افغان اور امریکی صدور نے ہمیں دھوکا دیا: افغان کمانڈر سمیع سادات


میں تھک گیا۔ مایوس ہو گیا۔ میں غصے میں ہوں۔ ہمیں سیاست اور صدور نے دھوکا دیا۔ افغان فوج کے لیفٹننٹ جنرل اور تخت کابل گرنے سے ایک دن پہلے کابل کے سیکیورٹی چیف بننے والے سمیع سعادت نے نیویارک ٹائمز میں چھپے آرٹیکل میں اشرف غنی، ٹرمپ اور بائیڈن کی غلطیاں گنوا دیں۔

افغان کمانڈر نے لکھا، صدر بائیڈن نے پچھلے ہفتے کہا امریکی فوج وہ جنگ کیوں لڑے جو افغان افواج خود اپنے لیے لڑنا نہیں چاہتیں۔ یہ درست ہے لیکن اس کی وجہ ہمارے امریکی پارٹنرز کا ہمیں بیچ منجدھار میں چھوڑنا، بائیڈن کی بے وفائی اور ان کے لہجے میں جھلکتی بے عزتی ہے۔ افغان فوج کو اقربا پروری اور بیوروکریسی جیسے مسائل کا سامنا تھا لیکن لڑائی اس لیے چھوڑی کیونکہ ہمارے پارٹنرز لڑائی چھوڑ چکے تھے۔ افغانستان کی فوج کے ہار ماننے کے پیچھے چھپے حقائق کو جھٹلاتے ہوئے امریکی صدر بائیڈن اور مغربی حکام کی الزام تراشی سے دکھ ہوتا ہے۔ کابل اور واشنگٹن میں سیاسی تقسیم نے افغان فوج کا گلا گھونٹ کر صلاحیت محدود کردی۔ امریکی لاجسٹک سپورٹ رکنے سے ہم مفلوج ہوئے اور رہی سہی کسر امریکا اور افغان قیادت کی جانب سے واضح حکمت عملی نہ ملنے سے پوری ہو گئی۔

سمیع سادات لکھتے ہیں، افغان فوج کا تھری اسٹار جرنیل ہوں۔ گیارہ ماہ 215 میوند کور کے 15 ہزار فوجیوں کے ساتھ جنگی آپریشنوں میں حصہ لیا، سینکڑوں افسر اور فوجی گنوائے۔ یہی وجہ ہے کہ اب میں تھک گیا ہوں مایوس ہو گیا ہوں۔ اس لیے اب میں فوج کا عملی نقطہ نظر پیش کرنا چاہتا ہوں۔ فوج کی غلطیوں کو چھپانا نہیں، ان کی عزت کا دفاع کرنا چاہتا ہوں۔ ہم میں سے بیشتر فوجی پوری عزت و قار اور بہادری سے لڑے لیکن امریکی اور افغان قیادت نے ہمیں مایوس کیا۔

دو ہفتے قبل جب میں لشکر گاہ میں طالبان کے حملے روک رہا تھا صدر اشرف غنی نے مجھے اسپیشل فورسز کا کمانڈر نامزد کر دیا۔ صورتحال کتنی خراب ہو چکی تھی یہ جانے بغیر اپنے دستوں کو چھوڑ کر کابل لڑنے پہنچا تو صدر غنی نے مجھے کابل کی سیکیورٹی کی اضافی ذمہ داری سونپ دی۔ مجھے موقع ہی نہ ملا طالبان قریب پہنچ چکے تھے اور غنی صاحب ملک سے فرار ہو گئے۔ اشرف غنی کے جلد بازی میں فرار ہونے سے طالبان کے ساتھ عبوری حکومت قائم کرنے کی کوششیں دم توڑ گئیں جس سے ہم شہر کو سنبھال پاتے یا انخلا میں مدد کر پاتے۔ ملک میں افراتفری پھیلی اور کابل ائرپورٹ سے جو مناظر سامنے آئے، سب نے دیکھے۔

امریکی صدر جو کہتے ہیں ہم نے بنا لڑے ہی ہتھیار ڈال دیے، افغان فوج ڈھے گئی۔ ایسا نہیں تھا، ہم بہادری سے لڑے اور آخر تک لڑے۔ ہم نے اس بیس سال کی جنگ میں 66 ہزار فوجی جانیں گنوائی ہیں۔ افغان فوج کیوں تنکوں کی طرح بکھری اس کی تین وجوہات ہیں۔ صدر ٹرمپ کے دوحہ معاہدے نے ہمیں گڑوایا۔ کیونکہ اس کے بعد خطے میں امریکی مفادات کی معیاد کا تعین ہو گیا تھا۔ امریکی اور افغان فورسز کے تعلقات میں راتوں رات تبدیلی آ گئی۔ طالبان کو حوصلہ مل گیا، فتح قریب نظر آنے لگی، وہ کھل کر مقابلے پر اتر آئے۔ روزانہ ہمارے درجنوں فوجیوں مرنے لگے۔

اپریل میں صدر بائیڈن نے ٹرمپ کے معاہدے کی توثیق کردی اور صورتحال بگاڑ کی طرف چلی گئی۔ افغان فوجیوں کو امریکیوں نے جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ تربیت دی۔ انخلا کی تاریخ آتے ہی ملٹری اور ٹرانسپورٹ سپورٹ دینے والے کنٹریکٹرز نے سامان لپیٹ لیا۔ جولائی تک سترہ ہزار کنٹریکٹرز افغانستان چھوڑ گئے۔ بلیک ہاک ہیلی کاپٹر، سی ون تھرٹی اور ڈرونز سسٹم ناقابل استعمال ہونے کی وجہ سے گراؤنڈ کر دیے گئے۔ یہی نہیں کنٹریکٹرز تمام سافٹ ویئرز اور ہتھیاروں کا سسٹم بھی لے گئے جس سے ہیلی کاپٹرز کا میزائل سسٹم، جدید گاڑیوں کی ٹریکنگ اور ہتھیار چلائے جاتے تھے، ٹارگٹس کی رئیل ٹائم انٹیلی جنس کا سسٹم بھی مفلوج ہو گیا۔ طالبان اسنائپرز اور جدید بارودی آلات سے لڑ رہے تھے۔ افغان فوج فضائی آپریشن اور لیزر گائیڈڈ ہتھیاروں سے محروم ہو چکی تھی۔ فوجی اڈوں پر فوجیوں کو مزید کمک اور ہتھیار بھی نہیں پہنچائے جا سکتے تھے جس سے وہ لڑتے اسی لیے فوج سرنڈر کرتی گئی۔

سمیع لکھتے ہیں افغان فوج کے ہارنے کی ایک اور وجہ کرپشن ہے۔ جس نے افغانستان حکومت اور فوجی نظام کو تباہ کر دیا۔ یہ ہمارا قومی المیہ ہے۔ حکومت ہی نہیں فوج میں بھی لوگوں اور اقربا پروری کی بنیاد پر نوکریاں اور ترقیاں ملیں۔ جن کے پاس معاملات چلانے کا فوجی تجربہ تھا نہ ہی فوجی دستوں کا اعتماد حاصل کرنے اور مورال بلند کرنے کی کوئی صلاحیت۔ فوجیوں کے کھانے کے راشن اور ایندھن کی سپلائی کے کنٹریکٹس میں بھی کرپشن ہوئی جس سے ان کا حوصلہ ختم ہو گیا۔

لیفٹننٹ جنرل سمیع کہتے ہیں۔ افغان فوج کو سیاست اور صدر نے دھوکا دیا۔ یہ ہمارے اکیلے کی جنگ نہیں تھی بلکہ عالمی جنگ تھی جس میں کئی افواج شامل تھیں۔ ہماری فوج کے لئے مشکل تھا کہ یہ ذمہ داری اکیلے لیتے اور لڑتے۔ یہ ایک فوجی شکست تھی لیکن سیاسی ناکامی کی وجہ سے ہوئی۔

جنرل سمیع سادات افغان نیشنل آرمی کے 215 مییوند کور جنوبی مغربی افغانستان کے کمانڈر رہے۔ افغانستان کی نیشنل انٹیلی جنس ایجنسی میں سینئیر ڈائریکٹر کے عہدے پر رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments