نئی منزلیں آواز دیتی ہیں!


دل کی چھتری پہ بیٹھے سب سے چھوٹے پرندے حیدر میاں نے بھی بالآخر اپنے پر کھول کے لمبی پرواز بھر ہی لی!

دور دراز اجنبی سرزمین پہ بنی انیسویں صدی کی پرشکوہ عمارت مندی آنکھوں سے دیکھتے اور مسکراتے ہوئے سب پرندوں کو اپنی آغوش میں سمانے کے لئے اپنے بازو وا کر دیتی ہے۔ دو صدیوں سے زمانے کے گرم و سرد سہتی، اپنے سائے میں دانا دنکا کھلاتی، سوچ کے نئے دریچے کھولتی، زندگی کی پرپیچ راہوں میں چلنے کا طریقہ سکھاتی ماں جیسی عمارت! نہ کسی کا رنگ دیکھتی ہے نہ نسل، نہ مذہب کا پیمانہ نہ جنسی تفاوت، بلا امتیاز علم بانٹنے پہ تیار کھڑی ہے! ہمیں تو اماں جیسی لگی وہ اور اس مہربان کو اپنا لخت جگر سونپنے کے بعد ہم بے وجہ سوچوں کے سمندر میں ڈوبے جاتے ہیں۔

نہ جانے وہ کیا کر رہا ہو گا؟ کچھ کھایا بھی ہو گا کہ نہیں؟ نہ جانے کونسا لباس پہنا ہو گا؟ میلے کپڑے کیسے دھوئے گا؟ دوست بنے ہوں گے کہ نہیں؟ اپنے آپ کو تنہا تو نہیں محسوس کرتا ہو گا؟ کھانے میں پسند کی چیزیں کیسے ملیں گی؟ دل کیسے لگے گا؟ روئے گا تو نہیں ؟ گھر چھوڑنا آسان کام تو نہیں ہوتا!

تم نے بھی تو چھوڑا تھا گھر ایک دن یونہی، اسی طرح! دل میں جیسے کسی نے چٹکی بھری!

ارے ہاں، ہم نے بھی ایک دن اسی طرح ماں باپ کے گھونسلے سے اڑان بھری تھی۔ تو کیا گھر کے دروازے پہ نم آنکھوں کے ساتھ بوسہ دے کر رخصت کرتی ماں نے یہی سوچا تھا؟ کیا ایسے ہی مختلف خیال ان کو گھیر کے پریشان کرتے تھے؟ کیا کرے گی؟ کیسے رہے گی؟ کیا کھائے گی؟ اور کب واپس آئے گی؟

اس وقت ہماری ماں اور ہمیں علم نہیں تھا کہ ماں کا بنایا ہوا گھروندا ہمیشہ کے لئے چھوٹ رہا تھا۔ آنے والے زمانوں میں ہم ملیں گے تو سہی لیکن اسی طرح جیسے دو مسافر اپنی اپنی ٹرین کے انتظار میں پلیٹ فارم پہ ملتے ہیں، کچھ دیر بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں اور جدا ہو جاتے ہیں، پھر سے ملنے کے خواب آنکھوں میں سجائے۔

یہ انیس سو چوراسی کا موسم گرما تھا!

تیئس مئی کی دوپہر، گیٹ پہ ہونے والی زوردار دستک، ڈاکیے کی ایک سربمہر لفافے کے ساتھ موجودگی اور اماں کی بوکھلاہٹ! یہ تھی اماں کے گھونسلے سے اڑنے سے پہلے کی ہماری آخری شام!

میڈیکل کالج کی فہرست میں ہمارا نام آ چکا تھا لیکن جب تئیس مئی کو ڈاکیہ یہ اطلاع لایا کہ چوبئیس مئی یعنی کہ کل ہمیں کالج میں حاضر ہونا ہے تو گھر میں ایک کھلبلی سی مچ گئی۔ کچھ بھی تو تیار نہیں تھا، بستر، کپڑے ، روزمرہ استعمال کی چیزیں اور خود ہم بھی!

خیال یہ تھا کہ بلاوے سے پہلے کچھ دن تیاری کے لئے ملیں گے لیکن نہ جانے ڈاک خانے کی مہربانی تھی یا کالج انتظامیہ کی کہ ہمیں اس کا موقع ہی نہ دیا گیا۔

گھر میں ایمرجینسی نافذ ہو گئی۔ ابا سوچ رہے تھے کہ ان کی تو دفتر سے چھٹی نہیں سو چھوڑنے کون جائے گا؟ اماں بستر، سوٹ کیس اور کچھ برتنوں کی فکر میں ہلکان اور آپا ہمارے کپڑے سمیٹتی ہوئی۔ رہے ہم تو ہمیں سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی کہ کیا کریں؟ کیا نہ کریں؟

شام ہو گئی، بستر ہولڈال میں بندھ گیا، کپڑے اکھٹے کر لئے گئے، صابن، تولیہ، چمچ، پلیٹ، مگ پیک کر دیئے گئے۔ رات بارہ بجے کی تیزگام پہ ہماری اور بھائی کی ٹکٹ بک کروا دی گئی۔ اس ہڑبونگ میں ہمیں صرف یہ یاد رہا کہ ہم اپنے خوابوں کی تعبیر ڈھونڈنے جا رہے ہیں۔

ابا نے سر پہ ہاتھ پھیرا، اماں نے گلے سے لگا کر پیار کیا اور لیجیے جناب ہو گئی رخصتی ہماری!

صبح سات بجے لاہور پہنچے اور سٹیشن سے رکشہ پکڑ کر سیدھے کالج! بھائی صاحب کالج گیٹ کے پاس سامان کی چوکیداری پہ کھڑے ہوئے اور ہم آفس کی طرف چلے جہاں ہمارے استقبال کی تیاریاں مکمل تھیں۔

مختلف شہروں سے آئی ہوئی لڑکیاں اور ان کے ہمراہ والدین بھائی یا سرپرست، دمکتے چہروں کے ساتھ! اس دن جو دوستیاں بنیں وہ آج بھی قائم ہیں!

کالج آفس نے رہائش کے لئے ہمارے ہاتھ میں ایک پرچی تھمائی اور وارث روڈ پہ جانے کو کہا جہاں مختلف بلاکس کی وارڈنز کرسی میز بچھائے ان کے انتظار میں تھیں جنہیں کچھ خبر نہیں تھی کہ ہوسٹل میں کیسے رہنا ہو گا؟

ہوسٹل میں داخلہ ہو چکا، چوکیدار ہمارا بستر اور باقی سامان ایک ہال کمرے میں ایک چارپائی کے سرہانے رکھ چکا جہاں بیس پچیس چارپائیاں قطار میں بچھی تھیں، کچھ خالی اور کچھ بھری ہوئی۔ نوعمر لڑکیوں کے چہروں پہ صبح میں دیکھی جانے والی مسرت اب اداسی اور پریشانی میں بدل چکی تھی، کہیں کہیں بھیگا ہوا کاجل بھی تھا۔

ہم بھی چپ چاپ ایک چارپائی پہ بیٹھ گئے، بھائی الوداع کہہ کر جا چکا تھا۔ فون تو تھے نہیں کہ جھٹ سے ملاتے اور پیچھے رہ جانے والوں کو دل کا حال سناتے۔

سورج ڈھل رہا تھا، پرندے گھروں کو لوٹ رہے تھے لیکن وارث روڈ کے ہوسٹل میں موجود چڑیاں ان پناہ گاہوں کو نہیں لوٹ سکتی تھیں جہاں انہوں نے زندگی کے اٹھارہ برس گزارے تھے۔ وہ ایک نئے جہان کی تلاش میں ماں باپ کے گھونسلے کو خیرباد کہہ آئی تھیں جہاں ماں باپ کے حصے میں ان تمام برسوں کے بیتے پل تھے اور انہوں نے انہی یادوں کے سہارے بقیہ زندگی گزارنا تھی۔ لیکن ان کا دل خوشی سے ہلکورے لیتا تھا کہ جو ننھی منی روحیں ان کی گود میں اتری تھیں، انہیں وہ دنیا فتح کرنے کے لئے میدان میں اتار چکے تھے۔

اماں ابا کا یہ قرض تو ہم نے چکانا ہی تھا سو ہم نے بھی اپنا گھونسلہ خالی کر دیا ہے اور ہماری گود میں آنے والے بھی سات سمندر پار روانہ ہو چکے ہیں۔ انیس سو چوراسی اور دو ہزار اکیس کے سفر میں کچھ مماثلت نہیں سوائے اس کے کہ جذبوں کی شدت، احساس کے رنگ اور دل سے اٹھتی آنچ ویسی ہی ہے۔

واپسی کا طویل سفر جہاں فلم دیکھنے، کتاب پڑھنے کے بعد کچھ اور نہ ہو۔ ارد گرد اکتائے ہوئے مسافر ماسک پہنے اونگھ رہے ہوں، اداسی اپنے گھیرے میں لے رہی ہو، ایسے میں یادیں ہی سہارا بنتی ہیں، گدگداتی، کھلکھلاتی، مہکتی ہوئی حسین و شریر یادیں!

اور ہمارے پاس تو اس وقت تین نسلوں کی یادوں کا ذخیرہ ہے، جن کی اوٹ سے کبھی اماں ابا کے ساتھ گزرا ہمارا بچپن جھانکتا ہےاور کبھی تینوں بچوں کا ہمارے ساتھ گزرا ہوا وقت!

ایک بات ہم جان چکے ہیں کہ یہ زندگی کا سفر ہے، آگے بڑھنے کا سفر۔ وقت کا چکر جس کے پھیر میں ہر کسی نے آنا ہے، چاہے کوئی چاہے یا نہ چاہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments