پی ڈی ایم کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا؟


قیام پاکستان کے بعد جب سے جمہوری حکومتیں قائم ہوتی رہی ہیں تو وہاں پر اس جمہوری حکومت کو ٹف ٹائم دینے کے لیے اپوزیشن جماعتوں کا مشترکہ پلیٹ فارم بھی قائم ہوتا آ رہا ہے جو منتخب جمہوری حکومتوں کو دفاعی پوزیشن لینے پر مجبور کر دیتا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کی ضرورت اس وقت محسوس ہوتی ہے جب حکومت اپنے ملک کی عوام کی آواز کو ترجیح نہ دیتی ہو، ان کے مسائل حل نہ کرتی ہو، بیروزگاری حد سے زیادہ بڑھ رہی ہو، پاکستانی عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہی ہو تو اس لمحے پاکستانی عوام ایک ایسی سیاسی جماعت کی طرف دیکھنا شروع ہو جاتی ہے جو اپنی آواز کو عوام کی آواز کے ساتھ ملا کر حکمرانوں کے ایوانوں تک پہنچانے میں کامیاب ہو سکے تو وہاں پر سیاسی خلاء کو پورا کرنے کے لیے اپوزیشن جماعتیں اکٹھی ہو کر ایک پلیٹ فارم بناتی ہیں جس کا مقصد صرف عوام کے مسائل کو میڈیا کے ذریعے حکمرانوں تک پہنچانا ہوتا ہے۔

پاکستان میں سب سے پہلا اپوزیشن کا اتحاد 1954 ء میں ”آزاد پاکستان پارٹی“ کے نام سے بنا جس کی قیادت میاں افتخار الدین نے کی تھی۔ یہ جماعت 1956 میں مشرقی پاکستان کی مضبوط بنگالی تحریک سے جڑ کر نیشنل عوامی پارٹی کی صورت میں پاکستان کی بانی جماعت مسلم لیگ کے مقابل ایک بڑے محاذ کی صورت میں کھڑی ہوئی تھی اور اس پارٹی کے بارے میں تصور کیا گیا تھا کہ اگر 1956 ء کے آئین کے تحت وطن عزیز میں پہلے آزادانہ انتخابات ہو جاتے تو پاکستانی حکومت مسلم لیگ کی بجائے نیشنل عوامی پارٹی کے ہاتھوں میں ہوتی۔

ابھی یہ چپقلش سیاسی جماعتوں کے درمیان جاری ہی تھی کہ اکتوبر 1958 ء میں ایوب خان نے پاکستان کے اندر مارشل لاء نافذ کر دیا اب سیاسی جماعتوں نے مارشل لاء کی حکومت کو ختم کرنے کے لیے ایک بار پھر اکٹھا ہونا شروع کیا اور ایوب خان کی حکومت گرانے کے لیے یقیناً نوابزادہ نصر اللہ کی قیادت میں ایک متحدہ محاذ بنا اور پھر اس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو صاحب کی صورت میں ایک بڑے عوامی ابھار نے ایوبی آمریت کے خاتمے میں نمایاں کردار ادا کیا۔

اس آمریت کے خاتمے کے ساتھ ہی ذوالفقار علی بھٹو اقتدار کے ایوانوں تک پہنچے اور پاکستان نیشنل الائنس کا قیام وطن عزیز میں وہ پہلا اپوزیشن اتحاد تھا جو بھٹو صاحب کی سویلین حکومت ختم کرنے کے لیے وجود میں آیا اور جس میں جماعت اسلامی جیسی دائیں بازو کی جماعت بھی تھی اور ترقی پسند سیکولر جماعت نیشنل عوامی پارٹی بھی، مگر زیادہ اہم بات یہ ہے کہ پی این اے کو شورش زدہ اسٹریٹ پاور بنانے میں براہ راست امریکا بہادر کا ہاتھ تھا جو مقبول عوامی لیڈر کو پہلا اسلامی بم بنانے کی پاداش میں مثالی سزا دینا چاہتا تھا۔

پیپلز پارٹی کی حکومت کے خاتمے کے بعد جنرل ضیاء کی طاقتور حکومت کے خلاف بننے والا اتحاد یعنی تحریک بحالی جمہوریت یا ایم آر ڈی کا قیام 1981 ء میں عمل میں آیا۔ اس تحریک کی ناکامی کا ایک بڑا سبب سب سے بڑے صوبے پنجاب میں عوام کا بڑے پیمانے پر متحرک اور مزاحمت نہ کرنا اور اس کا سندھ تک محدود ہونا تھا۔ ایم آر ڈی کی تحریک کے دم توڑنے کے بعد اگلے 5 سال ضیاء الحق کی فوجی حکومت کے خلاف کوئی بڑی مزاحمتی تحریک نہ چل سکی حتیٰ کہ خود ایک پراسرار سانحے کی صورت میں فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق اس جہان سے کوچ کر گئے۔

اس کے بعد 80 ء اور پھر 90 ء کی دہائی میں جس اپوزیشن کے اتحاد نے شہرت حاصل کی وہ اسلامی جمہوری اتحاد یعنی آئی جے آئی تھا۔ جس کی بنیاد ڈالنے میں اس وقت کے پرائم ایجنسی کے ایک میجر اور بریگیڈیئر بڑے کریڈٹ لے کر گئے، جس میں ریٹائرڈ میجر عامر اور بریگیڈیئر امتیاز پیش پیش تھے۔ اس کے بعد پاکستان میں تیسرے مارشل لاء کے داعی جنرل پرویز مشرف کے خلاف کوئی بڑا اپوزیشن اتحاد وجود میں نہیں آیا۔ تاہم کالے کوٹوں کی قیادت میں جو تحریک چلی اس میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) سمیت ساری ہی اپوزیشن جماعتیں شامل تھیں۔

جس نے پرویز مشرف کے خلاف سڑکوں پر نکل کر جدوجہد کی۔ پرویز مشرف کے مارشل لاء کے خاتمے کے بعد ملک میں دو بڑی سیاسی جماعتوں کا وجود رہ گیا تھا جو پاکستان مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کی شکل میں اس ملک پر حکومت کرتا رہا۔ اب جب 2018 ء کے الیکشن میں تحریک انصاف جنرل الیکشن جیتنے میں کامیاب نظر آئی تو شروع شروع میں اپوزیشن عمران خان کے خلاف اکٹھی نہ ہو سکی لیکن پھر مولانا فضل الرحمٰن نے تمام اپوزیشن جماعتوں کو ”پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ“ کے نام سے ایک چھتری تلے اکٹھا کیا جس کا واحد مقصد اس حکومت کو گھر بھیجنا تھا۔

پی ڈی ایم نے اپنے ابتدائی مراحل بڑی کامیابی کے ساتھ مکمل کیے جس میں ملک کے چاروں صوبوں میں بڑے بڑے جلسے منعقد کرنا اور ریلیاں نکالنا تھا، پی ڈی ایم کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو دیکھ کر حکومت دفاعی پوزیشن لینے پر مجبور ہوئی اور عوام بھی حکومت کے خلاف سڑکوں پر نکلنے کے لیے پی ڈی ایم کا ساتھ دینے لگی لیکن اس پی ڈی ایم میں ٹوٹ اس وقت پڑی جب دو بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان استعفوں کے معاملے پر ڈیڈ لاک برقرار تھا، مسلم لیگ نون چاہتی تھی کہ صوبوں اور قومی اسمبلی کی نشستوں سے استعفے دیے جائیں جبکہ پیپلز پارٹی کا موقف تھا کہ استعفوں کی بجائے پارلیمنٹ کے اندر رہتے ہوئے اس سیلیکٹڈ حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی جائے اور یوں اس حکومت کا خاتمہ کر دیا جائے کیونکہ تحریک انصاف کی حکومت مضبوط کندھوں پر نہیں کھڑی ہوئی بلکہ اپوزیشن جماعتوں کے ایک جھٹکے سے یہ حکومت ختم ہو سکتی تھی۔

یہاں پر اگر میں اپنی رائے بیان کروں تو میرے نزدیک پاکستان پیپلز پارٹی کا موقف سب سے مضبوط موقف تھا کیونکہ اگر آپ نے اسمبلیوں سے استعفے ہی دینے تھے تو آپ حلف ہی نہ اٹھاتے جس کا اقرار مسلم لیگ نون کے قائدین وقتاً فوقتاً کرتے رہتے ہیں لیکن اگر آپ نے حلف اٹھا لیا ہے تو آپ کو استعفے دینے کی بجائے عدم اعتماد کی طرف بڑھنا چاہیے کیونکہ اگر اپوزیشن جماعتیں اکٹھی ہو کر بغیر کسی خلائی دباؤ کے یوسف رضا گیلانی کو سینٹ کا ممبر منتخب کروا سکتی ہیں تو وہ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کو کامیاب بھی کر سکتی ہیں۔

اپوزیشن جماعتوں کے بکھرنے کی وجہ سے تحریک انصاف کی حکومت کے سینکڑوں کرپشن کیسز کی معلومات عوام تک پہنچنے میں ناکام رہیں، مثال کے طور پر ادویات اسکینڈل، آٹا اسکینڈل، چینی اسکینڈل، بلین ٹری سونامی اسکینڈل، راولپنڈی رنگ روڈ اسکینڈل۔ یہ وہ بڑے اسکینڈلز ہیں جن کو اپوزیشن عوامی سطح پر اٹھانے میں بالکل ناکام نظر آئی۔ اگر انہی کیسز کے خلاف کارروائی کرنے اور ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے پی ڈی ایم کا مشترکہ پلیٹ فارم استعمال کیا جاتا تو اپوزیشن کی طرف سے حکومت کے اوپر مزید دباؤ بڑھ جانا تھا۔

اس لیے پی ڈی ایم کے سربراہ کو چاہیے کہ وہ پیپلز پارٹی اور اے این پی کو دیے گئے شوکاز نوٹس واپس لیں اور اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کی حکمت عملی پر عمل درآمد کرتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں کو ایک بار پھر اکٹھا کریں اور حکومت کے خلاف مضبوط موقف اختیار کر کے اس سیلیکٹڈ حکومت کو گھر چلتا کریں تاکہ اپوزیشن جماعتوں کا یہ گرینڈ الائنس کامیابی کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments