ہم لکیر پیٹتے رہیں گے


اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں ہم ایک ہیں۔ اور اسی اکائی کا مظاہرہ کرنے کے لیے اکثر مرد خواتین کو ہراساں کرتے نظر آتے ہیں، تو کبھی ریپ کر کے بتاتے ہیں کہ ہم مرد دو نہیں ایک ہیں۔

میں زیادہ تر اس موضوع پہ لکھنے سے گریز کرتی ہوں جس پر ہر کوئی لکھ رہا ہو۔ لیکن جب ایڈیٹر صاحب نے کہا کہ مجھے مینار پاکستان والے واقعے پہ لکھنا چاہیے تو میں سوچ میں پڑ گئی، کہ کیا لکھوں۔ اس کو سانحہ کہوں یا واقعہ۔ دوسرا یہ کہ سچی بات ہے میں اس موضوع پہ لکھنا نہیں چاہ رہی تھی۔ کہ اس واقعے میں ملوث مردوں پر ہر کوئی حسب توفیق لعن طعن کر رہا ہے۔ تو اب میرے چار جملے لکھنے سے کوئی جہنم رسید ہونے والا ہے، اور نہ ہی یہ سلسلہ تھمنے والا ہے۔

سادے لفظوں میں میری لعنت ملامت کرنے سے کوئی انقلاب نہیں آنے والا، تو پھر کیا لکھنا۔ لیکن جب اس واقعے کی حقیقت کھلی تو شکر ادا کیا کہ اس پہ کچھ نہیں لکھا۔ لیکن اب اگر لکھنے ہی لگی ہوں تو پہلے یہ بتا دوں کہ مجھے اقبال پارک میں ہونے والے واقعے پہ شدید دکھ ہے۔ جو ہوا وہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ مذہب کی بحث میں پڑے بغیر کہوں گی کہ جو ہوا وہ انتہائی غلط تھا۔ کوئی معاشرہ مسلم ہو یا غیر مسلم، اپنی کمیونٹی کو یہ اجازت کبھی نہیں دیتا کہ وہ کسی انسان کو کھلونا سمجھ کر کھیلنا شروع کر دے۔

کبھی خبر آتی ہے کہ بھائی نے بہن کے ساتھ بدفعلی کردی، کبھی سنتے ہیں معصوم کلیوں کو مسل دیا گیا۔ کبھی پتہ چلتا ہے راہ چلتی عورت کو ہراس کیا گیا۔ جتنا یہ خبریں سننے کو ملتی ہیں اتنا ہی ان میں تیزی آتی جاتی ہے۔ ایک واقعہ منظر پہ آتا ہے تو اس کے بعد اسی کیٹگری کی لائنیں لگ جاتی ہیں، نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ ایسے جرائم میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، لیکن کوئی پکڑ میں نہیں آتا۔ کبھی سنتے تھے کہ لڑکی کو اکیلے دیکھ کر سنسان سڑک پر ہراس کیا گیا۔ لیکن اب یہ سب ماضی کا قصہ بن گیا ہے۔ اب تو لڑکی پر حملہ کرنے کے لیے سنسان سڑک کا انتظار کیا جاتا ہے نہ اس کے تنہا ہونے کا۔ اب تو اگر مرد نیت باندھ لے تو ہزاروں کے مجمعے میں بھی سینکڑوں مرد عورت پہ حملہ کر دیں گے۔ اور انھیں کسی کا کوئی ڈر، کوئی خوف نہیں۔

مینار پاکستان میں خاتون کے ساتھ معجمہ کا کھیلنا، بیہودگی کا مظاہرہ کرنا اخلاقی گراوٹ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ لیکن ایسے معاشرے کو کون سمجھائے۔ جو عورتوں کو تو خود پر کنٹرول کرنے اور سات پردوں میں چھپانے کو کہے لیکن ساتھ ہی مردوں کو ایسی پابندیوں سے استثنی دے دے۔ جب ایک سوچ ذہنوں میں نقش کر دی جائے کہ عورت ہو یا اس کا لباس وہ مردوں میں ہیجان پیدا کرتا ہے۔ تو پھر اس معاشرے کے لوگوں کی ذہنیت کے پست ہونے کا تاثر ملتا ہے۔

ہمیں اقبال پارک میں ہونے والے واقعے کے لیے ذہنی طور پر تیار بھی رہنا چاہیے۔ کئی بار دیکھا گیا ہے کہ خواتین کو ہراساں کرنے کے لیے نوجوان لڑکے موٹر سائیکل پہ بیٹھ کر نازیبا حرکات کر رہے ہوتے ہیں، لیکن کبھی پولیس کی زد میں نہیں آئے۔ جبکہ یہ نازیبا حرکات وہ سرعام کر رہے ہوتے ہیں۔ اور راہ چلتے لوگوں کی آنکھیں بند نہیں ہوتیں، وہ نوجوانوں کو فحش حرکات کرتے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ لیکن ایسے نوجوانوں کو کوئی بھی اس فعل پر روکتا ہے نہ پولیس کو مطلع کرتا ہے۔ اور قانون کے رکھوالے بھی بے خبر رہتے ہیں۔

کوئی ریپ ہو، ہراسمینٹ ہو، ذہنی و جسمانی تشدد ہو۔ معاملہ کنٹرول سے باہر ہو جائے تو بریکنگ نیوز آتی ہے، ویڈیو وائرل ہوتی ہے۔ تو پھر بڑے افسروں کے ساتھ ساتھ وزیر مشیر بھی جاگ جاتے ہیں۔ چھوٹے افسرز معطل بھی ہوتے ہیں۔ اور ان کے متبادل بھی آتے ہیں۔ مجرم کو عبرتناک سزا کے دعوے اور انصاف کے وعدے کیے جاتے ہیں۔ لیکن اگلے ہی دن ذہنی بیمار لوگ مزید شدت کے ساتھ کسی نئے شکار پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ اور چند دن بعد سب وہی ڈرامہ پھر سے شروع ہوجاتا ہے۔

ہم ہمیشہ کسی بھی سانحے پر چار دن ماتم کرتے ہیں۔ ٹاک شو میں ہارٹ ایشو رکھتے ہیں۔ اور پھر کسی نئے موضوع کو تلاش کر کے پرانے کو بھول جاتے ہیں۔ ہم تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے، کیا کوئی واقعہ صرف اس لیے ہوتا ہے کہ وہ میڈیا کا پیٹ بھر سکے۔ مجھے پارسا اور پاپی کی بحث میں نہیں پڑنا، کون اچھا ہے کون برا، یہ کسی کا ذاتی فعل ہے۔ میں اتنا جانتی ہوں عورت کو انسان ضرور مانا جائے، جو کہ نہیں مانا جاتا۔

سانپ ہمیشہ نکل جاتا ہے اور ہم لکیر پیٹتے رہتے ہیں۔ کوئی بھی سانحہ ہو، حادثہ ہو، وہ ہونا ہوتا ہے سو ہوجاتا ہے۔ کبھی کسی نے کوشش نہیں کی کہ ایسا دلخراش واقعہ رونما نہ ہونے پائے، اس کے لیے کوئی منصوبہ بندی ہے اور نہ حادثے کے موقع پر کچھ کیا جاتا ہے۔ ہاں جب حادثہ ہو کر گزر جائے، رو پیٹ لیا جائے۔ تب اس بارے میں افسوس کیا جاتا ہے کہ کیا ہوا۔ یہ پھر بھی نہیں سوچا جاتا کہ ایسا ہونے کی نوبت کیوں آئی۔ شہرت کی ترسی کوئی عام ٹک ٹاکر ہو، کسی مشہور سفیر کی بیٹی ہو۔ کسی گلی کی نکڑ سے چیز لیتی کوئی بچی ہو یا کسی چنگ چی میں بیٹھی کوئی دوشیزہ۔ کوئی طوائف ہو یا پارسا۔ سب صنف نازک ایک ہی قطار میں کھڑی ہیں، جدھر گدھ انھیں نوچنے کے لیے ہمہ وقت چوکس ہیں۔

میں کسی مرد یا عورت کو مورد الزام نہیں ٹھہراوں گی۔ نہ یہ کہوں گی کہ کسی کا لباس ہیجان پیدا کرتا ہے اور نہ یہ کہوں گی کہ مرد کو خود پہ کنٹرول نہیں رہا۔ معاشرتی بے راہ روی میں کسی مرد یا عورت کا کوئی قصور نہیں۔ قصور وار اگر کوئی ہے تو وہ ریاستی ادارے ہیں۔ جو قانون سازی کرتے ہیں، قانون لاگو کرتے ہیں اور قانون پہ عمل کروانے کی تنخواہ بھی لیتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ان اداروں میں موجود ملازمین کو خود بھی نہیں پتہ کہ وہ کون سا قانون نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ انھیں انصاف دینا ہے یا پھر خاموش تماشائی کا کردار ادا کرنا ہے۔ قانون کا کام سب کو تحفظ اور انصاف دینا ہے۔ قانون کے اداروں کا کام قانون پہ عمل کروانا ہے۔ لیکن قانون کہاں ہے، کسی کو کچھ پتہ نہیں۔ یہاں تک کہ خود قانونی اداروں کو بھی نہیں پتا کہ قانون لاپتہ ہے۔

سوال یہ نہیں کہ مینار پاکستان میں ہونے والا واقعہ اصلی تھا یا نقلی۔ لڑکی جھوٹی تھی یا سچی۔ سوال یہ ہے کہ وقت پر ریسکیو ٹیم کیوں نہیں پہنچی۔

قصور وار عورت ہے نا مرد۔ قصور وار ریاست ہے، قصور وار وہ لوگ ہیں جو ناقص قوانین بناتے ہیں اور اس پہ مزید یہ کہ قانون پہ عمل نہ کروا کے ان ناقص قوانین کو مزید ناقص بنا دیتے ہیں۔ قصور عورت کا ہو یا مرد کا، اداروں کو الرٹ رہنا چاہیے۔ اگر اداروں کی موجودگی میں ظلم ہوتا ہے اور بڑھتا جاتا ہے تو پھر یہ قصور نافذ کرنے والے اداروں کا ہے، کسی مرد یا عورت کا نہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments