مطالعہ پاکستان سے معذرت کے ساتھ (2)


آج دنیا میں کل 195 ممالک ہیں۔ 193 ممالک اقوام متحدہ کے ممبران ہیں، جبکہ 2 ممالک آج بھی اقوام متحدہ کے ممبر نہیں۔ ان 195 ممالک میں سے پاکستان اور اسرائیل کے علاوہ دنیا کا کوئی ملک نظریاتی وجود نہیں رکھتا۔ فی الحال باقی دنیا کو چھوڑئیے، ہم مملکت خدا داد کی بات کرتے ہیں۔ وفاقی دارالحکومت میں نویں جماعت کو پڑھائی جانے والی مطالعہ پاکستان کی کتاب کے باب اول کا موضوع ہے ”پاکستان کی نظریاتی اساس“ ۔

کتاب کے پہلے باب کو پڑھنے کے بعد مجھے اس سوچ نے گھیر لیا کہ آج دنیا کے بیشتر ممالک کسی قومی نظریہ کے بغیر ترقی کیسے کر گئے! کیوں کہ اس کتاب کے مطابق نظریات ہی قوموں میں ”شعور“ پیدا کرتے ہیں، اور یہی نظریات ”کامیابی“ کے ضامن ہیں۔ کتاب میں مزید یہ بھی لکھا ہے کہ ”نظریہ ہی کسی معاشرتی یا ثقافتی تحریک کو بنیاد فراہم کرتا ہے“۔ مزید یہ کہ جو قومیں نظریہ کو نظر انداز کریں، ان کا وجود خطرے میں پڑ جاتا ہے اور کوئی دوسرا نظریہ انہیں اپنے اندر ”ضم“ کر سکتا ہے۔

یعنی نظریہ پاکستان کا فلسفہ گھڑے جانے سے پہلے برصغیر کے اس خطے میں بسنے والوں کی کوئی معاشرتی یا ثقافتی اقدار نہیں تھی! ہم سب جانتے ہیں کہ دریائے سندھ کی تہذیب کا شمار قدیم ترین تہذیبوں میں سے ہوتا ہے اور جس خطے میں آج پاکستان ہے یہاں کی ثقافتی تاریخ اسلام سے بھی پرانی ہے۔

جب ہماری ریاست قوموں کی ترقی کو نظریہ سے جوڑنے کی کوشش کرتی ہے تو یہ اور بھی مضحکہ خیز بات محسوس ہوتی ہے کیوں کہ نظریہ پاکستان جیسے ”خزانے“ کے باوجود پچھلے 74 سال سے ہم زوال پذیر ہیں۔ جبکہ نظریہ سے بانجھ قومیں اسی عرصہ میں تیزی سے ترقی کر گئی۔

امریکا میں بچوں کو کوئی نظریہ امریکا نہیں پڑھایا جاتا، اور نا ہی وہاں کے بانیوں نے ایسا کوئی نظریہ گھڑنے کی ضرورت محسوس کی، اور پھر بھی امریکا آج دنیا کی اکلوتی سپر پاور ہے۔ امریکا کو آج یہ ڈر نہیں ہے کہ کوئی نظریہ امریکا بنا کر بچوں کو پڑھایا جائے ورنہ کوئی اور نظریہ امریکی قوم کو اپنے اندر ضم کر لے گا۔ یہاں اس بات کا ذکر کرنا ضروری سمجھوں گا کہ امریکا میں اسکول کے بچوں کو کسی ”افسانوی نظریے“ کی جگہ آئین پڑھایا جاتا ہے۔

خیر، زیر بحث کتاب کے پہلے باب میں جو کچھ پڑھا، اسے پڑھ کر یہی محسوس ہوتا ہے کہ ہماری ریاست شدید قسم کے عدم تحفظ کا شکار ہے۔ ہم اکیسویں صدی میں بھی اپنے بچوں کا وقت وہ پڑھانے میں برباد کر رہے، جس کو پڑھانے سے آج تک کوئی مثبت نتیجہ بھی نہیں ملا۔

اس زمین کے باسیوں کی اپنی سیاسی، سماجی، معاشرتی اور ثقافتی تاریخ کو یکساں نظر انداز کر کے پوری قوم کو مخصوص ریاستی نظر سے تاریخ اور ثقافت سمجھانے اور قبول کرنے کی کوشش نے خاص کر چھوٹے صوبوں کی عوام کے اندر دہائیوں سے بے چینی پیدا کی ہوئی ہے۔

ہماری ریاست کو یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہیے کہ پاکستان ایک قومی ریاست ہے اور قومی ریاست کا تعلق مخصوص جغرافیائی حدود میں بسنے والے تمام لوگوں سے، اور ان کے مختلف مذہبی، سماجی، لسانی، ثقافتی تشخص سے ہوتا ہے۔ پاکستان میں بسنے والے افراد کو ایک سانچے میں ڈھالنے والی ریاستی پالیسی ایک پاگل پن ہے۔

جب پاکستان بنا تو اس ملک کے دس فیصد سے کم افراد اردو بول سکتے تھے۔ اردو کو واحد قومی زبان قرار دینے، اور بنگالی زبان کو یکساں نظر انداز کرنے کی غلطی کا خمیازہ ہم نے سقوط ڈھاکہ کی شکل میں بھگتا۔

صدیوں سے نسل در نسل اس خطے میں رہنے والے لوگوں کے اپنے مذہبی، لسانی اور ثقافتی تشخص کو اہمیت نہ دے کر سب کو زبردستی اسلام اور اردو والی ”پاکستانیت“ میں ضم کرنے کی کوشش لیاقت علی خان صاحب نے شروع کی تھی۔ لیاقت علی خان صاحب کا خاندان 1947 ء کے بعد ہجرت کر کے پاکستان آیا تھا اور مقامی سندھی، پنجابی، بلوچی، پشتون اور بنگالی آبادی میں سے کسی بھی قوم میں ان سیاسی جڑیں مضبوط نہیں تھی۔ اس لئے لیاقت علی خان صاحب کے لئے تمام ملک کو ایک مخصوص ”پاکستانیت“ کے رنگ میں ڈھالنے کی کوشش کی وجہ سمجھ میں آتی ہے۔

ریاست کے مطابق نظریہ پاکستان اسلامی نظریہ حیات پر مبنی ہے۔ اگر صرف اسلام کی بات بھی کی جائے تو درجنوں فرقوں میں تقسیم ہوئے اسلام کی بہت سی تشریحات ہیں۔ شیعہ، سنی، دیوبند، اہل حدیث اور اس کے علاوہ بہت سے فرقے ہیں جو اسلام کو فرق فرق طریقہ سے دیکھتے، سمجھتے اور مانتے ہیں۔ اہل یورپ نے یہ بات آج سے 500 سال پہلے اچھے سے سمجھ لی تھی کہ مذہب کی ریاستی امور میں دخل اندازی تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں۔

بانی پاکستان جناب محمد علی جناح صاحب نے اپنی کسی تقریر میں کبھی بھی ”نظریہ پاکستان“ کا ذکر نہیں کیا تھا۔ سیاسیات کا کوئی بھی طالب علم قائد اعظم کی گیارہ اگست والی تقریر پڑھ کر یہ نتیجہ اخذ کر سکتا ہے کہ جناح صاحب پاکستان کو ایک جدید سیکولر قومی ریاست بنانا چاہتے تھے۔ لیکن آج بھی مطالعہ پاکستان پڑھ کر جوان ہونے والی نسل یہی سمجھتی ہے کہ قائد اعظم نے شریعت کے نفاذ کے لئے پاکستان بنایا تھا۔ اور ”نظریہ پاکستان“ کی بنیاد قیام پاکستان کے لئے دی جانے والی قربانیوں کے وقت رکھی جا چکی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments