میں اور شیطان


وہ میرا ہم عصر و ہم نوا۔ میرے آباء کے زمانے کی آخری، ”غیر تبدیل شدہ“ نشانی ہے۔ اس پر ایمان لائے بغیر چارہ نہیں، اس کے وجود سے انکار، اس کی چالوں سے فرار ممکن نہیں۔ میرے اور میرے آباء کے بہت سے راز اس کے پاس محفوظ ہیں۔ ایسا شخص جو آپ کے متعلق سب کچھ جانتا ہو، اسے یا تو آپ کا دوست ہونا چاہیے یا پھر ہونا ہی نہیں چاہیے۔

گو کہ میں آخر الاذکر کلیے کو بہترین حل مانتا ہوں۔ لیکن کم بخت نے دنیا میں جو رونق لگا رکھی ہے، سوچتا ہوں اگر یہ نہ ہوتا تو دنیا کیسی بے کیف و بدرنگ ہوتی۔ ”

٭٭٭٭٭

ابلیس ہاتھ پر ہاتھ دھرے، بے فکرے تھڑے باز کی طرح، سلوٹ زدہ مکرہ چہرہ لئے بیٹھا تھا۔ میں نے یونہی ازراہ مزاح پوچھا۔

”ازل سے لے کر اب تک دنیا والوں کو خوب ستایا، اب ستانا چھوڑ دیا یا بہکانا بھول گئے؟ یا پھر ساری توانائی ختم ہو گئی“ وہ زہریلی ہنسی ہنسا اور کہنے لگا۔

”بیوقوف آدم زاد! نہ میں تھکا، نہ میری توانائی ختم ہوئی۔ دیکھتے نہیں ہو؟ لوگ شیطانیت میں خودمختار ہو گئے ہیں۔ میری ضرورت ہی نہیں رہی۔ بس اسی لئے ویلا بیٹھا، اس“ خودمختاری ”کا تماشا دیکھتا ہوں“

٭٭٭٭٭

وہ بچوں کے پارک میں بیٹھا، انہیں الٹی سیدھی حرکتیں کرتا ہوا دیکھ رہا تھا۔ دو بچے پیڑ پر چڑھ کر پاؤں کے بل الٹے لٹکے ہوئے تھے۔ وہ جو کب سے بے کیف بیٹھا تھا، انہیں دیکھ کر اس کی باچھیں کھل گئیں۔

میں ان بچوں کو دیکھ کر ٹھٹھکا۔ وہ پیروں کی گرفت، ٹہنی پر ڈھیلی پڑتے ہی، یا پھر ٹہنی کے کمزور پڑتے ہی، کسی ہی پل زمین پر ہوں گے۔

”اوئے اترو نیچے، یہ ٹہنی کمزور ہے۔ کسی ہی پل تمہیں اپنے سمیت زمین پر پٹخ دے گی۔“ میں چلایا۔ لیکن وہ سن کے نہیں دیتے تھے۔

وہ میری اس بات پر زور زور سے ہنسا۔

”یہ انسان کے بچے ہیں، نصیحت ان کے لئے تقریر و تحریر کے سوا کچھ نہیں ہوتی، یہ جب تک گر کر منہ نہ تڑوائیں، یا جب تک ٹھوکر کھا کر اپنی تھوتھنیاں لال نہ کروا لیں، نصیحت ان کے کانوں سے دماغ تک نہیں پہنچتی“ میں اس کی بات سنی ان سنی کرتا، پھر سے ان پر چلانے لگا۔

کہ یکایک، کمزور شاخ تنے سے جدا ہو کر ان شریروں سمیت زمین پر آ رہی۔ کچھ ہی دیر بعد وہ اپنے پہلو سہلاتے اطمینان سے ایک کونے میں بیٹھے تھے۔

نصیحت انسان کے بچوں کے کانوں سے دماغ تک پہنچ گئی تھی۔
٭٭٭٭٭

”فرقہ پارسیان سے تعلق رکھنے والا، تمہارا دوسرا ساتھی کہاں ہے؟“ اس نے میرے ساتھی فرشتے کے متعلق دریافت کیا۔

”جب سے تمہاری بدبودار صحبت میسر آئی ہے وہ بھاگ گیا ہے، ۔ تم اپنی شکل دیکھو، جب ہنستے ہو تو تمہاری باچھیں گردن تک چر جاتی ہیں۔ تمہارے چہرے پر پھٹکار برستی ہے۔ تمہارے بھیانک دانت جب کھلتے ہیں تو لگتا ہے انسانیت کو دبوچ لیں گے۔ تمہارے سیاہ دل میں برسوں کا میل اٹا ہے۔ تمہاری سانسیں شیطانیت کی بدبو سے اٹی ہیں۔ کوئی گنہگار تمہاری اصل شکل دیکھ لے تو کبھی گناہ کی طرف نظر نہ کرے“ میں نے ناک پر ہاتھ رکھ کر کراہیت بھرے انداز میں کہا۔

”“ کتنے عجیب آدمی ہو تم؟ میں کب سے تمہارے ساتھ ہوں۔ پر تم نے میری ذات کے بخیے ادھیڑتے ہوئے ذرا بھی خیال نہیں کیا۔ اس وقت کا ہی لحاظ کیا ہوتا جو ہم نے ساتھ بتایا۔ تم انسانوں کے تعلقات میں ناپائیداری تمہاری انہی گندی خصلتوں کی وجہ سے ہے۔ تم بس گناہ گاروں کو دیکھ کر ناک پر رومال نہیں رکھتے، ورنہ گھن کھانے میں تم کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔

مجھے بتاو وہ کہاں کا پارسا ہوا جو گناہگاروں سے خار کھاتا ہو؟ ”وہ متعجب تھا۔
پھر تیور بدل کر بولا

”“ مجھے لگتا ہے تم تعلق نبھانے سے زیادہ سونگھتے ہوں گے؟ دوسروں کو سونگھنا انسانی صفت تو نہیں ہے البتہ کتوں کی خصلت ضرور ہے۔ ”میرے سچ نے اس کے من میں کیسا بھانبڑ جلایا تھا۔ ہاہا

سب گناہ گار، غلیظ، گندے، جرائم میں ملوث، خطا کاریوں میں لتھڑے ترحم پسند لوگ ایسے ہی جواز دیتے ہیں ”صفائی پسندوں“ کو۔

ہے ناں؟
٭٭٭٭٭٭
اے سی کی خنکی اور آفس کے آرام دہ ماحول کو دیکھ کر وہ میرے کان میں گھسیڑ کر بولا۔

”کیوں ناں۔ جھٹ سو لیا جائے؟ یوں بھی رات بھر بچے کی ٹاں ٹاں سے پریشان رہے“ خیال اچھا ہے۔ میں نے ادھر ادھر دیکھ کر سوچا

کچھ ہی دیر بعد مجھے ٹیبل پر سر رکھ کر سوتا دیکھ کر، میرا باس مجھ پر برس رہا تھا۔
اس کی بے تکی باتیں سن کر، دوچار میں نے بھی سنائیں اور پھر جھنجھلا کر گھر لوٹ آیا۔

”یہ سب اس عورت کی وجہ سے ہوا ہے۔ بھلا یہ بچے کو چپ بھی تو کروا سکتی تھی۔ لیکن نہیں ان عورتوں کو مزہ آتا ہے شوہروں کو بے آرام کر کے۔ اب دیکھو خود کیسے پسر کر سو رہی ہے؟“ وہ خیال بن کر میرے دماغ میں دوڑا۔ ٹھیک ہی تو کہ رہا تھا۔

کچھ دیر بعد میں اپنی بیوی کو لتاڑ رہا تھا۔ پھر اس نے بھی وہی کیا جو میں آفس میں کر کے آیا تھا۔ بچے کو گود میں اٹھایا اور میکے چل دی۔ بیوی کو ناراض دیکھ کر میری ماں (جس کا بہو کے میکے جانے پر ہی اس سے ایکا ہوتا تھا) مجھ سے خفا ہو گئی۔

چند منٹ کی آرام طلبی نے میرا اتنا بڑا نقصان کیا تھا۔ شیطانیت بہت بڑے فساد بپا کرنا یا قتل و غارت گری کرنا ہی نہیں ہوتی۔ یہ بہت چھوٹی سی بات سے شروع ہوتی ہے۔ چھوٹے سے تعیش، چھوٹی سی آرام طلبی، چھوٹے سے خودساختہ فریب، یا پھر چھوٹی سی خود پسندی سے۔

اپنے رویے پر پشیمان ہو کر میں نے مصلا بچایا (جیسا کہ ہمارے ہاں رواج ہے، بڑھاپا آنے یا سب کچھ لٹ جانے کے بعد خدا سے للو چپو کرنے لگتے ہیں ) گڑگڑا کر معافی مانگی اور شیطان سے پناہ بھی۔

میری دعا پر وہ گلے کے بل چیخا۔

”“ یا اللہ! یہ جھوٹ بکتا ہے۔ میں نے اسے نہیں بہکایا۔ میری ایسی پہنچ کہاں۔ یہ انسانی دماغ، مجھ سے چار ہاتھ آگے ہے۔ میرا یقین کر فارغ وقت میں، میں شیطانیت کی، خود اس سے ٹیوشن لیتا ہوں۔ آیا ایسا منا کاکا؟ میرے بہکاوے میں آنے والا؟ ہونہہ ”“

میرے پاس الزام دھرنے کی سہولت تھی۔ سو اس سہولت کو میں نے بڑی سہولت سے استعمال کیا۔ اس کے پاس نہیں تھی تو وہ چیختا رہا۔

تھا بھی مردود اسی لائق!
٭٭٭٭

میں نے اخیر عمر میں، قومی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے، نو سو چوہے کھا کر حج کرنے کی ٹھانی، رمی کے لئے پتھر اٹھا کر باقی لوگوں کی معیت میں جب اس پر پتھر اٹھا کر پھینکنا چاہا، تو اس نے حیران ہو کر میری طرف دیکھا جیسے کہ رہا ہو:

مجھے تھوڑی سی شرمندگی ہوئی۔ ”تم بھی؟
٭٭٭٭٭

میں نے خود کو، ایک نیم تاریک کوٹھڑی میں فرش پر نیم دراز پایا۔ یہ جگہ اتنی ہی روشن تھی کہ میں بمشکل اپنے ہاتھوں کو دیکھ پاتا۔ کچھ لمحے خود کو اور ادھر ادھر گھورنے کے بعد ، میری آنکھیں کسی حد تک اندھیرے سے مانوس ہونے لگیں۔

میرا جسم تقریباً بے جان تھا۔ میں چاہ کر بھی ہل جل نہیں سکتا تھا۔ شاید میں مر رہا تھا، یا مر چکا تھا۔

کچھ وقت گزرنے کے بعد ، ایک لمبا تڑنگا، بدہیئت شخص، تیوری چڑھائے نمودار ہوا۔ عام حالات میں، میں اس کی بے ڈھنگی شکل دیکھ کر ضرور ہنستا۔ لیکن مرے بے جان وجود نے اس بار مجھے اس کی اجازت نہیں دی۔

”دنیا میں کیا کر کے آئے ہو؟“ گرجدار آواز گونجی

”وہی جو سب کرتے ہیں، وہی جو ہماری قوم کرتی آئی ہے، کھانا پینا اور سو جانا“ میں نے بنا مرعوب ہوئے اسے اطلاع دی

”لیکن تمہیں کسی اور کام کے لئے بھیجا گیا تھا“
”ہاں ہاں! میں نماز وغیرہ سہولت دیکھ کر پڑھ لیا کرتا تھا“ میں نے بڑے زعم سے کہا۔
”نماز کا کس نے پوچھا؟ تم نے دنیا کی بد رنگی شکل کو قابل قبول بنانے میں اپنا کیا کردار ادا کیا؟“

جب میں پیدا ہوا تھا، دنیا بوڑھی ہو چکی تھی، اس کی نسوں میں دوڑتا خودغرضی، حرص اور مکاری کا خون اس کے دل و دماغ میں رم چکا تھا۔ وہ اپنے روئیے کی لچک کھو چکی تھی۔ میں اس کی شفایابی کے لئے کچھ کرتا بھی تو دنیا والوں کو لگتا کہ میں انہیں اذیت دے رہا ”

جھوٹ ایک دم جھوٹ ”وہ دھاڑا“ اس عورت کو دیکھو! یہ تمہارے متعلقین میں سے ہے۔ یہ بچے، یہ بزرگ اور یہ باقی کچھ لوگ ”اس عورت کی شکل جانی پہچانی سی لگتی تھی۔ جیسے اس سے کہیں مل چکا ہوں۔ لیکن میرا دل اسے دوبارہ دیکھنے پر مائل نہ تھا۔ یہ دنیا کی واحد عورت تھی جسے میں پلٹ کر دیکھنا نہ چاہتا تھا۔

ارے! یہ تو میری بیوی ہے۔ ”کچھ یاد آیا“ لیکن تم اسے یہاں کیوں اٹھا لائے ہو؟ ”وہ اسے کچھ کہ رہی تھی، جیسے میری شکایت کر رہی ہو“ یہ کبھی مجھے خوش نہیں دیکھنا چاہتی تھی، یہاں بھی اسی لئے آئی ہے تاکہ حوروں کے سامنے میرا امیج خراب کرسکے ”میں نے اسے قائل کرنے کی بے سود کوشش کی۔

تم سے جو پوچھا جائے اس کا جواب دو ”

”کس سوال کا جواب دوں؟ سارا پیپر آؤٹ آف سلیبس ہے“ میں چلایا نماز کا سوال ہونا تھا، میں نے پڑھی، روزے رکھنا تھے میں نے رکھے، ”

”لیکن اہم سوالات تم چھوڑ گئے۔ تم نے کارکردگی کے نام پر، ناراض بیوی، رنجیدہ والدین، پریشان بچے اور خفا باس چھوڑا“ وہ مصر تھا۔

”یہ فراڈ ہے۔ انتہائی غلط بات۔ یہ سوالنامہ آؤٹ آف سلیبس ہے“ میں ایک نکمے طالب علم کی طرح ایگزامنر پر چلا رہا تھا۔

آؤٹ آف سلیبس کہ رہے ہو؟ کبھی خود سلیبس پڑھا ہے؟ دیکھا بھی ہے کہ تمہارے نصاب میں کیا کیا کچھ شامل تھا؟ نماز روزہ تو دو سوال تھے، کیا دو سوالوں کی بناٰ پر سو سوالوں کے پرچے میں پاس ہوا جاسکتا ہے؟ تم ناکام ہوچکے ہو ایک دم ناکام ”

مجھے شیطان نے بہکایا تھا، وہ جیسے کہتا تھا میں کرتا جاتا تھا ”میری اس بات پر وہ دل کھول کر ہنسا۔

”شیطان؟ کون سا شیطان؟ ضمیر اور شیطان تو تمہارے اندر کی دو آوازیں تھیں۔ صرف دو آوازیں۔ یہ دماغ اسی لئے دیا تھا کہ کسی آواز پر لبیک کہنے سے پہلے، کسی کی رائے کو مقدم ماننے سے پہلے، پہلے سے مروجہ آراء پر کان دھرنے سے پہلے، بھیڑ چال کا حصہ بننے سے پہلے، کم ازکم ایک بار سوچ لو“ وہ قدم بہ قدم میری طرف بڑھ رہا تھا۔ اور میں اس خوف سے دیوار سے چپک رہا تھا۔ میری سانس بند ہو رہی تھی۔ میں ہاتھ پاؤں مار رہا تھا۔

کہ یک دم، میری ماں نے مجھ پر سے کمبل کھینچا۔ میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔
تھینک گاڈ یہ خواب تھا۔

اوہ تو وہ کمبل میری ناک پر پڑا تھا، جس کے باعث مجھے لگ رہا تھا کہ جیسے میرا دم گھٹ رہا ہو۔ میرا بیٹا، ہائی والیوم کے ساتھ ٹی وی پر پروگرام دیکھ رہا تھا۔ میری بیوی فون پر اپنی ماں سے بات کر رہی تھی۔ دونوں طرف کے ڈائیلاگز میری سماعتوں میں گم ہو کر میرے دماغ کی اسکرین پر چل رہے تھے۔

یہ انسانی دماغ بھی ناں۔ کتنا شیطان ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments