منیر نیازی کے آٹوگراف سے انورسدید اور رام ریاض کے احمد ندیم قاسمی پر سنگین الزامات تک



منیر نیازی کے بارے کہا جاتا ہے کہ وہ چاہنے کے باوجود احمد فراز کی طرح خواتین میں بہت زیادہ مقبول تو نہ ہو سکے تھے لیکن ان کے سارے شوق فراز سے ملتے جلتے ہی تھے بلکہ ایک دو مقامات پر وہ فراز کو پیچھے چھوڑتے ہوئے بھی محسوس ہوتے ہیں، ہاں ان کے ہاں اپنی شکل و صورت کے حوالے سے ”ہم سا ہو تو سامنے آئے“ والی کیفیت بھرپور طریقے سے پائی جاتی تھی اور اکثر اپنی اس خودپسندی کا وہ برملا اظہار بھی کرنے سے نہ کتراتے تھے، عام طور پر لکھنے پڑھنے والے بندے منکسرالمزاج ہوا کرتے ہیں اور ان میں کرکٹرز اور شوبز اسٹارز کی مانند نخرے نہیں ہوتے ہیں لیکن منیر نیازی میں نخرہ بہت تھا اور وہ بھی ایسا کہ اپنے چاہنے والوں کا دل توڑتے ہوئے ذرا بھی ہچکچاتے نہ تھے، خاکسار کو یاد آ رہا ہے کہ ایک بار جب ہم اسٹوڈنٹس تھے تو وہ جھنگ ایک مشاعرے میں شرکت کے لیے تشریف لائے، رات تقریباً ایک ڈیڑھ بجے بلدیہ کے اقبال ہال میں مشاعرہ کے اختتام پر لپک کر ہم ان کے پاس پہنچے اور آٹو گراف دینے کی استدعا کی لیکن انہوں نے سختی سے انکار کر دیا، ان کے لہجے میں واضح طور پر حتمی سا انداز تھا لیکن ہم بھی ایک نمبر کے ضدی تھے نہ مانے اور پھر آٹوگراف بک آگے کردی، انہوں نے ذرا غصے سے کہا

”آپ سے کہا نہیں کہ میں آٹو گراف نہیں دیتا“
خاکسار نے ذرا بے تکلفانہ انداز اختیار کرتے ہوئے کہا
”سر! ہم تو بغیر آٹوگراف لیے ٹلنے والے نہیں ہیں“

لیکن وہ منہ دوسری طرف کر کے بیٹھ گئے اور بار بار کہنے کے باوجود بھی انہوں نے اس طالب علم کی ننھی سی خواہش پوری نہ کی اور اس ”سانحے“ کے بعد ہم نے کبھی کسی کے آگے آٹو گراف نہ کی کہ دل ہی ٹوٹ گیا تھا اور سچ پوچھیں تو ہمیں منیر نیازی ہی برے لگنے شروع ہو گئے تھے حالانکہ ان کی پنجابی شاعری ہماری روح تک میں اتر جایا کرتی تھی/ہے۔

جہاں تک ڈاکٹر انور سدید کی بات ہے تو وہ بلاشبہ صاحب مطالعہ انسان تھے اور ان سے صاحب اسلوب اب مشکل ہی سے ملتے ہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ڈاکٹر وزیر آغا اور ان کے ہمنواؤں کو خوش کرنے کے لیے وہ کبھی کبھار بہت چھوٹی سی حرکت بھی کر جاتے تھے اور ڈاکٹر سلیم اختر جس طرح ڈاکٹر وزیر آغا کا نام سنتے ہی مغلظات کا سہارا لینے سے بھی باز نہ آتے تھے، بالکل ایسے ہی انور سدید بھی کیا کرتے تھے، ہمیں یاد ہے کہ روزنامہ خبریں کی جاب کے دنوں جب انور سدید بھی وہیں ہوتے تھے اور انہیں ”ڈکشنری“ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا تھا کہ ہر اردو یا انگریزی لفظ کے معانی ان ہی سے پوچھے جاتے تھے اور وہ لارنس روڈ پر موجود خبریں دفتر کی بیسمنٹ میں بیٹھتے تھے کہ ان کے لیے سیڑھیاں چڑھنا مشکل تھا، ایک بار انور سدید نے ایک مضمون میں لکھ مارا کہ

”احمد ندیم قاسمی منصورہ سے مالش کرواتے ہیں“

تو روزنامہ خبریں کے میگزین ایڈیٹر ممتاز شفیع (جنہیں ”میم شین“ کہا جاتا تھا) نے چیف ایڈیٹر روزنامہ خبریں ضیا شاہد کو اس بارے آگاہ کیا تو خاکسار کے سامنے ضیا شاہد نے ذرا تیز لہجے میں کہا

”یار ممتاز شفیع! آپ ایک بار آغا اور قاسمی کو ایک ساتھ بٹھا کر قصہ ہی مکا دو۔ یہ روز روز کی چخ چخ تو ختم ہو“

بہرحال انور سدید کا وہ آگ لگاتا جملہ شائع نہ کیا گیا تھا کہ خبریں کی انتظامیہ کے نزدیک قاسمی مرحوم کے فدائین اس سے ناراض ہوسکتے تھے،

پھر خاکسار کو معلوم ہوا کہ ایسا پہلے بھی کئی بار ہو چکا تھا کہ انور سدید اکثر قاسمی صاحب بارے ایسے نامناسب ریمارکس دے دیا کرتے تھے۔

چلتے چلتے قاسمی صاحب پر جھنگ کے ایک شاعر کے حوالے سے ایک الزام کا ذکر بھی کرتے چلیں کہ جب ان کا ادبی پرچہ ”فنون“ عروج پر تھا اور اس میں شائع ہونا فخر کی بات سمجھی جاتی تھی تو جھنگ کے شاعر رام ریاض نے اس پرچے کے لیے اپنی غزلیں بھیجنا شروع کردیں تو الزام لگانے والوں کے بقول چونکہ رام ریاض کا لب و لہجہ چونکا دینے والا تھا تو قاسمی صاحب اور ان کے اردگرد موجود رام ریاض کے کلام کا نیا پن دیکھ کر دہل گئے اور انہوں نے پہلے اپنے چند حواریوں سے رام ریاض کے لہجے میں کلام لکھوا کر شائع کروائی اور پھر جا کر رام ریاض کا کلام شائع کرنا تاکہ رام ریاض پر اس انداز کی نقالی کا الزام لگے اور جھنگ کے حلقے بتاتے ہیں کہ ایسا ایک بار نہیں کئی بار ہوا تھا اور رام ریاض اس کا تذکرہ اکثر اپنے آس پاس موجود لوگوں سے گلے کے انداز میں کیا کرتے تھے، اب اس الزام میں کتنی صداقت ہے یہ قاسمی مرحوم کے رازدار ہی بتا سکتے ہیں۔

آخر میں رام ریاض کا ایک خوبصورت شعر سن لیں
ہاتھ خالی ہیں تو دانائی کا اظہار نہ کر
ایسی باتوں کا بڑے لوگ برا مانتے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments