا۔
”ایک دم سچ۔“ وہ مضبوط لہجے میں بولی۔

اسی ہفتے اسکول میں ایک آرٹ ایگزیبیشن تھی۔ اس کے ساتھ ہی بزم ادب کا پروگرام رکھا گیا تھا۔ جس میں مہمان خصوصی کے طور پر بڑے بڑے عہدیداروں کو مدعو کیا گیا تھا۔ پنڈال سج گیا، مہمان کرسیوں پر بیٹھ گئے، تقریب شروع کی گئی۔ اس کا باپ مہمان خصوصی تھا۔ اس بزم میں دوسروں کے بچے اسی کے ہاتھ سے انعام لے کر جائیں گے۔ اور خود اس کا بیٹا سب سے پیچھے کسی کونے میں بیٹھا، پزل گیم میں مصروف ہوگا۔ کرسی سے ٹیک لگاتے ہوئے اس نے تکلیف سے سوچا۔

تقریب بھرپور انداز میں منعقد ہوئی، ایک سیگمنٹ ”عنوان دیں“ کے نام سے شروع کیا گیا۔ یہ اوپن چیلنج تھا، جو چاہے اس میں شرکت کر سکتا تھا۔ سٹوڈنٹ کی طرف سے بنائی گئی پینٹنگ جس پر ایک بچہ جس کے گرد تتلیوں کا ہجوم تھا پینٹ کیا گیا تھا، کو مناسب عنوان دینا تھا۔ یا کوئی عمدہ شعر جو بنانے والے کے خیالات کی ترجمانی کر سکتا ہو۔ کیمرہ مین نے پینٹنگ کو قریب سے فوکس کیا۔ وہ جو زیادہ قدآور نہ ہونے کے باعث آڈیٹوریم کی پچھلی کرسیوں پر بیٹھا تھا۔ اس تصویر کو دیکھ کر چونکا۔

”ولی! یو کین ڈو اٹ۔ پلیز گو“ گل نے باآواز بلند پکارا۔ اس نے ایک پل اسے دیکھا ایک پل پینٹنگ کو۔ دو چار بار وہ یونہی دیکھتا رہا۔ پھر اسے کچھ یاد آیا

”جو تمہارے پاس صلاحیت ہے، ان میں سے کسی کے پاس نہیں“ ۔
وہ دھیرے سے مائیک میں بولا

”یس! آئی کین“ ہال میں یک دم خاموشی چھائی تھی۔ گردنیں پیچھے کی طرف مڑی تھیں، اس کے باپ نے دیکھا۔ وہ آہستہ آہستہ ریمپ پر چلتا ہوا۔ اسٹیج تک آیا تھا۔ وہ انتہائی دبو قسم کا بچہ، بڑے اعتماد سے اتنے لوگوں کے سامنے کھڑا تھا۔

عنوان دیجیئے۔ کمپیئر بولا
”تتلی کے تعاقب میں کوئی پھول سا بچہ۔
ایسا ہی کوئی خواب ہمارا بھی کبھی تھا ”
مائیک بولا۔

سارا ہال تحسین و آفرین کے شور سے گونج اٹھا۔ یہ سب سے اہم پینٹنگ تھی۔ جسے اب تک کوئی بھی ڈھنگ کا عنوان نہ دے سکا تھا۔ اسے ایک چھٹی کلاس کے ابنارمل بچے، ولی بخت نے نام دیا تھا۔ اس نے سب سے بڑا انعام جیتا تھا۔ عثمان بخت بے اختیار اپنی کرسی سے اٹھا اور اسے اپنے سینے کے ساتھ لگا لیا۔

بیس سال بعد ۔

جیل کی سلاخوں کے پیچھے ایک بڑھیا جو کہ اپنی زندگی سے مایوس نظر آتی تھی، سر جھکائے بیٹھی تھی۔ جسے ایک جھوٹے مقدمے میں پھنسایا گیا تھا۔ جس کی رہائی اس وجہ سے نہیں ہو سکی تھی کہ اس کا شوہر مر چکا تھا اور وہ لاولد تھی۔ کہ جب جیل کا دروازہ کھلنے کی آواز پر چونکی۔

”اٹھ مائی! تیری رہائی ہو گئی ہے۔ کسی نے مقدمہ کرنے والوں پر کڑے ثبوتوں کے ساتھ مقدمہ کر دیا ہے۔ بہت بڑی پارٹی ہے وہ۔ ان سے بھی تگڑی۔ جس کے باعث انھیں یہ مقدمہ واپس لینا پڑا۔“

”لیکن کس نے؟“ اس نے جیلر سے پوچھا۔

”بہت بڑا آدمی ہے۔ یہ چٹھی دے گیا ہے وہ۔ اور ساتھ ایک بیس لاکھ کا چیک۔ کہتا ہے بیس سال پہلے جو تنخواہ میری وجہ سے کٹی تھی اس کا احسان نہیں اتار سکتا، لیکن جو کر سکتا تھا وہ کر رہا ہوں“ اس نے کپکپاتے ہاتھوں سے لفافہ کھولا۔ کورے کاغذ پر صرف ایک لائن لکھی تھی۔

”تتلی کے تعاقب میں کوئی پھول سا بچہ“
اندھیر کوٹھڑی میں، نیم روشن شکن زدہ چہرے پر مسکراہٹ پھیلی تھی۔
ہوبہو زندگی جیسی!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments