اسٹوڈنٹس کی حمایت کیوں؟


پاکستان کی مذہبی سوچ میں جو انتہا پسندی تھی اس انتہا پسندی کے فروغ میں ریاستی مفادات کا بہت بڑا عمل دخل رہا ہے، مگر آج کی مذہبی سوچ 20 سال سے پہلے کے مقابلے میں خود کو انتہاپسندی سے کافی حد تک الگ تھلگ کرنے میں کامیاب ہوئی ہے، اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ مذہبی سیاسی تنظیموں با الخصوص جے یو آئی نے اس پر بہت محنت کی ہے۔

میں مذہبی اور لبرل ازم یا سیکولرازم کی تقسیم کو اپنے معاشرے کے لیے نیک شگون نہیں سمجھتا ہوں، کیونکہ ہمارے بے شمار مسائل میں ایسے مشترکات ہیں جن پر مل کر کام کیا جاسکتا ہے جبکہ یہ تقسیم ہماری اجتماعی سماجی زندگی کی ترقی میں بے شمار مسائل کھڑی کر سکتی ہے، مگر پھر بھی اس تقسیم سے آنکھیں نہیں چرائی جا سکتی ہیں اور یہ نظریاتی تقسیم بہرحال موجود ہے۔

انتہاپسندی مذہبی ہو یا لبرل، اسے کسی صورت قبول نہیں کرنا چاہیے، ہمارے ہاں اس وقت کی جو انتہاپسندانہ رجحانات ہیں وہ کسی سوچ کے ساتھ مخصوص نہیں ہیں بلکہ ہمارے ارد گرد کے حالات سے مختص ہیں اور ان حالات نے مختلف فکر رکھنے والوں کی سوچ میں انتہا پسندی کے بیج بوئے ہیں اسے صرف مذہب کی طرف نسبت کرنا قرین انصاف نہیں ہے بلکہ ہر طبقہ اپنے مفادات کے تحفظ میں انتہاپسند ہے۔

مذہبی سوچ اپنی انتہاپسندی کا دور گزار چکا ہے مگر جن کا دعویٰ روشن خیالی کا ہے ان کی سوچ میں انتہاپسندانہ رجحانات حیران کن ہیں اور وہ آہستہ آہستہ حقیقت سے کافی دور ہوتے جا رہے ہیں، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جسے ہم سورج بتائیں وہی سورج ہے، جسے ہم چاند پکاریں وہی چاند ہے، جنہیں ہم تارے سمجھیں وہی تارے ہیں۔

لیکن ایسا نہیں ہوتا ہے، نظریاتی اختلافات اپنی جگہ، مشترکات پر بات کریں تو بات بنے،
ہمارے کچھ ایسے درد ہیں جو مشترک ہیں،
ایسے غم ہیں جو سانجھے ہیں،
ایسے دکھ ہیں جو ایک جیسے ہیں۔

افغانستان کے بدلتے حالات نے ہمیں ہمیشہ تقسیم کیا ہے، سوویت آیا ہم تقسیم ہوئے، امریکہ گیا ہم تقسیم ہوئے۔

افغانستان ایک الگ سرزمین ہے اس کا نظام کیا ہوگا وہ بہتر جانیں، ہماری خواہش ہے کہ افغانستان مستحکم ہو اور اس قوم کو چالیس سال بعد پھلنے پھولنے کا موقع ملے، طالبان کے آنے سے ہماری خوشی بس یہی ہے کہ ایک در بدر قوم کو استحکام نصیب ہوگا، کیونکہ طالبان کو قریب سے دیکھنے کے بعد یہ رائے پیدا ہوئی ہے۔ اپ حیران ہوں گے کہ میری اس وال پر کبھی بھی کسی انتہاپسند سوچ کی حمایت نہیں ہوئی ہے مگر طالبان کی حمایت کیوں ہے؟

اس لیے کہ!

افغان طالبان کے حوالے سے میرا شروع سے یہ موقف رہا ہے کہ یہ انتہا پسند نہیں ہیں، 1996 میں جب وہ برسر اقتدار آئے تو ان میں سخت گیری تھی، تشدد کا عنصر تھا، بہت کچھ غلط بھی ہوا مگر اس وقت ان کے زیر قبضہ علاقوں میں مثالی امن قائم تھا، لیکن اب ان میں جوہری تبدیلی اچکی ہے، نہ کسی کی داڑھی ناپی جا رہی ہے نہ کسی خاتون کو برقعہ نہ پہننے پر کوڑے مارے جا رہے ہیں، نہ کوئی مخالف کسی چوک پر لٹکتا نظر آتا ہے نہ کسی مسلک کو کوئی خطرہ ہے ( کابل میں طالبان نمائندوں نے عاشورہ کی مجلس میں شرکت کی ہے )

وہ نسل جن کی عمر آج تیس سال ہے وہ جب طالبان کا نام سنتے ہیں تو ان کے ذہن میں وہ طالبان آ جاتے ہیں جنہوں نے ملالہ پر گولی چلائی، جنہوں نے پشاور میں معصوم بچوں کا قتل عام کیا، جو مارکیٹوں میں بم پھاڑتے تھے اور ان کا نام بھی طالبان تھا اس نام کی وجہ سے افغان طالبان کو بھی نئی نسل اسی کھاتے میں شمار کرتی ہے جو 1996 کے بعد پیدا ہوئی ہے یا جوان ہوئی ہے۔ ٹی ٹی پی ( تحریک طالبان پاکستان) اور ٹی ٹی اے ( تحریک طالبان افغانستان) میں فرق کرنے بعد ہی حقیقت کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔

ملالہ پر گولی چلانے والے طالبان کو ہم بھی اسی طرح دہشت گرد سمجھتے ہیں جس طرح آپ سمجھتے ہیں، پشاور اسکول پر حملہ کر کے معصوم بچوں کے قاتلوں کو ہم بھی اسی طرح دہشت گرد سمجھتے ہیں جیسے آپ سمجھتے ہیں پاکستان میں ٹی ٹی پی تھی ( تحریک طالبان پاکستان) جو کئی گروپس میں تقسیم تھی اور دہشت گرد کارروائیاں کرتی تھی اگرچہ ٹی پی پی کا قیام بھی ایک ردعمل تھا جو ایک الگ موضوع ہے۔

افغان طالبان ایک الگ تحریک ہے اس کو ٹی ٹی پی کے کھاتے میں شمار کر کے دیکھیں گے تو آپ حقیقت کو جھٹلا رہے ہوں گے۔ یہ اب تحریک نہیں بلکہ ایک ریاست ہے، جہاں تک یہ کہ وہ پاکستان کے زیر اثر ہوں گے، میں اس کو درست نہیں سمجھتا ہوں، طالبان پاکستان سمیت دنیا کے تمام ممالک سے اپنے ریاستی مفادات کو مدنظر رکھ کر آزادانہ تعلقات قائم کریں گے، وہ اتنے کمزور نہیں کہ کسی ملک کا بغل بچہ بنے رہیں۔ ان کی آزاد خارجہ پالیسی ہوگی جو بقائے باہمی کے اصولوں پر مبنی ہوگی۔

طالبان نے افغانستان پر چار دن میں قبضہ نہیں کیا ہے، بیس سالوں سے وہ لڑ رہے ہیں، گزشتہ پانچ سے سات سالوں میں ساٹھ فیصد افغانستان ان کے کنٹرول میں تھا، افغان فوج ڈی مورال تھی، دیہی ایریاز میں طالبان کا نظام حکومت قائم تھا، افغان حکومت صرف شہری علاقوں میں محدود تھی۔

ایک ہفتے سے وہ کابل میں ہیں جہاں شروع دن سے اب تک معمول کی زندگی ہے کوئی افراتفری نہیں ہے، لاکھوں لوگ کابل کی سڑکوں پر ہیں، طالبان کے خلاف لڑنے والے بھی کابل میں اپنے گھروں میں پر سکون ہیں، طورن اسماعیل خان، عبداللہ عبداللہ حامد کرزئی جیسے ان کے سخت مخالفین کو بھی امن ہے۔

سوشل میڈیا اور بی بی سی پر اتنے جھوٹ بولے جا رہے ہیں جن کی کوئی حد نہیں ہے، حقیقت حال سے واقف لوگ یہ جھوٹ سن کر سر پیٹتے ہیں، جب کہ حقیقت حال سے ناواقف لوگ یہ جھوٹ پڑھ کر طالبان کو وحشی اور درندہ تصور کرتے ہیں۔

افغان ایک نئے دور میں داخل ہو گئے ہیں، چالیس سالہ کشت و خون کے بعد انہیں امن نصیب ہوا ہے آئندہ دس سالوں میں یہ قوم ترقی کے نئے آسمان چھوئے گی، پروپیگنڈوں سے متاثر لوگوں کے لیے میری یہ باتیں مذاق ہوں گی مگر یہی آج کی حقیقت ہے۔

یہ نہیں کہ ہم مذہبی جذبات سے مغلوب ہو کر طالبان کی حمایت میں کود پڑے ہیں، بلکہ ہمارے سامنے کچھ حقیقتیں ہیں جن کی بنا پر ہماری نظر میں وہ اس قابل ہیں کہ ان کی حمایت کی جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments