بے حسی سے بے بسی پر ہنستے کیوں ہو؟


ہر انسان کے سوچنے کا ڈھنگ الگ ہے۔ ایک ہی چیز کسی کے لیے باعث مسرت اور کسی کے لیے باعث اذیت بن سکتی ہے۔ کبھی کبھی لوگوں کی سوچ مطابقت رکھتی ہے۔ ایک چھوٹی سی بات، واقعہ یا کہانی کسی کی زندگی بدل سکتی ہے۔

زندگی نام ہی کہانیوں کے مجموعے کا ہے۔ کبھی آپ کہانیوں کی تلاش میں رہتے ہیں اور کبھی وہ خود آپ کو ڈھونڈ لیتی ہیں۔

اچانک آپ کے سامنے آ کر کھڑی ہو جاتی ہیں۔ اس پر رونا ہے یا ہنسنا یا سوچنا یہ آپ پر منحصر ہے۔ کب کہاں خاموشی کو زبان مل جائے کچھ خبر نہیں۔ معلوم نہیں کہ کوئی بے جان چیز چیخ اٹھے۔

جو چیز شاید کسی کو کسی قسم کا احساس دینے سے عاری ہو عین ممکن ہے کہ ہم میں سے کسی کو اپنی کتھا سنا جائے۔ جیسے مجھے دیوار پر سوکھی چپکی بیلیں مرتے دم تک اپنی وفا کو یقین دلاتی دکھائی دیتی ہیں۔

دروازے کی آہٹ پر نئی کہانی کی دستک کا گماں ہوتا ہے۔ بند دریچہ کھلی ہوا میں سانس لینے کے لیے بے چین نظر آتا ہے۔ راہ چلتے سوکھے پتے چرمراتے ہوئے بڑبڑاتے سنائی دیتے ہیں۔ گھنی چھاؤں والا پیڑ تیز دھوپ کی تپش کو سہنے کا ہنر سکھلاتا ہے۔ گھر میں پڑی برسوں سے ایک خالی کرسی کا دکھ کچھ کہتا ہے۔ آسماں پر آدھے چاند سے پوری محبت ہو جاتی ہے۔ بوجھ سے رینگتی سائیکل غربت کی بات کرتی ہے۔ سرد راتوں میں سڑک کنارے ننھے ننگے پاؤں دل پر نقش ہو جاتے ہیں۔ پیار سے بولے دو میٹھے بول دل کے رازوں کا سرا پکڑا کر ادھڑتے چلے جاتے ہیں۔ بند صندوق میں کچھ بوسیدہ کپڑے، پھٹی فائل پر لگے کاغذ اور کچھ بے رنگ تصاویر پرانی یادوں کی کنجی کا پتہ دیتے ہیں۔ کبھی کبھی بے جان تصویر کا انگ انگ بول اٹھتا ہے۔ لہراتے درختوں کے سر سبز پتے کانوں میں سرگوشی کر جاتے ہیں۔ بوسیدہ گھر میں بوڑھی ماں اور ڈوبتا سورج ایک ہی کہانی کی بازگشت لگتی ہے۔ ستار نواز کی انگلیوں کی جنبش سے ٹوٹا تار اس کے ٹوٹے دل کی داستاں کا پردہ چاک کرتا ہے۔ یا پھر یوں کہہ لیجیے کہ ٹوٹا تار اس کے دل کے تار سے جا ملتا ہے۔ کتابوں پر پڑی گرد اپنے پڑھنے والوں کی منتظر نظر آتی ہے۔ باغ میں شام کے پہر ٹہلتا تنہا شخص اپنی الجھنوں کی سلجھن کی جانب قدم بڑھاتا ہے۔ آئینے کے آگے کھڑا شخص اپنی تلاش میں سرگرداں نظر آتا ہے۔ ہنستے مسکراتے چہروں کے پیچھے کوئی ایک گہرے زخم کا نشان واضح دکھائی دینے لگتا ہے۔ لوگوں کی جگ بیتیوں پر لوگوں کا مختلف ردعمل ہوتا ہے۔ اس کی وضاحت کے لیے ایک چھوٹی سی کہانی سنانی ہے۔ یہ کہانی ہے اس بچے کی جس پر لگائے گئے قہقہے مجھے رلا گئے۔ (میں اس کا فرضی نام مدثر رکھ رہی ہوں ) مدثر کا تعلق اس خاندان سے تھا جہاں ایک وقت کی روٹی پر سجدہ شکر واجب سمجھا جاتا ہوگا۔ ایسے میں کورونا کا دیو لوگوں کو نگلنے لگتا ہے۔ لوگ سہمے گھروں میں بند رہنا شروع ہو جاتے ہیں۔ تمام درسگاہیں ویران ہو جاتی ہیں۔ جہاں لوگوں کی چہل پہل ہوتی تھی وہاں سے بس ہوا گزرتی ہے۔ شہر بھر میں ہو کا عالم ہوتا ے۔ وہ ایک درسگاہ کے باہر کسی سوچ میں ڈوبا بیٹھا ہوتا ہے

ایسے میں کہیں سے ایسے لوگوں کا نمائندہ نمودار ہوتا ہے جس کو بچے کے احساس اور جذبات سے کوئی سروکار نہیں۔ اس کی ویڈیو بنائی جاتی ہے۔ سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوتا ہے تو وہ سکول بند ہونے کی شدید مخالفت کرتا ہے۔ وہ بچوں کے مستقبل کے لیے فکرمند دکھائی دیتا ہے۔ جلد از جلد سکول کھولنے کی درخواست کرتا ہے۔ پڑھے لکھے بالک کی طرح گفتگو کرنے کی ناکام کوشش کرتا ہے۔ اس سے جملوں کی درست بنت بھی نہیں ہو پاتی۔ انگلش کا لفظ درست نہ بولنے پر بار بار ویڈیو میں قہقہوں کی آواز سنائی دیتی ہے۔

جب اس سے یہ پوچھا کہ تم کون سی کلاس میں پڑھتے ہو تو اس نے بتایا کہ وہ پڑھتا نہیں ہے۔ تو پھر اس سے سوال کیا جاتا ہے کہ پھر سکول بند ہونے کی فکر میں وہ ہلکان کیوں کر ہو رہا ہے؟ اس کے جواب میں اس نے بتایا کہ وہ سکول کے باہر نان ٹکی لگاتا تھا۔ یہ سن کر قہقہوں کی آواز گونجتی ہے اور بار بار گونجتی چلی جاتی ہے۔

اب آئیے صاحب اصل مدعے پر جس پر ہم لوگوں کی بے حسی عروج پر ہے۔ کچھ سوال ہیں کہ کیا اس بچے کو سکول کے باہر نان ٹکی لگانا چاہیے تھی یا پھر دوسرے بچوں کی طرح درس گاہ میں پڑھنا چاہیے تھا؟ چلیں مان لیا کہ اس کی مالی حالات اجازت نہیں دیتے ہوں گے کہ وہ بھی تعلیم حاصل کرے۔ ہمارے ہاں عام طور پر اس عمر کے بچے والدین سے روز آنا کی بنیاد پر اپنا جیب خرچ لیتے ہیں یہ بچہ اپنے روزی کی تلاش ایک تعلیم گاہ کے باہر نان ٹکی بیچ کر اپنے گھر پیسے لے جاتا ہو گا۔ آپ کے خیال سے کتنی رقم روز کماتا ہو گا؟ یہ ہی کوئی سات آٹھ سو روپے۔ یہ تب ہی ممکن ہو سکتا ہوگا جب وہ بیس تیس نان ٹکی فروخت کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہو گا۔ ہفتہ وار تعطیل اور سالانہ چھٹیوں میں زندگی بسر کرنے کے لیے کیا جتن کرنے پر مجبور ہوتا ہو گا کیا خبر۔

ذرا سوچیئے روز آنا کی اس رقم کی آس میں کون کون بیٹھا ہو گا۔ آپ بھی جانتے ہیں کہ ایسے خاندانوں میں بچوں کی لائن لگی ہوتی ہے۔ بیماری گھر کا رستہ دیکھے رہتی ہے۔ تمام دن میں ایک ہی وقت کا کھانا نصیب ہونے پر خوشی منائی جاتی ہے۔ کپڑا لتا لینے کی نوبت نہیں آتی۔ دوسروں کی اترن بھی نصیب ہو جائے تو اس کو اپنی خوش نصیبی گردانا جاتا ہے۔

لوگ اسی بچے کو مذاق کا نشانہ بناتے ہیں۔ جو ان پڑھ ہونے کے باوجود اپنی بات پڑھے لکھے کی طرح سمجھانے کی سعی کرتا ہے۔ شاید اس کا خیال تھا اس انداز سے لوگ کو اس کا مدعا سمجھنے میں آسانی ہو گی۔ بچوں کے مستقبل کا رونا روئے گا تو کوئی اس کے مستقبل کے بارے میں بھی سوچے گا۔ ملک کی ترقی و تنزلی کی بات کرے گا تو بڑے بڑے عہدوں پر بیٹھنے والوں کی توجہ کا مرکز بن کر اپنا من چاہا مقصد حاصل کر پائے گا۔ لیکن ایسا تو کچھ بھی نہیں ہوا۔ اس کو ہنسی مذاق کا نشانہ بنایا گیا۔ اور بس۔

مانا کہ آپ کے اور میرے سوچ کے زاویے مختلف ہیں لیکن بس آپ سے اتنی سی التجا ہے کہ ہم لوگ جب لوگوں کے دکھوں کا مداوا نہیں کر سکتے تو ہمیں ان کی مجبوریوں پر قہقہے لگانے سے گریز کرنا چاہیے۔ ایک بار صرف ایک بار اگر اس بچے سے سنجیدگی سے یہ سوال پوچھیے کہ بیٹا آپ جب اس سکول میں پڑھتے بھی نہیں تو اس کے فوری کھل جانے کی تمنا کیوں دل میں رکھے ہوئے ہو۔ عین ممکن ہے آپ کے اس سوال پر وہ کچھ بھی کہنے کے بجائے بس رو دے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments